معاشی نظام میں زراعت بنیادی اہمیت کا حامل شعبہ ہے۔ اور وادی پکھل کے تناظر میں یہ مقامی معیشت کا سب سے بڑا ستون تھا، لیکن اس شعبے کو جدید خطوط پر استوار نہ کرنے اور ترقی نہ دینے کے باعث عوام کی اس میں دلچسپی کم ہو چکی ہے۔ اس شعبے میں کام کرنے والے افراد اکثر و بیشتر نقصان کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ نوجوان اور پڑھا لکھا طبقہ زراعت سے وابستگی کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
اس کی وجوہات کو دیکھا جائے تو جہاں نفسیاتی اور ذہنی عوامل ہیں، وہیں اس شعبے سے متعلق کم آمدنی بھی بہت اہم عنصر ہے جو نوجوانوں کی اس شعبے میں عدم دلچسپی کا باعث ہے۔ زرعی شعبے میں زمین کی تیاری، بیج اور کھاد سے لے کر فصل کی منڈی تک رسائی کے لیے کثیر سرمایہ کاری درکار ہے، لیکن جب فصل منڈی میں پہنچتی ہے اور قیمتیں گر جاتی ہیں تو کاشتکار اور اس کے بچے سوال کرتے ہیں کہ جمع پونجی خرچ کرنے اور گرمی سردی میں کی گئی محنت کا حاصل کیا ہے؟
ان لہلہاتے ہوئے کھیتوں کو دیکھ کر بے اختیار ذہن میں سوال ابھرتا ہے،
یہ حسین کھیت، پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا
کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے؟
پھر کاشتکار سوچنے لگتا ہے کہ کیوں نہ زراعت اور کاشتکاری کو ترک کر دیا جائے اور مارکیٹ/ مکان تعمیر کر کے کرایے پر چڑھا کر بغیر محنت کے دولت کے حصول کو یقینی بنایا جائے؟ جہاں نقصان کا کوئی اندیشہ نہ ہو۔ یہ سوچ زراعت کی بربادی اور پراپرٹی ڈیلنگ جیسے غیر پیداواری کام کا باعث بن رہی ہے، لیکن اس کا زمہ دار کاشتکار نہیں، بلکہ وہ پالیسی ساز ادارے ہیں جو نہ صرف جدید زرعی تعلیم، ٹیکنالوجی اور اس سے وابسطہ صنعتیں( لائیو سٹاک، ڈیری پراڈکٹس، پولٹری، شہد بانی وغیرہ) لانے میں ناکام ہیں بلکہ منڈی میں کاشتکار کو تحفظ فراہم کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ وادی پکھل میں گزشتہ تین فصلیں، آلو، گوبھی اور ٹماٹر کی فصل میں قیمتیں گرنے کی وجہ سے کسان لاکھوں روپے کے مقروض ہوگئے، آج منڈی میں ٹماٹر کا ریٹ 150 روپے کلو یے، جبکہ ایک مہینہ پہلے کسان سے یہ 30 سے چالیس روپے کلو میں خریدا گیا، جب مقامی فصل تیار ہوئی تو باہر(افغانستان) سے در آمدی سبزیوں پر پابندی لگانا اور مقامی کاشتکار کو تباہی سے بچانا کس کی زمہ داری تھی؟ اسی طرح کھادوں کی قیمتیں کا پڑوسی ملک سے موازنہ کیا جائے تو ہوشربا حقائق سامنے آتے ہیں۔مثلا نائٹروفس Nitrophos کا پچاس کلو کا بیگ 1150 روپے انڈین روپے(3700 پاکستانی) کا جبکہ پاکستان میں 8500 کا ہے۔ اسی طرح DAP کا پچاس کلو کا بیگ 1150 روپے انڈین(3650 پاکستانی روپے) جبکہ پاکستان میں 13000 روپے کا ہے۔ اور تیسری اہم کھاد یوریا کا پچاس کلو کا بیگ 286 روپے انڈین(870 پاکستانی روپیہ) جبکہ پاکستان میں 5080 روپے کی ہے۔ اسی طرح آلو کا مہنگا بیج ایک عرصے سے باہر سے در آمد کیا جا رہا ہے۔ یہ اندھا منافع کون کما رہا ہے اور اصل کاشتکار کی محنت ہر ڈاکا کس نے ڈالا؟
جدید تعلیم ہمارے ہاں زرعی شعبے میں کسی طرح کی تبدیلی لانے سے نہ صرف قاصر ہے، بلکہ زراعت کو تباہ کرنے کا زریعہ بن گئی ہے۔ وہ افراد جو رسمی تعلیم نہ ہونے کے باعث کھیتوں میں کام کاج کر کے اور لائیو سٹاک پال کر اپنی معیشت کو بہتر بنا رہے تھے، ان کی اولاد تعلیم حاصل کرنے کے بعد زراعت سے کٹ گئی اور بیروزگاری کا طوق گلے میں لٹکائے بیرون ملک فرار ہونے اور اپنے آپ کو خود ساختہ جلاوطن کرنے پر تیار ہوگئی۔
2005 کے زلزلے کے بعد وادی پکھل کے کھیت مزید تباہ و برباد ہوئے اور یہاں بے ہنگم کنکریٹ سٹرکچر کھڑے ہونا شروع ہوگئے، جس نے صرف زرعی معیشت کو نقصان پہنچایا، بلکہ موسمی حالات کو بھی تبدیل کر دیا۔
وادی کے ارد گرد پہاڑوں میں بسنے والے افراد، جو گلہ بانی اور لائیو سٹاک سے منسلک تھے، انہوں نے زرعی زمینوں پر مکان بنائے، لیکن ساتھ مویشی باڑے, جس مقامی زبان میں بانڈی کہا جاتا ہے، وہ نہیں بنائے۔ ان گھرانوں میں سے ایک آدھ بیرون ملک ملازمت اختیار کرتا اور ان کی اولادیں یونیورسٹی میں رسمی تعلیم حاصل کرتیں، اب اولادیں جواں اور بیروزگار ہیں۔ جبکہ والدین مشرق وسطی کی بدلتی ہوئی صورتحال کے باعث واپس گھر لوٹ چکے ہیں۔ اب ان گھروں میں بیروزگاری اور بھوک ہے۔ یعنی وہ طبقہ جس کے مرد و خواتین پہلے مویشی پال کر اور کھیتوں میں کام کر کے براہ راست پیداواری عمل کا حصہ تھے، اب مکمل بیروزگار اور نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ نوجوان مرد پاسپورٹ اور ویزے کا انتظار کر رہے ہیں، جبکہ عورتیں گھروں میں بیکار بیٹھ کر بیماریوں کا شکار ہو کر صحت کے شعبے پر بوجھ بن رہی ہیں۔یہ سب کچھ مقامی معیشت کے بنیادی شعبے زراعت کو چھوڑنے اور اس سے متعلقہ جدید تعلیم اور پریکٹس اختیار نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
قرآن حکیم نے ظالم طبقات کی کسی معاشرے پر تسلط حاصل کرنے کی منظر کشی کرتے ہوئے فرمایا کہ کہ ہلک حرث و النسل، کھیتیوں اور نسلوں کو تباہ کرتے ہیں۔
بظاہر زرعی زمین کی اس تباہی کا زمہ دار زمین بیچنے والا عام آدمی ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تو معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ اہل عقل کے سامنے یہ سوال پوری وضاحت کے ساتھ آجانا چاہیے کہ وادی پکھل جیسا زرخیز خطہ موجود ہونے کے باوجود مانسہرہ میں بیروزگاری/مہنگائی/ جہالت کیوں ہے؟ یہاں کی تہذیب کیوں فنا ہوئی اور یہ شہر معاشی، علمی اور ادبی مرکز کیوں نہیں بن سکا؟ وہ ظالم قوت کون سی ہے جس نے یہاں کے کھیت اور نوجوان تباہ کیے ہیں؟ کھیتوں کھلیانوں اور اس سے وابسطہ مقامی آبادی کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کا ازالہ کیسے ممکن ہے؟
سہیل قریشی