محمد راشد خان سواتی
مادّہ پرستی کے اس دور میں اکثر شخصیات ظاہری چمک دمک سے متاثر ہو جاتی ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود اپنی شخصیت کا رنگ رکھتے ہیں، اور زمانہ ان سے متاثر ہوتا ہے۔
گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول جبوڑی میں سروس کے دوران میرے بڑے بھائی تنویر خان نے ایک مقامی صحافی سے تعارف کرواتے ہوئے کہا:
"یہ شیر افضل بھائی ہیں۔ ورلڈ وژن نامی ایک بین الاقوامی این جی او سکول میں ایک پروگرام کرانا چاہتی ہے، جس میں انٹرنیشنل ڈونرز بھی آئیں گے۔ آپ اس کا انتظام سنبھالیں، اس سے علاقے میں ترقی آئے گی اور سکول کی گری ہوئی عمارت کی تعمیر میں بھی مدد ملے گی۔”
یہ میری شیر افضل بھائی سے پہلی ملاقات تھی۔ پروگرام طے پایا، مگر علاقے میں افواہیں پھیل گئیں کہ یہ این جی او اسکولوں میں بے حیائی کے فروغ کے لیے آ رہی ہے۔ بعض مقامی مفادات اور اعلیٰ سطح پر مفاد پرستی کے ٹکراؤ نے اس پروگرام کے انعقاد کو خطرے میں ڈال دیا۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی مہمانوں کی آمد پر بم دھماکوں کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
ہم نے تمام تر حالات کے پیشِ نظر ہاتھ کھڑے کر دیے اور معذرت کر لی، مگر شیر افضل بھائی نے کمال دلیری، تدبر اور محنت سے محکمانہ اجازت حاصل کی، متعلقہ اداروں اور انتظامیہ کو اعتماد میں لیا، اور پروگرام کو نہ صرف ممکن بلکہ کامیاب بھی بنایا۔
ورلڈ وژن کے تعاون سے ضلع مانسہرہ میں جو تعمیری منصوبے مکمل ہوئے، ان میں شیر افضل بھائی کی محنت، مشقت اور خلوص شامل ہے۔
میں نے انہیں مقامی لوگوں کو شناختی کارڈ کی سہولت ان کے گھروں کے قریب فراہم کرتے ہوئے دیکھا۔ افواہ اڑائی گئی کہ یہ ووٹوں کے لیے اپنے قبیلے کے افراد کو شناختی کارڈ بنوا کر دے رہے ہیں۔ لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے انہیں ہر قبیلے اور ہر ذات کے سفید پوش افراد کی خدمت کرتے دیکھا۔ نہ ماتھے پر شکن، نہ زبان پر شکایت — بس خدمت، خلوص اور ایثار۔
شیر افضل بھائی نے صحافت کو صرف پیشہ نہیں بلکہ خدمت کا ذریعہ بنایا۔ ہسپتالوں، تھانوں، عدالتوں، دفاتر، ہر جگہ عام شہری کے لیے کھڑے رہے۔ پاسپورٹ، ڈومیسائل، شناختی کارڈ — ایک کال پر ساتھ کھڑے ہونے والی شخصیت!
"شمال” اخبار سے لے کر "آج اخبار” تک، اور پھر ہزارہ ایکسپریس نیوز جیسے قومی و بین الاقوامی پلیٹ فارم تک، ان کی صحافتی پہچان مسلسل نمایاں رہی — مگر انداز وہی، خدمت کا، خلوص کا، سچائی کا۔
الیکشن لڑا، عوامی مطالبے پر۔ وہی روایتی ہتھکنڈے، پروپیگنڈے، مگر شیر افضل بھائی نہ جھکے نہ رکے۔ شاید وہ واحد امیدوار تھے جن کے لیے ہر طبقے کے افراد نے جیت کی دعا کی۔
الیکشن کی شکست کو بھی انہوں نے صبر، وقار اور حوصلے سے قبول کیا۔ وہی خدمت، وہی سادگی، وہی معاشرتی شعور۔
سوشل میڈیا کے غلبے نے جب پرنٹ میڈیا کو پیچھے دھکیلا، تو بہت سے صحافی ماند پڑ گئے۔ مگر جبوڑی کے مقامی صحافی شیر افضل بھائی بین الاقوامی سطح پر بھی ابھر کر سامنے آئے۔ ان کی تصویر بنکاک ایئرپورٹ پر عامر ہزاروی صاحب کے ساتھ تین پیس سوٹ میں، ان کی کامیابی اور وقار کی گواہی ہے۔
احساسِ عمل کی چنگاری جس دل میں فروزاں ہوتی ہے
اس لب کا تبسم ہیرا ہے، اس آنکھ کا آنسو موتی ہے
وہ آج بھی بے خوف ہو کر سچ کو عام کرتا ہے، دشمنیاں مول لیتا ہے، مگر پیچھے نہیں ہٹتا۔ سوائے والد صاحب کی بیماری اور وفات کے، اس کی پیشانی پر کبھی پریشانی یا کمزوری کے آثار نہیں دیکھے۔
اگرچہ مالی تنگی آج بھی اس کے قدموں کی زنجیر ہے، لیکن اس نے اسے کبھی راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔
ایسے لوگ، جو اپنا رنگ، ڈھنگ اور اصول نہیں چھوڑتے — حقیقتاً "انمول” ہوتے ہیں۔