

آئیے چلتے ہیں چار دہائیاں پیچھے کھنگالتے ہیں ماضی کے اوراق,اور نظر ڈالتے ہیں!!!
سرزمینِ ہزارہ کے خوبصورت خطے، مانسہرہ میں بپا ہونے والے خاموش انقلاب پر، اس انقلاب اور اس انقلابی تحریک کی قیادت کرنے والے عظیم انقلابی لیڈر, سردار محمد یوسف کی چالیس سالہ تاریخی,سیاسی جدوجہد پر!!!
عزیزانِ من!!!
یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں،یہ نسلوں کی جدوجہد ہے،محض ایک صبح و شام کی بات نہیں۔یہ لہو سے لکھی گئی داستان ہے، صرف الفاظ کی بازیگری نہیں۔
سن 1979 کا وہ روشن اور زندگیاں بدل دینے والا سال،وہ دن خطۂ مانسہرہ کی تاریخ میں ایک انقلابی موڑ تھا۔ جب مظلوموں، ہاریوں اور کسانوں کی صدا بالآخر سنی گئی۔
وہ وقت آیا جب محرومی اور جبر کی سیاہ رات کا خاتمہ مقدر بنا۔
جالگلی کے پہاڑوں سے ایک چراغ نمودار ہوا— محمد یوسف،
جسے پھر دنیا نے سردار محمد یوسف کے نام سے جانا، مانا اور پہچانا۔
اس باہمت و صاحب بصیرت نوجوان نے مظلوم و محکوم طبقات کی رہبری کا بیڑہ اٹھایا۔
پھر اسی نوجوان نے اس دورِ ظلمت میں روشنی کی پہلی لکیر کھینچی، اور اپنی زندگی وقف کر دی ـمحروم طبقات کی آواز بننے کے لیے,
آج وہ چراغ، روشنی کا مینارہ بن چکا ہے،جو پورے خطے کو منور کر رہا ہے۔
80 کی دہائی کے اواخر سے قبل،جب اس عظیم نوجوان رہنما نے میدانِ سیاست کا رخ نہیں کیا تھا،
مانسہرہ کے تمام مظلوم و محکوم عوام ظلم و جبر کی چکی میں پس رہے تھے_
جب جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا، جب نظامِ اقتدار مخصوص طبقات کے گرد گھومتا تھا، سیاست چند خاندانوں کے گھر کی لونڈی تھی عام آدمی کے فیصلے اُس وقت کے صاحبانِ اختیار و اقتدار کے ہاتھوں میں تھے۔ ظلم، جبر، محرومی، محکومی تمام حدیں پار کر چکی تھیں۔
انسانیت کی تذلیل ایک مشغلہ بن چکی تھی۔ انسان و حیوان میں کوئی فرق نہ تھا، انسان بھی ہانکا جاتا اور حیوان بھی۔ جہاں محرومی، لاچاری اور احساسِ کمتری عام تھی،جب علم اندھیروں میں قید تھا، شعور سسک رہا تھا
"تب عام آدمی صرف تماشائی تھا بے بسی و لاچارگی کی حسرت بھری تصویر تھا۔
ایسے میں ایک مردِ قلندر اٹھا،
جو اپنے ساتھ خوابوں کی روشنی، علم کی شمع اور بیداری کی صدائیں لایا،جہالت و ظلمت کے چھائے بادلوں میں سے ایک شخصیت مینارہ نور بن کر ابھری۔
ایک صدا اٹھی، ایک عزم بیدار ہوا
اور وہ صدا تھی دور افتادہ دیہات، جالگلی کے نوجوان محمد یوسف کی — یہ صدا تھی طبقاتی تقسیم کے خلاف، وقت کے جابروں،صاحب مسندوں کے خلاف،
اسی صدا نے پھر وقت کے جابروں اور ظالموں کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیے۔
جاگیرداروں، سرمایہ داروں کو ناکوں چنے چبوانے والا یہ مردِ حر اس نتیجے پر پہنچا کہ،
محنت کش طبقے اور محکوم لوگوں کی آزادی صرف انقلابی جدوجہد سے ممکن ہے۔
اس مردِ بحران نے نہ صرف ایک خواب دیکھا بلکہ،اس کی تعبیر پانے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔
چاہے وہ بیرونِ ملک ادھوری تعلیم ہو، یا اڑیل چڑھتی جوانی،چاہے دولت ہو یا اولاد،اس نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اس نے اپنا سب کچھ اس قوم کی آزادی اور قوم کی تقدیر بدلنے پر لگا دیا
اس مردِ مجاہد نے ہر طرف ظلم و جبر دیکھا۔بعد میں سیاست میں دل چسپی لیتے ہوئے، اس پر یہ عقدہ کھلا کہ اس متوسط و پسے ہوئے طبقے کے مسائل کا واحد حل سیاسی جدوجہد ہے۔
وہ ہر اُس جگہ لڑنے گیا جہاں ظلم ہو رہا تھا۔رہبر و رہنما نے مایوسی، ناامیدی، بےچارگی، بےبسی،اور بےکسی کے گھپ اندھیروں میں گھرے متوسط، محکوم و محروم طبقے کو باور کرایاان کی تربیت کی،ذہن سازی کی، اور بتایا: اذیتوں کے بھنور میں گھرے محنت کش عوام ہمیشہ کے لیے ڈوب نہیں سکتے۔وہ مر نہیں سکتے، مٹ نہیں سکتے۔ذلت و رسوائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہر رات کے بعد ایک سحر طلوع ہوتی ہے۔طبقاتی معاشرے میں طبقاتی بغاوت پھوٹ کر رہتی ہے،یہ کائنات کا قانون ہے۔ ایک مٹھی کی طرح، ایک نظریے پر، ایک جماعت و تنظیم بن کر متحد ہو جاؤ، جاگ جاؤ، اور سامراجی خداؤں کے چہروں پر تھپڑ رسید کرو،تب جا کر خود کفیل، خود مختار اور ترقی یافتہ بنو گے۔ دہائیوں سے عوام کے دلوں میں اس وحشی نظام کے خلاف لاوا پک رہا تھا ,جس نے ایک روز آتش فشاں بن کر پھٹنا تھا پھر چشمِ فلک نے بڑے اطمینان و سکون سے وہ منظر بھی دیکھا کہ ، اس عظیم، میرِ کارواں، رہبرِ زماں، سالارِ کارواں، نجمِ فغاں کے سیاسی افق پر نمودار ہونے کے بعد, یہ آتش فشاں پھٹا — اور ایسے پھٹا کہ، سب جاگیریں، ملکیتیں، سلطنتیں، ریاستیں، حکومتیں، اَناہیں — سب بھسم ہو گئیں۔ تب آزادی اور خوشحالی کا آغاز ہوا ۔ اس نوجوان نے ایک انقلابی رہنما، ایک منادی شعور، اور ایک ایسے سالارِ تبدیلی کی حیثیت سے وقت کی چٹانوں سے ٹکرا کر محرومیوں کے بند کواڑ کھولے۔ اس باہمت و جری جوان نے بکھرے خوابوں کو ترتیب دیا،پسے ہوئے عوام کو حق دلایا،اور تعلیم و شعور کی ایسی مشعل جلائی جس کی روشنی آج ہر گاؤں، ہر بستی، ہر دل میں روشن ہے۔ جہاں محرومی، لاچاری اور احساسِ کمتری عام تھی،وہاں انہوں نے عزت، تعلیم اور اختیار کا چراغ جلایا
مانسہرہ کی بستیوں میں وہ سہمے، ڈرے، چھپے خواب، جنہیں وقت نے روند دیا تھا،اس شخصیت نے انہیں پھر سے اٹھایا، سنوارا، اور ان خوابوں کی تعبیر دی۔
بقول اسرار الحق مجاز:
ترے خرام میں ہے زلزلوں کا راز نہاں
ہر ایک گام پر اک انقلاب پیدا کر
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر!
جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کرــ
مردِ حریت، مردِ بحران سردار محمد یوسف صرف ایک فرد نہیں،ایک نظریہ ہے، ایک فکر ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر قوم کا مقدر اس وقت بدلتا ہےــجب اس کے اندر سے کوئی جرات مند رہنما، فکری معمار اور نظریاتی سالار اٹھتا ہے۔
جو صرف اقتدار کا خواہش مند نہیں ہوتا بلکہ قوم کا مقدر بدلنے کی لگن میں جیتا ہے۔ برِ عہد کا ایک سردار ہوتا ہے۔
صلاح الدین ایوبی نے عدل کے نام پر تلوار اٹھائی،
مولانا ابوالکلام آزاد نے علم کی شمع جلائی،
منڈیلا نے مساوات کا پرچم لہرایا
اور اقبال نے خواب دکھا کر نسلوں کو بیدار کیا۔
اسی تسلسل میں، ہزارہ کو وہ مردِ درویش نصیب ہوا،جس نے قلم کو ہتھیار بنایا،خدمت کو سیاست سے جوڑا،اور عام انسان کو عزت و اختیار دیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی نے جب بیت المقدس کو آزاد کیا، تو وہ صرف ایک فوجی فتح نہ تھی، وہ عدل، کردار اور مقصد کی فتح تھی۔
نورالدین زنگی نے جب ظلم کے نظام میں علم و فلاح کے قلعے تعمیر کیے تو وہ اس وقت کا ایک انقلاب تھا۔
نپولین بوناپارٹ نے جب یورپ میں پرانے شاہی نظام کو چیلنج کیا،
تو وہ محض جنگی فتح نہ تھی، بلکہ ایک عوامی سیاسی شعور کا طوفان تھا۔
لینن نے روس میں طبقاتی تفریق کے خلاف بغاوت کر کے ایک نئی دنیا تخلیق کی,
اور آج سردار محمد یوسف بھی ان ہی انقلابوں کی کڑی بن کر،نئے زمانے کے لیے ایک پیغام، ایک روشنی، اور ایک مینارہ امید بنے ہوئے ہیں۔
جب کسی معاشرے میں ظلم کے خلاف علمِ بغاوت بلند ہوتا ہے تو وہاں ایک نئی ریاست کا تصور ابھرتا ہے۔
چی گویرا نے لاطینی امریکہ میں مظلوم عوام کے ساتھ رہ کر استحصالی نظام کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔
فیڈل کاسترو نے تعلیم و صحت کو عام کر کے ایک بیدار معاشرہ تشکیل دیا۔
برصغیر میں ٹیپو سلطان نے نہ صرف سامراج سے لڑا بلکہ عزتِ نفس کا تصور بھی دیا_
علامہ اقبال نے فکری بیداری پیدا کی، جبکہ قائداعظم نے اس خواب کو ریاست کی صورت دی۔
سید احمد شہید اور شاہ ولی اللہ جیسے بزرگوں نے ظلم کے اندھیروں میں توحید، عدل اور شعور کا چراغ جلایا۔
انہی تاریخی مثالوں میں جب ہم سردار محمد یوسف کو دیکھتے ہیں تو ہمیں وہ تمام انقلابی خصوصیات ایک ہی شخصیت میں مجتمع نظر آتی ہیں۔
انہوں نے بھی سماجی و طبقاتی جبر، تعلیمی پسماندگی، سیاسی بیگانگی کے خلاف خاموش مگر مؤثر بغاوت کی۔
نہ تلوار اٹھائی، نہ علمِ بغاوت، نہ خون بہایا گیا، نہ فسادات پھوٹے، نہ خانہ جنگی ہوئی، نہ ہی بدامنی کا بازار گرم ہوا۔
سلام ہے اُس صاحبِ بصیرت شخصیت کو، جس نے ابتدا سے آج تک امن و سلامتی کا دامن تھامے رکھا۔
بغیر جنگ و جدل کے، ایک خاموش انقلاب برپا کیا۔ہاری، کسان، مزدور کو صاحبِ اختیار اور بااثر شخصیات کے سامنے لا کھڑا کیا
سیاست،جو چند خاندانوں کی جاگیر تھی، مظلوم و متوسط طبقے کی دہلیز پر پہنچا دی۔
اگر صلاح الدین ایوبی نے تلوار سے ظلم کو مٹایا،
اگر چی گویرا نے بندوق سے انقلاب لکھا،
تو سردار محمد یوسف نے قلم، تقریر، تحریر، تعلیم و تربیت، کردار سازی، ذہن سازی، خدمت، محبت، الفت اور عزم و استقلال سے ایک نسل کا مقدر بدلا۔
تو اگر ہم سردار محمد یوسف کو
ہزارہ کا منڈیلا کہیں، ہزارہ کا ابوالکلام کہیں، پرامن و غیر متشدد سیاسی رہبر،اور فکر کا قافلہ سالار کہیں…
تو یہ وقت اور تاریخ کا سچ ہوگا!!
اسی شخصیت نے ان غریبوں، ہاریوں کو ایوانوں کی راہ دکھائی۔کل تک جن کی تقدیر کے فیصلے حجروں میں ہوا کرتے تھے، اسی جدوجہد کے نتیجے میں آج ان کی دہلیز پر ووٹ کے لیے جھولیاں پھیلائی جاتی ہیں، منتیں سماجتیں کی جاتی ہیں، لاکھوں کروڑوں کے پراجیکٹ کا اعلان کیا جاتا ہے، ان کے غریب خانے میں بیٹھنا اب فخر سمجھا جاتا ہے، عزت و تکریم والے جملے ان کی شان میں بولے جاتے ہیں۔ تو پھر ببانگ دہل کیوں نہ کہوں کہ!!
حقیقی تبدیلی اور انقلاب سردار محمد یوسف صاحب نے بپا کیا_ چالیس سالہ دورِ اقتدار میں مانسہرہ کا سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور قومی نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ ظرف کا مظاہرہ کیجیے، دل بڑا کیجیے، آپ بھی اب اعتراف کیجیے کہ ،
اس ہمہ جہت شخصیت کے عظیم اور بے نظیر اقدامات کا کب تک مخالفت کی بنیاد پر حقیقت سے آنکھیں چرائے قریہ قریہ، نگر نگر گھومیں گے؟
چالیس سال قبل اگر سیاسی فلک پر یہ سورج طلوع نہ ہوتا، تو آج بھی متعصب نمائندے آپ کی نمائندگی کرتے۔
ان ہی کی نسلیں آپ پر حکمرانی کا حق محفوظ رکھتیں۔ بس گنے چنے خاندان اس ضلع کے سیاہ و سفید کے مالک رہتے۔
مگر عزیزان من!!
سردار محمد یوسف کی اعلیٰ ظرفی، وسیع النظری اور دور اندیشی کی کچھ مثالیں پڑھئیے۔
جس شخصیت پر تعصب کا الزام لگایا جاتا ہے،صرف اپنی قوم کو پروان چڑھانے کا بھونڈا الزام لگایا جاتا ہے، مگر حیف صد حیف کہ،، ناقدین تاریخ کے اوراق کھنگالنے کے بجائے الزام در الزام کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
اگر تاریخ کا منصفانہ طور پر مطالعہ کیا جائے تو اس قافلے میں ہر قوم، برادری اور طبقے کے افراد شامل رہے جن کو اسی شخصیت کی قیادت میں ایوانوں سے شناسائی ہوئی۔
سید قاسم شاہ سادات قوم سے تعلق رکھتے ہیں، اسی قافلے کے ساتھ مل کر ایوان میں گئے۔
حق نواز خان سواتی قوم سے تعلق رکھتے ہیں، اسی سپہ سالار کے ہاتھوں بیعت ہوئے اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
بفہ کے عبدالستار خان اور شنکیاری بیدادی کے عاشق رضا سواتی بھی سردار صاحب کی وجہ سے ممبر صوبائی اسمبلی بنے۔
سید احمد حسین شاہ، اسی شخصیت کے دستِ شفقت کے نتیجے میں ضلع ناظم رہے۔
مظہر قاسم، اسی عظیم قافلے کے مسافر تھے اور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔
جنید علی قاسم، اسی ہمہ جہت تحریک کا حصہ بنے اور تحصیل ناظم رہے۔
مفتی کفایت اللہ، اسی قافلے کے ساتھ اتحاد کرنے کے بعد ضلعی نائب ناظم رہے۔
خرم حنیف خان، سردار محمد یوسف کی قیادت میں ہی تحصیل ناظم رہے۔ وجہیہ الزمان خان بھی سردار محمد یوسف کے جھنڈے کے سائے تلے تین بار ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔
شہزادہ گستاسپ خان بھی ماضی میں اسی قافلے کے شریکِ سفر رہے۔
پھر داماد نواز شریف کیپٹن صفدر بھی سردار محمد یوسف صاحب کے ہاتھوں بیعت ہوئے۔
بیعت ہونے کے بعد جو کامیابی 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو ملی، مانسہرہ کی تاریخ میں ایسی واضح کامیابی اور کلین سویپ کی مثال نہیں ملتی۔
سابق ممبر قومی اسمبلی صالح محمد خان، جن کو انگلی سے پکڑ کر سیاست سکھائی، سیاسی پرورش کی، تربیت کی، اور پھر سیاسی اکھاڑے میں اتارا, موصوف پانچ سال تک ممبر صوبائی اسمبلی رہے، حسبِ روایت دغا دے گئے۔
تو پھر یہ الزام بھی آج تہہ خاک ہو جانا چاہیے کہ،
سردار یوسف تعصب کی سیاست کو فروغ دیتے ہیں۔
تو یہ ہے چالیس سالہ اقتدار کا نتیجہ، کہ ہر قوم کے فرد کو ساتھ قافلے میں لے کر چلے اور پھر نمائندگی کے لیے ایوانوں تک بھی پہنچایا۔
گو کہ وفادار بہت کم نکلےــ۔
چالیس سال قبل سردار محمد یوسف صاحب سیاسی دنیا کا رُخ نہ کرتے، تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ٹاپ لیڈرشپ بھی مانسہرہ کا رُخ نہ کرتی۔
نہ میگا پراجیکٹس کا جال بچھایا جاتا,دیہی علاقہ جات آج بھی پسماندگی کی چکی میں پس رہے ہوتے۔
چالیس سال قبل چند جلسے بتائیے؟ جو قومی جماعتوں کے قائدین اور ملک کے سربراہان نے مانسہرہ کے دور افتادہ، دشوار گزار دیہاتوں میں کیے ہوں، ان علاقہ جات کے دورے کیے ہوں؟
تاریخ سے پوچھیں تو سربراہان درکنار، منتخب علاقائی نمائندے بھی مڑ کر نہیں دیکھتے تھے۔
پھر عزیزان من!!!
آئیے دیکھیے، چالیس سال مانسہرہ کی سیاست کے بے تاج بادشاہ سردار محمد یوسف صاحب ملکی سربراہان کو بھی لائے،جماعت کی قیادت،وقت کے وزیراعظم اور صدر کو بھی مانسہرہ کے پہاڑوں پر لینڈ کروایا
1999 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف مانسہرہ شہر سے تقریباً پچپن کلومیٹر دور پہاڑی علاقے، یونین کونسل بٹل کے گاؤں "گلی گدا” میں تشریف لائے اور ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا۔
کیا کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ ان سنگلاخ پہاڑوں میں ملک کا وزیراعظم آئے گا اور خطاب کرے گا؟ یہ اسی شخصیت کے مرہونِ منت ہے۔
سن 2005 میں زلزلے کی تباہ کاریوں کے بعد، اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف سردار محمد یوسف کی دعوت پر مانسہرہ شہر سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر دور یونین کونسل سچاں کے دور افتادہ گاؤں کودر تشریف لائے ،
اور وہاں اسکول اور دیگر منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھا۔ کیا وہاں کے باسیوں نے کبھی سوچا تھا کہ ملک کا صدر اس گاؤں میں تشریف لائے گا؟
بلا شبہ، سردار محمد یوسف کی عوام سے محبت اور چاہت کی زندہ مثال ہے۔
اسی طرح، 2005 میں ہی اس وقت کے صدر پرویز مشرف مانسہرہ کی ہی یونین کونسل ڈھوڈیال میں ہزارہ یونیورسٹی تشریف لائے، اور ریکارڈ موجود ہے۔ تسلی و تشفی کے لیے چیک کیا جا سکتا ہے کہ،
ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کو خطیر گرانٹ دے کر گئے، جس کی وجہ سے جامعہ ہزارہ میں مزید ڈیپارٹمنٹس بنائے گئے۔
پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ دو بار وزیراعظم کے عہدے پر براجمان رہنے والے میاں نواز شریف 2013 میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز پنجاب کی بجائے مانسہرہ سے کرتے ہیں،
اور ایسا تاریخی جلسہ کہ،جس کا مقابلہ آج تک مانسہرہ کی کوئی سیاسی جماعت نہیں کر سکی، وہ جلسہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ انتخابی مہم کا آغاز، قیادت کے قلوب میں سردار محمد یوسف صاحب کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سردار یوسف کے پاکستان مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کے بعد جو مقبولیت ان جماعتوں کے حصے میں آئی وہ بھی زندہ مثال ہے۔
(ق) لیگ کے دور میں بھی مانسہرہ کی تمام نشستیں (ق) لیگ کے پاس رہیں اور قیادت سردار محمد یوسف صاحب کر رہے تھے۔
(ن) لیگ کے دور میں 2013 میں کلین سویپ، قیادت کے لیے حیران کن اور مخالفین کے لیے شرم کن تھا۔
چالیس برس قبل کی ترقی اور چالیس سال بعد کی ترقی کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔
مانسہرہ کے تمام شہری و دیہی علاقوں کو بجلی کی فراہمی، قائد محترم کے فرزند ارجمند وزیر مملکت، سردار شاہ جہان یوسف صاحب کے دور میں صرف تحصیل بالاکوٹ کے سات سو سے زائد گاؤں کو بجلی فراہم کرنا، مانسہرہ کی تاریخ کا سب سے بڑا میگا پراجیکٹ تھا۔
ضلع مانسہرہ کے ہر گاؤں، ہر شہر میں پرائمری اسکولوں کا قیام، مڈل و ہائی اسکولوں کا قیام، اسی چالیس سالہ دور میں ممکن ہوا۔
کونش ویلی، جہاں چالیس سال قبل صرف ایک ہائی اسکول ہوا کرتا تھا، آج کونش ویلی کی چار یونین کونسلوں میں 9 ہائی اسکول فعال ہیں۔ یہ تعلیمی انقلاب کی واضح دلیل ہے۔
زلزلہ دور کی تباہ کاریوں کے ازالے کے لیے بیرونی امداد اور ملکی امداد متاثرین کو بہم پہنچائی گئی۔
بحثیت ضلعی ناظم، ایرا کے ساتھ مل کر سردار یوسف صاحب نے تمام منہدم اسکولوں اور گھروں کی ازسرنو تعمیر کو ممکن بنایا۔ امدادی چیکس کے طریقہ کار کو خود اپنی نگرانی میں شفاف بنایا، تاکہ ہر شخص کو بلا تفریق یہ امدادی رقوم مل سکیں۔ خوفناک تباہی کے باوجود مانسہرہ کا انفراسٹرکچر، سردار محمد یوسف صاحب کی ذاتی دلچسپی کے باعث، انتہائی قلیل مدت میں دوبارہ کھڑا کیا گیا۔ حالانکہ پنجاب میں ہر سال سیلاب کی تباہ کاریاں اور متاثرین کی دہائیاں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔
چالیس سال قبل، جب سردار محمد یوسف صاحب سیاست کے میدان سے کوسوں دور تھے_
اس وقت مانسہرہ کے سیاحتی مقامات کو ایکسپلور کیوں نہیں کیا گیا؟
کیا چالیس سال قبل یہ سیاحتی مقامات وجود نہیں رکھتے تھے؟
یہاں بھی تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے اور فیصلہ کیجئے کہ نواز شریف کے دورِ اقتدار میں سردار محمد یوسف اور سید قاسم شاہ کے باہمی اشتراک کے بعد، اس وقت کا اور عصرِ حاضر کا بھی عظیم منصوبہ، ایم این جے روڈ کی منظوری، سیاحتی دنیا میں ایک انقلاب تھا_
اسی روڈ کے بننے کے بعد ناران، کاغان پورے پاکستان ہی نہیں، بین الاقوامی دنیا میں بھی سیاحتی مقامات کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ آج ہمارے نمائندوں اور عوام کا وہاں کروڑوں کا کاروبار چمک رہا ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح ناران کا رخ کرتے ہیں اور ملکی، ریونیو میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
تو پھر تعصب کی عینک اتار پھینکیں اور کہہ دیں_ترقی کا بادشاہ، چالیس سالہ سیاسی افق کا چمکتا ستارہ — سردار محمد یوسف ہے ــ
فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں سی پیک روٹ کی بات کا آغاز ہوا، پھر مشرف دور میں پیش رفت ہوئی۔ زرداری دور میں باقاعدہ گوادر بندرگاہ پر کام کا آغاز ہوا، اور پھر نواز شریف کے دور میں چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔
اب عام آدمی اس بات سے نابلد ہے کہ مغربی روٹ کو ہزارہ کون لایا؟
- سی پیک کا مغربی روٹ جو براستہ ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان سے جانا تھا، اس کے لیے مولانا فضل الرحمان اور وہاں کی قیادت نے سرتوڑ کوشش کی۔ جیو کے معروف اینکر سلیم صافی نے درجنوں پروگرام ہزارہ روٹ کے خلاف کیے_
مگر ہزارہ کے ممبران اسمبلی نے اس اہم اور قیمتی منصوبے کو ہزارہ لا کر اپنا حقِ نمائندگی ادا کیا۔
چالیس سالہ اقتدار کی حامل یہ شخصیت، سردار محمد یوسف صاحب بھی انہی ممبران میں شامل تھے اور وفاقی وزیر بھی تھے۔
ان کی کاوشوں کی بدولت سی پیک ہزارہ روٹ منظور ہوا، اور آج ہماری گاڑیاں فراٹے بھرتیں اسلام آباد سے محض دو گھنٹے میں مانسہرہ پہنچ جاتی ہیں۔
اس میگا پراجیکٹ پر بھی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے داد و تحسین سردار محمد یوسف صاحب کو دیجئیے۔
ماضی میں بھی مانسہرہ سے نمائندے شاذ و نادر وزراء رہے، مگر چالیس سال بعد سردار محمد یوسف کے حصے میں جو وزارت آئی، وہ نہ صرف پاکستان کی چوتھی بڑی وزارت تھی، بلکہ ایک اہم دینی فریضہ بھی۔
جسے سردار محمد یوسف صاحب نے بطریقِ احسن سرانجام دیا۔حج جیسا مقدس فریضہ، جہاں ہر سال حجاج کو لوٹا جاتا تھا، ناقص سہولیات کے باعث حجاج جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے اور رہائشوں میں آرام، عذاب کی شکل اختیار کر جاتا۔
پھر پاکستان کی عوام نے دیکھا کہ ایک مسیحا آیا اور حج کے نظام کو ہی پلٹ کر رکھ دیا۔
ایسی تاریخی تبدیلیاں کیں کہ حجاج بے ساختہ دعائیں دینے لگے۔ ماضی میں حج اسکینڈل، اور پھر وزیر موصوف کو جیل کی یاترا، ان سب گھناؤنے اقدامات کے بعد، سردار محمد یوسف صاحب نے جس بہترین انداز سے وزارت کا نظم و نسق چلایا، اس کی تعریف 2018 کے مانسہرہ جلسے میں نواز شریف نے سردار یوسف صاحب کا ہاتھ ہوا میں لہرا کر کی اور شاباش دی ۔
مہنگا ترین حج کو صرف ڈھائی لاکھ روپے تک لے آئے۔ بہترین رہائش گاہیں فراہم کیں۔ خود رات کے پچھلے پہر سردار محمد یوسف صاحب حاجیوں کی خیریت دریافت کرتے اور مسائل جانتے۔ـ بقول سعودی انتظامیہ، تاریخ میں پہلی بار ایسا وزیر سامنے آیا جو خود رات کو حجاج کے پاس جا کر مسائل پوچھتا ہے، ورنہ ماضی میں وزیر موصوف پاکستان ہاؤس میں آرام فرماتے تھے۔
میں ایک واقعہ بیان کرتا چلوں جس کا میں خود گواہ ہوں۔ 2018 کی انتخابی مہم کے سلسلے میں ہم ناران بازار کے دورے پر نکلے۔
ایک خاتون جن کا تعلق سرگودھا سے تھا، وہ سردار محمد یوسف صاحب کو پہچان گئیں۔ ہمارے دیکھتے ہی اس خاتون نے سردار یوسف صاحب کے ہاتھ چومے اور آبدیدہ لہجے میں گویا ہوئیں کہ: اگر مجھے معلوم ہوتا آپ وزیر تھے پانچ سال، تو میں آپ کی وزارت کے آخری سال میں ایک حج کرنے کی بجائے، پورے پانچ سالوں میں پانچ حج کرتی۔”
یہی سردار یوسف صاحب کی دیانتداری، مخلصی کی اعلیٰ مثال ہے کہ آج بھی حجاج، سردار یوسف صاحب کو دعائیں دیتے ہیں۔
حالیہ حج مشن میں قائد محترم کی بہترین و مثالی کارکردگی کی تعریف پہلے سعودی حکومت نے ایوارڈ سے نواز کر کی۔ وطن واپس پہنچنے پر عوام کی جانب سے فقید المثال استقبال کیا گیا۔
پھر قائد محترم ،موجودہ دورِ حکومت میں واحد وزیر ہیں، جن کو وزیراعظم نے احسن کارکردگی پر بلا کر داد و تحسین دی اور اعزازی شیلڈ سے بھی نوازا۔
وفاقی کابینہ کے ممبران نے جس پرتپاک طریقے سے استقبال کیا اور مبارکباد و خراجِ تحسین پیش کیا، یہ سردار محمد یوسف کی نیک نیتی، مخلصی اور ایمانداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بے شک، اللہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے رسوا کرے ـ
اپنی قوم سے مخلصی اور مشن سے یکسوئی کی بنا پر ہی ربّ العالمین نے قائد محترم کو دنیا بھر میں عزتوں سے نوازا ہے۔
یہ درویش منش شخصیت قوم کے لیے، ہمارے خطے کے لیے، نعمت سے کم نہیں۔ مگر افسوس کہ٫
ہم محسن کُش قوم بنتے جا رہے ہیں۔ ہم قدردان بننے کے بجائے ناقدری کرنے والے بنتے جا رہے ہیں۔
عزیزان من!!
ڈھونڈو گے ملکوں ملکوں،
ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم۔
اس تحریر کے ذریعے میں نے اپنے تئیں یہ کوشش کی کہ سردار یوسف صاحب کے چالیس سالہ دور اور اس سے قبل ماضی کے ادوار کا مختصرًا تقابلی جائزہ لیا جائے
تاکہ چند احمقوں,اور عقل کے اندھوں کو حقائق کا آئینہ دکھایا جا سکے*جو صبح شام چالیس سالہ اقتدار کی گردان رٹنے میں مصروف ہیں اور حقیقت سے ازخود آنکھیں چرائے پھرتے ہیں۔
چالیس برس محض ماہ و سال کا گزر جانا نہیں، بلکہ ایثار، وفا، قربانی اور خاموش خدمت کا ایک ایسا دفتر ہے، جس کے اوراق خونِ جگر سے لکھے گئے_
اے محسنِ ملت!!
اے رہبرِ ملت!!
فخر کرتی رہیں گی تم پر بستیاں در بستیاں،
روزِ قدرت کہاں پیدا کرتی ہے ایسی ہستیاں۔
قائدِ حریت کا ہمیشہ قوم کے نوجوانوں کے نام یہی پیغام ہے:
تو نوجوانو! بعض و مخالفت کو ایک طرف رکھ کر پڑھنا۔۔!!
عزیز نوجوانو!!!
انقلاب کوئی پکا ہوا پھل نہیں ہوتا جو ایک دن زمین پر خود بخود گر جائے ۔انقلاب لانا پڑتا ہے، جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔انقلاب خواب دیکھنے سے کبھی نہیں آتے،یہ ایک بہتر زندگی کی جدوجہد کا نام ہے۔
یاد رکھو میرے نوجوانو!!
شخصیات فنا ہو جاتی ہیں،جبکہ نظریات قائم رہتے ہیں۔اپنے نظریے، اپنے مشن اور اپنے کاز پر کاربند رہو،اس کے محافظ بنے رہو، داعی بنے رہو،تاکہ یہ انقلابی تبدیلیاں تادیر قائم رہیں۔زندہ قومیں جب کسی بات کا عزم کر لیتی ہیں،تو گولیوں کی بوچھاڑ، توپوں کی دنادن،،فوجوں کی یلغار، جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریاں،اور تختۂ دار بھی ان کا پایۂ استقلال متزلزل نہیں کر سکتے_
عزیزان من!!
دنیا کے ہر انقلاب کی جڑ کو اگر کھودا جائے،تو ہمیں وہاں عورت کے پاؤں کے نشان نظر آئیں گے۔
دنیا کا ہر انقلاب، ہر جدوجہد، ہر تحریک عورت کے بغیر ادھوری ہے۔
اس چالیس سالہ جدوجہد میں مرد حریت پسندوں کے ساتھ،بہادر، نڈر، حریت پسند خواتین شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔
وہ مقدس سائے تھے
جو گھر کی چاردیواری میں رہ کر بھی
انقلاب کی پیشانی پر حوصلے کا کَجل لگاتے رہے،
جنہوں نے آنچل میں دعائیں باندھیں اور سجدوں میں اپنے محسنوں کی کامیابی کے چراغ جلائے۔یہ وہ صنفِ نازک ہیں جو وقت آنے پر صنفِ آہن بن گئیں۔
کبھی یہ ماؤں کی صورت میں عزم کی گھٹی دیتی رہیں،
کبھی بہنوں کی صورت میں حوصلے کا ہاتھ تھامتی رہیں،
اور کبھی بیٹیوں کی صورت میں امید کا استعارہ بن گئیں۔
اس انقلابی تحریک کی کامیابی کی جب داستان لکھی جائے گی،
تو ہمیں مان ہے کہ اس کی روح ان بہادر خواتین کی خاموش جدوجہد میں پیوست ہو گی۔
ہم انہیں فقط سلام نہیں کہتے
ہم ان کے قدموں میں پوری تاریخ جھکاتے ہیں۔
اور ان خاموش مگر عظیم محسنات کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں؛
لال سلام، محبتوں کا سلام،
اور اپنی آنکھوں کے نم گوشوں سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ:
تم بے آواز تھیں، مگر تمہارا کردار سب سے بلند تھا
لال سلام ہے قافلۂ حریت کے ان تمام کارکنان اور حریت پسندوں کو،جو جہدِ مسلسل اور جہدِ مشکل میں سیسہ پلائی دیوار کی مانند ڈٹے رہے،
اور تب لوٹے جب ظلمتوں کے کالے بادل چھٹے اور جبر و استبداد کے طوفان غرقِاب سمندر ہوئے۔
اب منزل وہ ہے،جسے پا کر قائدِحریت اور تمام حریت پسندوں کی روحوں کو چین ملے گا،ان کی دہائیوں پر محیط جدوجہد کا ثمر انہیں نصیب ہوگا،جب اس خطے سے سرمائے کی حاکمیت، جاگیری نظام، اناپرستی،خود پرستی، بدمعاشی و بادشاہی، اور وڈیرا شاہی کا مکمل خاتمہ ہوگا,تب یہ دنیا کتنی خوبصورت ہوگی۔۔۔
لالچ کی جگہ بھائی چارہ ہوگا،نفرت کی جگہ محبت ــ
اے محسن قوم!!!
چار دہائیوں پر محیط یہ قربانی و جہدِ مسلسل،وہ حقیقت ہے جسے صرف تاریخ کے کتب خانے نہیں،
بلکہ دلوں کی دھڑکنیں بھی محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔
یہ وہ احسان ہے جو الفاظ کے دائرے میں نہیں آتا،اور یہ وہ قرض ہے، جس کی قسطیں ہم آنکھوں کے پانی سے بھی چکانے کے قابل نہیں۔
ہم آپ کو صرف یاد نہیں کریں گے،
ہم آپ کو اپنی آنے والی نسلوں کی آنکھوں،اپنی ماؤں کی دعاؤں،اور اپنے سینوں کی دھڑکنوں میں بسائیں گے۔
چار دہائیاں بیت جانے کے بعد!
آج وسیع النظری اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئیے!
ہم سب اپنے دلوں کے در وا کریں ــ
اپنی روحوں کو جھکائیں، اور اپنے الفاظ کو خراج بنائیں،دل کی *گہرائیوں سے۔۔۔ تاکہ ہم یہ کہہ سکیں:
ہم نے اپنے محسن کو پہچانا۔
ہم نے اپنے معمار کو مانا۔
جن کی آواز سے بیدار ہوئی قومِ خموش_
ہم نے اُس محسن کو پہچانا۔
جو اکیلا چل پڑا، کارواں بن گیا،
ہم نے اُس رہنما کو مانا۔
عزیزان من!!
جب تاریخ کے اوراق جھاڑے جاتے
ہیں، تو صرف ماضی ہی نہیں ابھرتا،بلکہ حال کو سمجھنے اور مستقبل کا رخ متعین کرنے کا چراغ بھی روشن ہوتا ہے یہ تحریر بھی ایک ایسی ہی کاوش ہے،
تاکہ نئی نسل اپنے اسلاف کی قربانیوں، جدوجہد،اور عظمت کو پہچانے، ان سے سبق لے،
اور اپنے قدم درست سمت میں بڑھا سکے۔
عزیزان من!!
تاریخ کا سبق یہی ہے کہ!!
جو قومیں اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہیں،وہ خود تاریخ کے اوراق میں گم ہو جاتی ہیں۔
اور یہ بھی ذہن نشین کر لیں کہ,
رہنما صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں،اور قومیں انہی کے دم سے بیدار ہوتی ہیں۔ـــبقول اقبال نے کہا :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے،
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
از قلم سردار محمد اویس