رابعہ سید
باجوڑ سے بونیر تک، بٹگرام سے مانسہرہ تک، قدرت کا قہر یوں نازل ہوا کہ گھروں کی دیواریں زمین بوس ہو گئیں، خواب ملبے تلے دفن ہو گئے اور ذریعہ معاش پانیوں میں بہہ گیا۔ یہ صرف مکانوں کا نقصان نہیں، بلکہ نسلوں کے سہانے خواب اور یادیں لمحوں میں خاکستر ہو گئیں۔
آج ان سوگواروں کی آنکھوں میں کرب ہے، دلوں پر بوجھ ہے، اور زندگی سوال بن کر کھڑی ہے۔ جنہیں کل تک ہم زندگی کا سہارا کہتے تھے، وہ آج زمین کے نیچے جا سوئے ہیں۔ جن ہاتھوں نے دوسروں کو بچایا، وہ خود ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ ہر بے گھر، ہر زخمی، ہر متاثرہ خاندان ہماری اجتماعی ذمے داری ہے۔ ہم ان کے ساتھ غمزدہ ہیں، ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں، اور ہم دعاگو ہیں کہ مرحومین کو سکون ملے، زخمی جلد شفا یاب ہوں اور لواحقین کو صبر و حوصلہ عطا ہو۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سانحہ صرف ایک علاقائی المیہ ہے یا ایک قومی لمحۂ حساب؟ کیا ہم اب بھی آنکھیں بند کر کے یہ سمجھتے رہیں گے کہ یہ محض "قدرتی آفات” ہیں؟ یا ہم تسلیم کریں گے کہ زمین کا توازن بگڑ چکا ہے، اور یہ بگاڑ ہماری ہی غفلت اور لالچ کا نتیجہ ہے؟
گلوبل وارمنگ؛ ہماری نظراندازی کا خمیازہ
دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ ایک سنگین حقیقت کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، غیر متوقع بارشیں اور شدید طوفان معمول بن گئے ہیں۔ پاکستان، جو خود کو ہمیشہ "قدرتی حسن” کی سرزمین کہتا ہے، ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ مگر افسوس، یہاں اب بھی ماحولیاتی پالیسی کتابوں کے اوراق میں دب کر رہ جاتی ہے اور عملی اقدامات ناپید ہیں۔
یہ المیہ ہمیں چیخ چیخ کر یاد دلا رہا ہے کہ وقت کم ہے۔ اگر آج بھی ہم بیدار نہ ہوئے، اگر آج بھی ہم نے اپنے وسائل کا غیر دانشمندانہ استعمال جاری رکھا، اگر آج بھی ہم نے جنگلات کاٹنے اور دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں مداخلت نہ روکی، تو آنے والی نسلیں صرف سوال کریں گی:
"جب زمین پکار رہی تھی، تم کہاں تھے؟”
اجتماعی ذمہداری
یہ وقت صرف امداد بانٹنے کا نہیں بلکہ سوچ بدلنے کا ہے۔ یہ وقت محض متاثرین کی دلاسہ دہی کا نہیں بلکہ ایک قومی عزم کا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم یہ ماننا ہوگا کہ ماحولیاتی بحران اب کوئی مستقبل کا خطرہ نہیں، یہ ہمارے حال کا کڑوا سچ ہے۔
ہمیں اپنے شہروں کی منصوبہ بندی سے لے کر گاؤں کی کھیتی باڑی تک ہر شعبے میں پائیداری (sustainability) کو بنیاد بنانا ہوگا۔ یہ ذمہ داری صرف حکومت یا اداروں پر نہیں، بلکہ ہر فرد پر ہے۔
باجوڑ سے بونیر تک کا یہ دردناک سفر ہمیں ایک سبق دے رہا ہے:
قدرت کے قہر سے بچنے کے لیے ہمیں قدرت کے اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ یہ المیہ صرف ایک علاقائی حادثہ نہیں بلکہ ایک قومی لمحۂ حساب ہے۔ اور اگر ہم نے آج بھی اپنے رویے نہ بدلے تو آنے والے کل میں یہ زمین ہمیں معاف نہیں کرے گی۔