Skip to content

ایک گمنام ہیرو

شیئر

شیئر

عمرخان جوزوی

ماں باپ نے نہ جانے کیاسوچ کراس کانام ولی اللہ رکھالیکن اللہ کی شان اورقدرت کی مہربانی دیکھیں کہ وہ بچہ بڑاہوکرسچ مچ میں اللہ کا ایساولی بن گیاکہ اس کے کام اورکردارپراپنوں کے ساتھ بیگانے بھی اب رشک کررہے ہیں۔ولی اللہ کے بارے میں جاننے سے پہلے یہ بتاناضروری ہے کہ پاکستان سمیت دنیابھرمیں ہرسال ہزاروں کی تعدادمیں لوگ لاپتہ ہوتے ہیں۔ان میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے جنہیں گھراورخاندان سے بچھڑنے کے بعدپھراپنوں کاپتہ ہی نہیں ہوتا۔ایسے بچے جوگھروں سے ماں باپ،بہن بھائیوں اوردیگررشتہ داروں کے ساتھ سیروتفریح کے لئے نکلتے ہیں یہ اکثرمصروف بازاروں،درباروں یاپھرپبلک پارکوں سے ایسے غائب ہوتے ہیں یالاپتہ کئے جاتے ہیں کہ جن کابعدمیں پھرڈھونڈنے سے بھی کوئی سراغ نہیں ملتا۔نہ صرف ہمارے اس ملک بلکہ دنیاکے دیگر ممالک میں بھی ایسے بدبخت اورسیاہ دل لوگ اورگروہ موجودہیں جوباقاعدہ طورپربچوں کواغواء کرنے کاگھناؤناکھیل کھیل کرہزاروں اورلاکھوں لوگوں کواپنوں کے بچھڑنے کی اذیت وتکلیف میں ڈال رہے ہیں۔ہمیں اچھی طرح یادہے آج سے تقریباًبیس سال پہلے اسلام آبادمیں ہمارے آبائی علاقے جوزسے ملحقہ بیڑگاؤں کے رہائشی قاری عبداللہ مرحوم کابچہ وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں جمعرات کے دن مدرسے سے گھرکے لئے نکلااورپھروہ کبھی گھرنہیں پہنچا۔یہ صرف ایک قاری عبداللہ کابچہ نہیں نہ جانے اس دنیامیں ایسے کتنے بچے ہیں جوبرسوں پہلے سکول،بازار،پارک،دکان اورمدرسے سے گھروں کے لئے نکلے اور پھروہ آج تک کبھی گھرواپس نہیں پہنچتے۔اپنے کابچھڑنایااپنوں سے بچھڑنایہ دونوں ایک ہی طرح کے عذاب ہیں،اس میں دونوں فریق ایک جیسی تکلیف،دکھ درداورپریشانی سے گزررہے ہوتے ہیں۔اللہ ہم سب کوایسی ہرآزمائش،امتحان اورتکلیف سے محفوظ رکھے۔آمین۔جن کاکوئی اپنا گم ولاپتہ ہویاجواپنوں سے بچھڑجائے ان دونوں پرپھرکیابیتی ہے یہ سوچتے ہوئے بھی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔گھرسے پالتوبلی اورمرغی بھی گم ہوجائے توانسان کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں پھرماں کاممتااگرغائب ہوتوخودسوچیں اس ماں پرکیاگزررہی ہوگی۔یہ زندہ غائب اور بچھڑجانے والوں کاغم بھی عجیب ہوتاہے۔ یہ انسان کواندراندرسے اس طرح کھاجاتاہے کہ انسان پھرنہ جینے کاقابل رہتا ہے اورنہ مرنے کا۔ایک پہلوان جیساوجودرکھنے والے قاری عبداللہ کوہم نے اپنی ان گناہ گارآنکھوں سے بیٹے کے بچھڑنے کے غم میں چندسالوں کے اندرنہ صرف کمزورسے کمزورتربلکہ بچے کی گمشدگی کے اسی غم میں قبرکی پاتال میں اترتے دیکھا۔مرنے والوں کاغم انسان پھربھی بھول جاتاہے لیکن یہ زندہ گم اورغائب ہونے والوں کاغم،دکھ اوردردپھرقبرتک انسان کاپیچھانہیں چھوڑتا۔بچھڑنے والوں کی زبان پرایک ہی صدااورایک ہی دعاہوتی ہے یارب اپنوں سے ملادے۔برسوں کی جدائی اورگمشدگی کے بعداگرکوئی اپنوں کومل جائے تویوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے ساراجہان ان کومل گیاہو۔بچھڑوں کواپنوں سے ملنے ملانے کی بات آئی تواب کراچی کے اس ولی اللہ کاذکرخیرکردیں۔ولی اللہ یہ بے سروسامانی کے عالم میں نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش،انڈیا،سعودی عرب سمیت دنیاکے دیگرکئی ممالک میں بچھڑے ہوئے لوگوں کوان کے اپنوں سے ملانے کے راستے تلاش کرحقیقت میں اللہ کے ولی ہونے کاکرداراداکررہے ہیں۔کراچی کایہ نوجوان اب تک تین سوسے زائدگمشدہ اورغائب انسانوں کوڈھونڈکران کے اصل ورثاسے ملاچکے ہیں۔لوگ اسے صرف ولی اللہ کہتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ کے ولی ہونے کے ساتھ ایک بڑے مجاہدبھی ہیں کیونکہ جوکام یہ کررہے ہیں وہ اللہ کے ولی اورمجاہدہی کرسکتے ہیں۔ایسے دوراورحالات میں جب اپنے بے وقت دھڑکنے والے دلوں کی دواکوئی نہیں کرتاایسے میں دوسروں کے بے قراردلوں کوقراروسکون دینایہ جہادنہیں تواورکیاہے۔؟اللہ کے اس ولی کے ہاتھوں اب تک درجنوں وسینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بے قراردلوں کوقرارملاہے۔ولی اللہ یہ کراچی میں رہتے ہیں اورآن لائن قرآن ٹیوشن کے ساتھ یہ کسی مسجدکے امام وخطیب بھی ہیں۔امامت وتدریس کے ساتھ یہ دوبچھڑے ہوؤں کوآپس میں ملانے کاجوکام کررہے ہیں وہ انسانیت کے لئے ایک مثال ہے۔کچھ دن پہلے ولی اللہ نے اسلام آبادکے رہائشی ایک ایسے نوجوان کوان کے والدین اورورثاء سے ملایاجوفقط دوسال کی عمرمیں برسوں پہلے بری امام دربار سے لاپتہ ہواتھا۔وہ نوجوان جب ماں کے گلے لگاتووہ لمحہ اوروقت دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔سوچنے کی بات ہے کہ دوسال کی عمرمیں اسلام آبادسے غائب ہونے والے اس نوجوان اوراس کے ورثاء پریہ تیس چالیس سال کیسے گزرے ہوں گے۔؟ماں توبچے کونہیں بھول سکتی۔پھردوسالہ بچہ ایک لمحے کے لئے بھی نظروں سے ادھرادھرہوتوماں پرقیامت آجاتی ہے۔بچہ بھی ماں کی گوداورآغوش سے محروم ہوتواسے بھی چین نہیں آتا۔اسی لئے توبرسوں بعدجب ماں بیٹا گلے ملے توآہوں،سسکیوں اورآنسوؤں پرقابونہ رکھ سکے۔معلوم نہیں اس دنیامیں ایسے کتنے بچے ہوں گے جو دواورتین سال کی عمرمیں لاپتہ ہونے کے بعدآج بھی ماں کی گوداورآغوش کے لئے ترس وتڑپ رہے ہوں گے۔نہ جانے کتنی مائیں ایسی ہوں گی گمشدہ بچوں کی یادمیں روتے روتے جن کی آنکھیں خشک اوربینائی ختم ہوئی ہوں گی۔دوبچھڑوں کوآپس میں ملانایہ صرف اصل انسانیت ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی عبادت بھی ہے۔ولی اللہ معروف نے اپنوں کی جدائی میں برسوں سے آنسوبہانے اوردل چیرنے والوں کے دامن میں خوشیاں رکھنے کاجوکام اورسلسلہ شروع کیاہے وہ بلاکسی شک وشبہ کے ایک عظیم جہادہے۔ہمیں اس ملک میں ایسے مجاہدوں پرفخرہے۔ولی اللہ اس ملک اورقوم کااصل ہیروہے جوکام یہ کررہے ہیں،ایسے کام اللہ بڑے نصیب والوں سے ہی لیتاہے۔ہمیں ولی اللہ جیسے قومی مجاہدوں کی خدمات کااعتراف کرکے انہیں اعلیٰ قومی اعزازت سے نوازناچاہئیے کیونکہ ولی اللہ جیسے گمنام لوگ ہی ہمارے اصل ہیروہیں۔ 

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں