ڈاکٹر جزبیہ شیریں
آج 9 جولائی فاطمہ جناح کا یوم وفات ہے۔ 55 برس گزر گئے، مگر کیا ہم نے ان کے خوابوں کو زندہ رکھا؟
1967 کا وہ دن جب "مادرِ ملت” فاطمہ جناح اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ پچپن سال گزر چکے، مگر کیا ہم نے ان کی قربانیوں، ان کے عزم، اور ان کے خوابوں کو سینے سے لگایا؟ یا پھر ہم نے انہیں بھی اپنی تاریخ کے کسی دھندلکے میں دفن کر دیا ہے؟ فاطمہ جناح صرف قائداعظم کی بہن نہیں تھیں۔ وہ خود ایک تحریک تھیں، ایک آواز تھیں، ایک جذبہ تھیں۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان کی آزادی کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اس کے بعد بھی وہ اس ملک کی تعمیر اور اس کے جمہوری اصولوں کی پاسداری کے لیے میدان میں کھڑی رہیں۔ مگر افسوس، ہم نے انہیں بھی وہ مقام نہ دیا جو ان کا حق تھا۔ فاطمہ جناح کا سفر عام نہیں تھا۔ دندان سازی کی تعلیم حاصل کرنے والی یہ خاتون جب سیاست کے میدان میں اتری تو اس نے ثابت کر دیا کہ عورت اگر چاہے تو کچھ بھی کر سکتی ہے۔ قائداعظم کے ساتھ ان کا کردار نہ صرف ایک بہن کا تھا بلکہ ایک ساتھی، ایک مشیر اور ایک سپاہی کا بھی تھا۔ جب قائداعظم بیمار پڑتے، فاطمہ جناح ہی تھیں جو ان کی دیکھ بھال کرتیں، مگر ساتھ ہی تحریکِ پاکستان کے لیے بھی کام کرتی رہتیں۔ انہوں نے خواتین کو منظم کیا، تقریریں کیں، اور یہ پیغام دیا کہ پاکستان صرف مردوں کا نہیں، عورتوں کا بھی ہے۔
1965ء کا الیکشن وہ لمحہ تھا جب فاطمہ جناح نے ثابت کر دیا کہ وہموجودہ دور کی ایک طاقتور سیاسی قوت بھی ہیں۔ ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف وہ میدان میں آئیں۔ ان کا نعرہ تھا: "جمہوریت کو بچاؤ!”۔ ان کی مہم نے عوامی جذبات کو بھڑکا دیا۔ ہر جلسے میں ہزاروں لوگ انہیں سننے آتے۔ مگر کیا ہوا؟ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اٹھے۔ نتیجہ وہی جو طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ چاہتے تھے۔ اس انتخاب کے بعد فاطمہ جناح کو کیا ملا؟ تنہائی۔ ان کی آواز کو دبایا گیا۔ میڈیا نے انہیں نظرانداز کیا۔ حکومت نے انہیں ایک "بوڑھی، غیر متعلقہ” خاتون کے طور پر پیش کیا۔ مگر کیا واقعی وہ غیر متعلقہ تھیں؟ یا پھر ان کے خیالات، ان کا عزم، ان کا جمہوری نظریہ کسی کو راس نہیں آیا؟ 9 جولائی 1967 کو فاطمہ جناح نے آخری سانس لی۔ مگر کیا ان کی موت کے بعد بھی ہم نے انہیں وہ عزت دی؟ ان کے نام پر کتنے ادارے ہیں؟ کتنے اسکول، کتنے ہسپتال؟ کیا ہم نے نئی نسل کو ان کے بارے میں بتایا؟ یا پھر ہم نے انہیں صرف ایک "قائداعظم کی بہن” تک محدود کر دیا؟
آج بھی اگر کوئی فاطمہ جناح کی قبر پر جاتا ہے تو وہ دیکھے گا کہ ان کا مزار کتنا خاموش ہے۔ کیا یہی عزت ہے جو ہم اپنی ہیروز کو دیتے ہیں؟
فاطمہ جناح صرف ایک نام نہیں، ایک سوچ تھی۔ انہوں نے سکھایا کہ خواتین کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ انہوں نے سکھایا کہ حق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے، چاہے طاقت کتنی ہی مخالف کیوں نہ ہو۔ آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کیسے کمزور ہو رہی ہے، میڈیا کیسے دبایا جا رہا ہے، عورتوں کے حقوق کیسے نظرانداز ہو رہے ہیں، تو فاطمہ جناح کا پیغام اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ کیا ہم ان کے خوابوں کو پورا کر پائے ہیں؟ یا پھر ہم نے ان کی قربانیوں کو بھول کر ایک ایسا معاشرہ بنا لیا ہے جہاں سچ بولنے والوں کو تنہا کر دیا جاتا ہے؟ آج جب ہم فاطمہ جناح کو یاد کرتے ہیں، تو صرف ایک تاریخی شخصیت کو خراجِ تحسین پیش نہیں کر رہے، بلکہ ایک انسان کو یاد کر رہے ہیں۔ ایک ایسی انسان جو ہماری طرح خوش ہوتی تھی، رنجیدہ ہوتی تھی، تھک جاتی تھی، مگر ہار نہیں مانتی تھی۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جب وہ رات گئے تک قائداعظم کے خطوط ٹائپ کرتی ہوں گی، تو کتنی تھک جاتی ہوں گی؟ یا جب خواتین کو تحریکِ پاکستان میں شامل کرنے کے لیے گھر گھر جاتی ہوں گی، تو کتنے دروازے ان کے چہرے پر بند کیے گئے ہوں گے؟ یہ وہ لمحات ہیں جو تاریخ کی کتابوں میں درج نہیں، مگر جنہیں سمجھے بغیر ہم فاطمہ جناح کو سچے معنوں میں یاد نہیں کر سکتے. جب 1965 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی، تو کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ان کا دل کتنا ٹوٹا ہوگا؟ ایک عورت جس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی سیاسی جنگ لڑی، اور پھر اسے نتیجہ دیکھنے سے محروم رکھا گیا۔ جب انہیں "بوڑھی خاتون” کہہ کر نظرانداز کیا گیا، تو کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ ان کے اندر کس قدر غصہ اور مایوسی ہوگی؟ وہ غصہ جو ہم میں سے ہر ایک کو ہوتا ہے جب ہمیں ہماری جنس، یا ہماری سوچ کی بنیاد پر کم تر سمجھا جاتا ہے۔
جب انہوں نے اپنے آخری دن تنہائی میں گزارے، تو کیا آپ نے کبھی تصور کیا کہ وہ کتنی اکیلی محسوس کرتی ہوں گی؟ ہم سب کو اپنی زندگی میں اکیلے پن کا احساس ہوا ہے، مگر کیا ہم نے کبھی سوچا کہ "مادرِ ملت” کو بھی یہ احساس ہوگا؟
فاطمہ جناح کا پیغام صرف کتابوں تک محدود نہیں۔ یہ ہماری روزمرہ کی زندگیوں میں موجود ہے
جب کوئی لڑکی ڈاکٹر یا انجینئر بننے کا خواب دیکھتی ہے، تو وہ فاطمہ جناح کی روح کو زندہ رکھتی ہے۔
جب کوئی خاتون گھر میں، دفتر میں، یا سڑک پر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے، تو وہ فاطمہ جناح کی میراث کو آگے بڑھا رہی ہوتی ہے۔ جب ہم میں سے کوئی بھی ناانصافی کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، تو ہم فاطمہ جناح کے اصولوں پر چل رہے ہوتے ہیں۔ ہم قائداعظم کی وفات پر روئے۔ ہم لیاقت علی خان کی شہادت پر روئے۔ مگر کیا ہم نے کبھی فاطمہ جناح کے لیے آنسو بہائے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جس عورت نے ہمارے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی، اس کے آخری دن کتنے دکھ بھرے تھے؟ ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں، مگر کیا ہم نے کبھی اس انسان کے دکھ کو محسوس کیا جو ان اوراق کے پیچھے چھپا ہے؟
آج، فاطمہ جناح کو سچے معنوں میں یاد کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے انسانی پہلو کو سمجھیں۔ ہم ان کی تھکاوٹ، ان کی مایوسی، ان کے جذبات کو محسوس کریں۔ اور پھر، ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں ان کے خوابوں کو زندہ رکھیں اپنے گھر میں، اپنے کام کی جگہ پر، اپنے معاشرے میں انصاف کے لیے آواز اٹھا کر کسی بھی عورت کو اس کے خوابوں سے محروم نہ ہونے دے کر۔
کبھی بھی کسی کو یہ کہہ کر خاموش نہ کرا کر کہ تمہاری آواز اہم نہیں۔ فاطمہ جناح کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا یہی سب سے خوبصورت طریقہ ہے۔ کیونکہ وہ ایک ایسا جذبہ ہیں جو ہمارے اندر ہر روز زندہ رہ سکتا ہے۔
ورنہ، کیا ہم واقعی انہیں یاد کر رہے ہیں؟ یا صرف ایک رسم پوری کر رہے ہیں؟ فاطمہ جناح ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی، بشرطیکہ ہم ان کے اصولوں کو نہ بھولیں۔ آج ان کے یومِ وفات پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم ان کے نظریات کو آگے بڑھائیں گے۔ ہم جمہوریت، انصاف اور مساوات کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ کیونکہ فاطمہ جناح صرف ماضی نہیں، ہمارا مستقبل بھی ہیں۔ ورنہ یومِ وفات منانے کا کیا فائدہ، جب ہم ان کے پیغام کو ہی دفن کر چکے ہوں؟