محمد راشد خان سواتی (ابو ہادیہ)
پنجاب کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی تقریباً پندرہ سو سرکاری اسکولوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی اطلاعات نے اساتذہ برادری ہی نہیں بلکہ اہلِ فکر و دانش اور سول سوسائٹی کو بھی گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ صرف تعلیمی ادارے نہیں، بلکہ نظریاتی قلعے ہیں—جہاں علم کے ساتھ ساتھ قوم کے نظریاتی، دینی، ریاستی اور تہذیبی اثاثے بھی محفوظ کیے جاتے ہیں۔
اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ استاد کا کردار صرف تعلیم تک محدود نہیں، بلکہ وہ قوم کی فکری، اخلاقی اور نظریاتی تربیت کا بھی ضامن ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش کی مثال اس بات کا ثبوت ہے کہ جب نظریاتی تعلیم و تربیت کو پسِ پشت ڈال دیا گیا تو نتیجتاً نظریاتی بنیادوں پر ہی ریاست کو نقصان اٹھانا پڑا۔ وہاں اساتذہ کی اکثریت چونکہ نظریاتی ہم آہنگی سے خالی تھی، اس لیے ریاستی بنیادیں کمزور ہو گئیں اور دشمن قوتیں "مکتی باہنی” کی صورت میں سر اٹھانے لگیں۔
کسی نے خوب کہا ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے یوں ہی نہیں ہوا کرتے
جرمن تاریخ کا وہ لمحہ بھی ہمارے لیے سبق آموز ہے جب ہٹلر، جنگ میں شکست کے بعد اپنی قوم کو مایوسی کے دلدل سے نکالنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے پرائمری اساتذہ سے ملاقات کی اور ان سے کہا: "جو نوجوان اور بالغ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ہم ہار گئے، لیکن جو بچے ہیں، ان کو تم نے بتانا ہے کہ ہم شکست خوردہ نہیں، بلکہ باہمت اور زندہ قوم ہیں۔” اس نظریاتی مورال سازی نے چند ہی سالوں میں جرمن قوم کو دوبارہ زندہ کر دیا۔
اسی طرح پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا کے گورنمنٹ اسکول آج بھی اپنے نظریاتی تحفظ، مذہبی اقدار، اور علاقائی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ اصلاحات کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے، لیکن پرائیویٹائزیشن کوئی حل نہیں۔ اگر ان اداروں کو نجی ہاتھوں میں دے دیا گیا تو اساتذہ کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا، اور جب ایک استاد مایوس ہو جائے تو وہ قوم کے بچوں کو اُمید، حوصلہ اور جذبہ کیسے دے سکے گا؟
پھر یہ بھی سوال ہے کہ نجی ادارے ریاستی اور مذہبی نظریات کا اسی طرح تحفظ کیسے کریں گے جس طرح آج سرکاری اسکول کر رہے ہیں؟ آج تک کسی گورنمنٹ اسکول سے کوئی ایسی خبر نہیں آئی جو ریاست یا مذہب سے متصادم ہو۔
لہٰذا، ہم اربابِ اختیار سے دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ خدارا ملکِ پاکستان کے اُن 90 فیصد عوام پر رحم کیا جائے جن کے بچے گورنمنٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ جن کے خواب، امیدیں، اور مستقبل انہی اداروں سے وابستہ ہیں۔ ان اسکولوں میں بہتری ضرور لائیں، اصلاحات کریں، لیکن انہیں نجی شعبے کے حوالے نہ کریں۔ یہ صرف ادارے نہیں، بلکہ قوم کے نظریاتی قلعے ہیں—متاعِ لوح و قلم۔