Skip to content

ویلج بھونجہ ،جغرافیہ،آبادی،وسائل اور مسائل ،ایک تجزیہ

شیئر

شیئر

حاجرہ دلدار

ویلج کونسل بھونجہ جو کہ ضلع مانسہرہ کی تحصیل بالا کوٹ سے 39 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔جس کی کل ابادی 18 ہزار ہے۔تحصیل بالاکوٹ کا یہ علاقہ 19 بستیوں پر مشتمل ہےجن میں نوری ،کوہالی ، منگل گراں ، ہوچڑی ، نکہ ،تھونیاں ، ہوتر ، چھڑیالی ، سیری ، گراں ،ڈنہ نکہ ، شانڑاں،نلہ،اندھرا بیلہ ،شخاراں،پتن،ڈبیہ،موھری شامل ہیں ۔یہ ایک بہت خوبصورت اور سر سبز وادی ہے۔بھونجہ میں کل 22 سو گھرانے ہیں۔تازہ ترین مردم شماری کے مطابق خواتین کی تعداد 8 ہزار ہے جبکہ 7 ہزار مرد اور باقی کی ابادی بچوں پر مشتمل ہے۔تحصیل بالاکوٹ کی یہ سبز شاداب وادی چھوٹی چھوٹی بستیوں پر مشتمل ہے۔اور ان بستیوں میں مختلف قبائل اباد ہیں۔یہاں رہنے والے لوگوں میں 45 فیصد مغل،5فیصدسواتی،25 فیصد اعوان، ،15 فیصد گجر،پانچ فیصد تنولی اور پانچ فیصد دیگر قبائل/برادریاں آباد ہیں۔وادی بھونجہ ایک پہاڑی علاقہ ہے موسم سرما میں پہاڑوں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہیں۔سردیوں کے دنوں میں جب کبھی سورج ان برف سے ڈھکے پہاڑوں پر پڑتا ہے تو ان کی چمک میں اضافہ ہو جاتا ہے یہ خوبصورت قدرتی مناظر دیکھنے والوں کی انکھوں کو ٹھنڈک بخشتے ہیں۔


اس علاقے کا درجہ حرارت سردیوں میں منفی میں چلا جاتا ہے جب کہ گرمیوں کے دنوں میں یہاں کا موسم بہت پرسکون ہوتا ہے نہ زیادہ سردی نہ زیادہ گرمی۔چونکہ یہ وادی جہاں واقع ہے اس کے دونوں اطراف میں قدرتی چشمے بہتے ہیں جن کا صاف شفاف پانی قدرت کی عظیم نعمت بھی ہے ان گرمیوں کے دنوں میں ان کی وجہ سے یہاں ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔اس علاقے میں سرکاری واٹر سپلائی سکیموں کی سہولت موجود ہے جن میں تین بر وقت فعال ہیں۔اس کے علاوہ پانی کے ذرائع قدرتی چشمے ہیں جن کا ٹھنڈا شفاف پانی قدرت کے بڑے خزانوں میں سے ایک ہے۔


سردیوں میں برف باری کی وجہ سے جب پانی کا کنکشن ٹوٹ جاتا ہے تو دوبارہ بحال ہونے تک خواتین چشموں سے پانی لاتی ہیں سخت سردی کے موسم میں یہ نہایت محنت و مشقت کا کام ہے۔گاؤں کے 95 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے اگرچہ سردیوں کے دنوں میں درپیش مسائل کے باوجود یہ لوگ قدرت کہ اس عظیم نعمت سے مالا مال ہیں۔گاؤں میں کوئی پکی سڑک موجود نہیں اس کی وجہ سے یہاں کے رہائشی لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔40 کلومیٹر کی لمبائی کی کچی سڑکیں جن پر صرف جیپ کے ذریعے سفر ممکن ہے۔موسم سرما میں برف باری کی وجہ سے بڑے پتھر ٹوٹ کر راستے میں گر جاتے ہیں اور یہ صرف بھی بند ہو جاتی ہے۔جس کی وجہ سے یہاں کے رہائشی لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مون سون کی بارشیں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بھی راستے بند ہو جاتے ہیں ۔گاؤں میں صحت کی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس سرسبز وادی کا بہت خوبصورت منظر اور یہاں کی اب و ہوا اگر ایک طرف دنیا بھر کے لیے قدرت کی عظیم الشان نعمت ہے تو دوسری طرف وہاں کے رہائشی لوگوں کے لیے سخت ازمائش بھی ہے۔موسم سرما میں راستے بند ہو جاتے ہیں اور شہروں تک رسائی ممکن نہیں رہتی گاؤں میں کوئی بڑا ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کو اپنے پیاروں کی جان کی قربانیاں دینی برتی ہیں۔پکی سڑکیں اور ہسپتال اس گاؤں کی بنیادی ضروریات ہیں لیکن ابھی تک ہمارے گورنمنٹ نے اس کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔
اگر گاؤں میں پکے سر کے بن جائیں تو شہروں تک رسائی اسان ہو جائے گی اور کوئی جانی و مالی نقصانات نہ ہوں اس گاؤں کی دوسری اہم ضرورت ایک بڑا سرکاری ہسپتال ہے گاؤں میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو بہت سارے جانی نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔


اس علاقے کی زیادہ تر ابادی مفلس لوگوں پر مشتمل ہے جو کہ معاشی لحاظ سے بہت کمزور اور شہروں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے اور اس کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ابادی کی اکثریت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہماری حکومت کو چاہیے کہ اس علاقے میں ایک بڑا سرکاری ہسپتال بنایا جائے تاکہ وہاں کے رہائشی لوگوں کی تکالیف کم کی جا سکیں۔
اس کے علاوہ یہاں کے لوگ کم تعلیم یافتہ ہونے کی بدولت تنگ نظری کا شکار ہیں اور خواتین کے صحت کے مسائل کو زیر بحث نہیں لایا جاتا اور بچوں کی پیدائش کے دوران ماں اور بچے دونوں کو جانی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
اس وادی کا تیسرا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم کی کمی ہے۔18 ہزار افراد پر مشتمل اس گاؤں میں صرف ایک ہی ہائی سکول موجود ہے وہ بھی لڑکوں کے لیے جہاں پڑھانے کے لیے اساتذہ بھی موجود نہیں۔اس علاقے میں لڑکیوں کے لیے کوئی ہائی سکول موجود نہیں۔
کیونکہ لڑکیاں تعداد میں زیادہ ہیں اور تعلیم کی سہولیات گاؤں میں موجود نہیں اس لیے وہاں تعلیم کی کمی سے مختلف مسائل جنم لے رہے ہیں۔گاؤں میں ہائر سیکنڈری سکول کی ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ گاؤں کی لڑکیوں کے لیے بھی ہائی سکول وہاں کے رہنے والے لوگوں کی بنیادی ضرورت ہے۔
موجودہ دور میں تعلیم کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے۔اس وادی میں تعلیم کی کمی کی بدولت یہ لوگ ابھی تک ترقی سے میلوں دور ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس گاؤں میں گرلز ہائی سکول اور ہائر سیکنڈری سکول کے لیے فورا اقدامات کریں۔تاکہ یہاں سے لوگوں کو تعلیمی شعور کے ذریعے ترقی کی راہوں پر گامزن کیا جا سکے۔
اس علاقے میں جتنے بھی سرکاری سکول موجود ہیں وہاں بھی تعلیم کے نظام میں بہتری کی ضرورت ہے کئی سکولوں میں اساتذہ کی کمی ہے تو کئی سکولوں میں سرکاری فنڈ نہ ہونے کی صورت میں مختلف قسم کے مسائل در پیش ہیں ۔کیوں کہ یہاں رہنے والے لوگوں کی خالص خوراک اور اچھی اب و ہوا کی وجہ سے یہاں کے لوگ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے طاقتور اور ذہین ہوتے ہیں ان کو نہ صرف اپنے علاقے بلکہ اپنے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔اور اس کے لیے وہاں تعلیم کا عام ہونا ضروری ہے۔
تعلیمی شعور نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی نوجوان نسل کو درپیش مسائل میں ایک سب سے بڑا مسئلہ کم عمری کی شادیاں ہیں ۔کم عمری کی شادیوں کے نتیجے میں خواتین کو صحت کے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تعلیم کی کمی کی بدولت جنسی تعصب بھی عام ہے مرد کو اج بھی ہر معاملے میں حکمرانی حاصل ہے۔مرد معاشرے میں سب سے طاقتور ستون سمجھا جاتا ہے اور عورت کو غلاموں کی سی حیثیت دی جاتی ہے۔


خواتین کو اج بھی ہر معاملے میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں ان کو گھروں کے اندر محدود رکھا جاتا ہے جبکہ وہاں کی خواتین ذہین اور محنتی خواتین ہیں۔مرد صرف پیسہ کمانے اور سارے فیصلے کرنے کے لیے ہے جب کہ دیگر تمام ذمہ داریاں خواتین کی ہیں۔
عورتیں نہ صرف گھر اور بچے سنبھالتی ہیں بلکہ سارے بیرونی کام بھی کرتی ہیں جن میں جنگل سے لکڑیاں لانا اور گھاس کاٹنا اور باقی با مشقت کام بھی شامل ہیں۔یہاں کی عورتیں گھروں کے کام کرنے کے بعد جنگل کا رخ کرتی ہیں اور خود لکڑیاں کاٹ کر لاتی ہیں سردیوں کے لیے بھی لکڑیاں اکٹھی کی جاتی ہیں جو کہ خواتین کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔
جنگل کی طرف جانے والے خطرناک راستے پتھریلے اور تنگ ہوتے ہیں ان راستوں پر کئی حادثات ماضی میں ہو چکے ہیں۔پاؤں پھسلنے کی وجہ سے لوگوں کو عبرت ناک موت ملتی ہے۔اس علاقے میں ایسے بہت سے واقعات ائے دن ہوتے ہیں کہ خواتین جنگل کی طرف جاتی ہیں اور کئی بار ان کی لاش تک نہیں ملتی۔گاؤں میں سوئی گیس نہ ہونے کی بدولت وہاں کے لوگوں کو ائے دن ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عدم توازن نہ ہونے کی وجہ سے ایسی عظیم قربانیاں خواتین کے حصے میں اتی ہیں۔


اس علاقے کے لوگوں کا ایک اور بڑا مسئلہ پل ہے چونکہ یہ وادی دونوں اطراف سے دریاؤں کے درمیان واقع ہے اس لیے وہاں ایک پختہ پل کی ضرورت ہے۔گاؤں میں ایک ہی ہائی سکول موجود ہے اور ایک ہی چھوٹا سرکاری اسپتال جو کہ اس طرف واقع ہے جہاں جانے کا راستہ دو دریاؤں کے بعد اتا ہے۔لکڑی کا کچا پل وہاں کے رہائشی لوگ لگاتے ہیں تو زیادہ بارش ہونے کے نتیجے میں جب سیلاب اتے ہیں تو اس چھوٹے پل کو بہا لے جاتے ہیں۔یہاں ایک پختہ پل کی ضرورت ہے پل نہ ہونے کی وجہ سے سکول جانے والے چھوٹے بچے اور ان کی شہادت کے واقعات ماضی میں بھی موجود ہیں اور اب بھی ائے دن کوئی نہ کوئی واقعہ پیش اتا ہے۔پل کا نہ ہونا اس گاؤں کا ایک بڑا مسئلہ ہے ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہاں سرکاری پل تعمیر کروایا جائے اور معصوم بچوں کی جانوں کی حفاظت ممکن بنائی جائے۔
اس علاقے میں روزانہ 15 گھنٹے بجلی دستیاب رہتی ہے۔مواصلات کے ذرائع میں بجلی کی کمی کی وجہ سے مختلف مسائل ہیں۔سلاد کا ذریعہ موبائل فون ہے انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔4G اور 3G نہ ہونے کے برابر ہے۔BTS نہ ہونے کی صورت میں مواصلاتی نظام ناقص ہے۔اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی مواصلاتی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔موسم سرما میں برف باری کی وجہ سے بجلی کے کنیکشن ٹوٹ جاتے ہیں جن کی وجہ سے روابط کے تمام ذرائع بند ہو جاتے ہیں۔اور لوگوں کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس علاقے کو درپیش مسائل اور ان کا حال کوئی ناممکن بات نہیں صرف اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔اس وادی کے زیادہ تر لوگوں کا پیشہ زراعت ہے۔یہاں کے لوگ نہایت سادہ زندگی گزارتے ہیں کسان فصلوں پر ہل چلاتے ہیں اور اس کے لیے جدید مشینری نہیں بلکہ قدیم طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔یہاں اگائی جانے والی فصلوں میں مکی،گندم،مٹر اور موسمی لحاظ سے دیگر فصلیں اگائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ یہاں لوگ سبزیوں کی کاشت بھی کرتے ہیں جو کہ نہ صرف یہ لوگ اپنے کھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں بلکہ اپنے علاقے سے باہر بھی فروخت کی جاتی ہیں۔زراعت کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اگر ہماری حکومت اس پر غور کرے تو اس خطے کی زرخیز زمین سے نہ صرف اس علاقے بلکہ پورے ملک کو استفادہ ہو سکتا ہے۔
اس علاقے میں پالے جانے والی مویشیوں کی کل تعداد 18 ہزار ہے جن میں 3 ہزار گائے بیل 10 ہزار بھینس 5 ہزار بکریاں اور 10 ہزار مرغیاں شامل ہیں۔یہ تمام مویشی گھروں میں پالے جاتے ہیں اور ان سے مختلف فوائد حاصل کیے جاتے ہیں۔قربانیوں میں یہ لوگ اپنے جانور اپنے علاقے سے باہر فروخت کرتے ہیں اور استفادہ حاصل کرتے ہیں۔بس میں گرم میں یہاں کے لوگ اپنے مویشیوں کے ساتھ پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں اور سردیوں میں برف باری کی وجہ سے واپس میدانی علاقوں کی طرف نقل مکانی کی جاتی ہے۔
سردیوں کے لیے یہاں خاص قسم کے مٹی کے گھر بنائے گئے ہیں جو کہ سردیوں میں اگ جلنے کی وجہ سے گرم رہتے ہیں سردیوں میں یہاں زندگی اور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔راستے بند ہو جاتے ہیں مواصلاتی نظام کام نہیں کرتے بجلی میسر نہیں ہوتی لوگ گھروں میں قید ہو جاتے ہیں۔
ان کو یہاں کی علاقائی زبان ہے گاؤں کے زیادہ تر لوگ ہند کو بولتے اور سمجھتے ہیں۔کرکٹ زیادہ تر کھیلے جانے والا کھیل ہے کرکٹ کے سالانہ مقابلے ہوتے ہیں اور ہر علاقے کی اپنی ایک ٹیم ہوتی ہے جو ٹیم جیت جاتی ہے وہ انعام کی حقدار ہوتی ہے۔یہاں کرکٹ لڑکوں کا کھیل سمجھا جاتا ہے اس کھیل میں ہر علاقے کے نوجوان بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
یہاں کی خواتین سلائی کڑھائی شوق سے کرتی ہیں اور گھروں کے اندر کے کام کرتی ہیں۔یہاں مختلف قبائل کے لوگ اباد ہیں جس کی وجہ سے قوم پرستی اور فرقہ واریت عروج پر ہے۔گاؤں میں بڑھتے ہوئے مسائل کی ایک بڑی وجہ وہاں افغانیوں کی رہائش بھی ہے۔افغانستان سے جو لوگ ہجرت کر کے پاکستان اتے ہیں وہ زیادہ تر دہی علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور یہ لوگ اپنے ساتھ اپنا نیا کلچر لے کر اتے ہیں جو کہ وہاں کے لوگوں اور ان کی ثقافتی نظام پر اثر انداز کرتا ہے۔غیرت کے نام پر یہ لوگ گاؤں میں قتل و غارتگری شروع کرتے ہیں اور گاؤں کی پرسکون ماحول کو خراب کر رہے ہیں۔ہماری حکومت کو چاہیے کہ ان کی امد کو غیر قانونی قرار دے اور ان کا داخلہ بند کروایا جائے۔
تحصیل بالاکوٹ کا یہ خوبصورت علاقہ زمین پر دوسرا کشمیر تصور کیا جاتا ہے۔خوبصورتی کا یہ مرکز صحت کے لحاظ سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔اس کی ابتدا خوشحالی چوک سے شروع ہوتی ہے اور بلند و بالا چوٹیوں تک جاتی ہے جو سال کے سات اٹھ ماہ برف سے ڈکی رہتی ہیں۔یہاں بہت سے مقامات ایسے ہیں جو سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔یہ وادی قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہے یہاں کی اب و ہوا بہت خوشگوار ہے۔یہاں موجود قدرتی چشمے ابشاریں خوبصورت پہاڑ اور برف سے ڈکی چوٹیاں اس وادی کے حسن کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔برج بالا یہاں کا حسین ترین مقام ہے جہاں ٹھنڈی ہوائیں شفاف پانی کے چشمے برف سے ڈھکے پہاڑ ذہنی سکون مہیا کرتے ہیں۔


اس کے علاوہ کوٹھیالی کا نظارہ اور جھنڈال کی ابشار قابل ذکر ہے۔پاکستان میں سیاحت کو فروخت دینے میں یہ علاقہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے اگر یہاں کے راستوں کو بحال کیا جائے۔
اس وادی کا ایک بڑا حصہ جنگلات پر مشتمل ہے یہاں پائے جانے والے مختلف پیڑ پودے مختلف امراض کی ادویات بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ان جنگلات کی عمدہ لکڑی عمارتی کاموں میں اور فرنیچر بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔یہ درخت نہ صرف انسانوں کے لیے مفید ہیں بلکہ یہاں کے جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں یہاں کے جنگلات میں جنگلی ہرن جنگلی بکرے اور مختلف اقسام کے پرندے اور جانوار پائے جاتے ہیں جن کا غیر قانونی شکار ان کی ناپیدی کی بڑی وجہ بنتا جا رہا ہے۔جنگلات کی غیر قانونی کٹائی نباتاتی نسلوں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوتی ہے اور علاقے کے لوگوں کو بھی اس سے کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔میک میں جنگلات کو چاہیے کہ اس کے خلاف اقدامات کیے جائیں اور جنگلات کی کٹائی کو غیر قانونی قرار دے کر یہاں کی میں بتاتی زندگی کو تحفظ دیا جائے اس کے علاوہ غیر قانونی شکار پر بھی پابندی لگائی جائے۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور دنیا کے نقشے پر خود کفیل ملک ثابت ہو سکتا ہے اگر وادی بھونجہ جیسے علاقوں پر نظر ثانی کی جائے۔حکومت کو چاہیے کہ وہاں چند اقدامات کریں اس سے نہ صرف وہاں رہنے والے لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے بلکہ پورے پاکستان کے لیے ترقی کی راہیں اموار ہوں گی۔

نوٹ: اس آرٹیکل کی تیاری کے لیے ویلج کونسل بھونجہ کے سیکرٹری بنارس صاحب،بھونجہ کے رہائشی ایکسپریس ٹی وی سے وابستہ محمد زولفقار اور افتخار صاحب سمیت علاقے کے عمائدین اور سوشل ورکرز سے معاونت حاصل کی گئی ہے۔اور فیکٹس کی کراس ویریفیکشن کی گئی ہے۔

ہاجرہ دلدار گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج چٹی ڈھیری مانسہرہ میں بی ایس انگلش کی سٹوڈنٹ ہیں،حاجرہ کا تعلق ضلع مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ کے ایک گاؤں بھونجہ سے ہے ۔یہ تحریر حاجرہ دلدار نے ہزارہ ایکسپریس نیوز کے ساتھ انٹرنشپ کی "ویلج پروفائلنگ” اسائنمنٹ کے لیے لکھی ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں