رابعہ سید
کل میری بیٹی اشراق سید نے بچوں میں موبائل فون کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی اور وابستگی پر ایک نہایت فکر انگیز پوسٹ لکھی، جس میں انہوں نے بجا طور پر والدین کو بھی اس صورتِ حال کا ذمہ دار قرار دیا۔ ان کی بات نہ صرف سچائی پر مبنی تھی بلکہ والدین کے لیے ایک تنبیہ بھی تھی۔ تاہم، اس چیلنج کا حل بھی موجود ہے . اگر ہم بروقت ہوش مندی سے کام لیں اور درست تدابیر اختیار کریں، تو اس رجحان کا مؤثر سدباب ممکن ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم بچوں کو صرف اسکرین سے دور کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ انہیں صحت مند متبادل سرگرمیاں فراہم کریں.
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ صرف موبائل چھین لینا مسئلے کا حل نہیں۔ اگر آپ بچے سے موبائل لیں گے لیکن اسے وقت، توجہ اور محبت نہیں دیں گے، تو وہ پھر کسی اور طرف بھٹک جائے گا۔ بچوں کو "نہ” کہنا آسان ہے، مگر اس "نہ” کے ساتھ "کیا” دینا ہے، یہ زیادہ اہم ہے۔ اگر ہم انہیں کتاب، کھیل، بات چیت، اور گھر کے افراد سے جڑنے کا ماحول دیں گے تو ہی وہ موبائل کی جگہ حقیقی رشتوں کی اہمیت کو سمجھ سکیں گے۔
- بچوں کو آؤٹ ڈور گیمز، جیسے کرکٹ، سائیکلنگ یا فٹبال کی طرف مائل کریں۔
- ہنر سکھائیں، آرٹ، ڈرائنگ، کہانیاں لکھنا، یا کسی آلہ موسیقی کا شوق۔
- کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالیں، ان کی عمر کے مطابق کہانیوں کی کتابیں دیں۔
والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے روزانہ کم از کم 30 سے 45 منٹ کا وقت ضرور نکالیں . چاہے وہ وقت کہانی سنانے کا ہو، کھیلنے کا، یا صرف باتیں کرنے کا۔ بچوں کو یہ محسوس ہونا چاہیے کہ ان کے جذبات، سوالات اور دلچسپیاں سنی اور سمجھی جا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، والدین کو خود بھی موبائل کے استعمال میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔ جب بچے ماں باپ کو ہر وقت اسکرین میں مصروف دیکھتے ہیں، تو وہ بھی یہی رویہ اپنا لیتے ہیں۔
موبائل کے استعمال کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف ڈیجیٹل ٹولز اور ایپس کا استعمال نہایت مفید ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ Google Family Link، YouTube Kids، Qustodio یا Digital Wellbeing، یہ سب ایسے ذرائع ہیں جن کے ذریعے والدین بچوں کے موبائل استعمال پر کنٹرول رکھ سکتے ہیں، ناپسندیدہ مواد سے بچا سکتے ہیں، اور روزانہ کی حد مقرر کر سکتے ہیں۔
بڑے بہن بھائیوں کا کردار بھی اس سلسلے میں انتہائی اہم ہے۔ وہ بچوں کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ اگر وہ خود موبائل کو ایک طرف رکھ کر بچوں کے ساتھ کھیلیں، انہیں باتوں میں مصروف رکھیں، یا خود کہانیاں سنائیں، تو بچے ان سے جڑتے ہیں اور غیر محسوس انداز میں اسکرین سے دور ہو جاتے ہیں۔ ان کی دل جوئی، دوستی اور قربت بچوں کی نفسیاتی نشوونما میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، معاشرتی سطح پر بھی ہمیں اپنی ذمہ داری نبھانا ہو گی۔ محلے میں بچوں کے لیے اجتماعی سرگرمیاں، کہانی کی شامیں، کتاب میلوں، مصوری کے مقابلے اور تعلیمی کیمپ منعقد کیے جا سکتے ہیں۔ اسکولوں، مساجد اور کمیونٹی سینٹرز میں والدین کی تربیت کے لیے نشستیں ہونی چاہییں تاکہ انہیں سکھایا جا سکے کہ جدید دور میں بچوں کی تربیت کیسے کی جائے، اور موبائل جیسے چیلنج سے کیسے نمٹا جائے۔
لہٰذا، اب وقت ہے کہ ہم صرف مسئلہ نہ دیکھیں، اس کا حل بھی تلاش کریں۔ صرف تنقید نہ کریں، تربیت کا بیڑہ بھی اٹھائیں۔ صرف موبائل نہ چھینیں، بلکہ اپنا دل، اپنا وقت، اور اپنی قربت انہیں واپس دیں کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جو کسی بھی بچے کی اصل خوراک ہیں، اور یہی وہ چیزیں ہیں جو ایک مضبوط نسل کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔