Skip to content

کیا پی ٹی آئی کی واپسی ممکن ہے؟

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں

آج کل کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو ایک عجیب سی کشمکش نظر آتی ہے۔ ایک طرف تو موجودہ حکومت کے وزیراعظم مسلسل یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، دوسری طرف گلی محلوں میں عام آدمی کا ایک ہی رونا ہے – "روٹی کہاں ہے؟ پیٹ کی آگ کیسے بجھے؟” ایسے میں ذہن میں ایک سوال بار بار ابھرتا ہے: کیا واقعی پی ٹی آئی کا دور ختم ہو چکا ہے؟ یا یہ محض ایک وقفہ ہے جس کے بعد وہ دوبارہ واپس آئے گی؟
2023 کے انتخابات کے بعد سے پی ٹی آئی کو جس طرح کے حالات کا سامنا ہے، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ پارٹی چیئرمین عمران خان تقریباً ایک  عرصہ  سے جیل میں ہیں۔ ان پر ایک سو پچاس سے زیادہ مقدمات قائم کیے گئے ہیں .  سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود پی ٹی آئی کی عوامی حمایت میں کوئی خاص کمی نہیں آئی۔ 2024 کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے آزاد امیدواروں کے ذریعے کئی نشستیں جیتیں۔ مثال کے طور پر لاہور کے حلقے پی پی-167 میں پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدوار نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو سات ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ خیبر پختونخوا کے حلقے پی کے-22 میں پی ٹی آئی کے سابق رہنما نے جماعت اسلامی کے امیدوار کو ہرایا، حالانکہ اس سے پہلے یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے پاس تھی۔ یہ نتائج اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اگرچہ اداراتی دباؤ موجود ہے، لیکن عوامی جذبات اب بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔
ایک دلچسپ مشاہدہ یہ ہے کہ جتنا زیادہ عمران خان پر دباؤ بڑھ رہا ہے، اتنی ہی ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ 2028 تک برقرار رہے گا؟ کیا عوام کی یہ حمایت محض جذباتی ہے یا پائیدار؟ میرے خیال میں اس کا جواب موجودہ حکومت کی کارکردگی میں پوشیدہ ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت کے تین سال کے دور میں مہنگائی نے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ گندم کی قیمت تین ہزار روپے سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں یہ ایک ہزار دو سو روپے کے قریب تھی۔ بجلی کے بلوں میں ایک سو بیس فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں، اور نوجوانوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ان حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر 2028 تک معاشی صورتحال میں بہتری نہ آئی تو عوام ایک بار پھر پی ٹی آئی کی طرف رجوع کریں گے۔
لیکن پی ٹی آئی کو بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ انہوں نے اپنے دور میں اتحادیوں کے ساتھ ناکام پالیسی اپنائی، جس کی وجہ سے انہیں تنہا کر دیا گیا۔ معیشت کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے، حالانکہ انہوں نے کورونا جیسے بحران کا مقابلہ کیا۔ میڈیا مافیا کے خلاف جنگ میں ضرورت سے زیادہ جارحانہ رویہ اپنایا، جس سے انہیں نقصان اٹھانا پڑا۔ اگر پی ٹی آئی ان غلطیوں سے سبق سیکھ لے اور 2028 تک ایک مضبوط، متحد اور پالیسی پر مبنی مہم چلائے، تو ان کے واپس آنے کے امکانات روشن ہیں۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کی کامیابی صرف عوامی حمایت پر منحصر نہیں ہوتی۔ اگر پی ٹی آئی کو 2028 میں کامیاب ہونا ہے تو انہیں نہ صرف عوام بلکہ دیگر اہم عوامل کو بھی اپنی طرف متوجہ کرنا ہوگا۔ عمران خان کی گزشتہ دو سال کی گرفتاریوں نے پاکستانی سیاست میں زلزلہ بپا کر دیا ہے۔ مئی 2023 میں پہلی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں نے تاریخ رقم کی، جب کور کمانڈرز ہاؤس سمیت فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے اور ہزاروں کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ اگست 2023 میں توشہ خانہ کیس میں سزا کے بعد دوبارہ گرفتاری پر سڑکوں پر نوجوانوں کے جذباتی مظاہرے دیکھنے میں آئے، جبکہ #ReleaseImranKhan ٹرینڈنگ ٹاپک بنا اور لاہور و کراچی میں کرفیو جیسی صورتحال پیدا ہوئی۔ فروری 2024 کے انتخابات کے بعد ووٹوں کے نتائج پر احتجاج ہوا، جبکہ آزاد امیدواروں (پی ٹی آئی حمایت یافتہ) کی کامیابی کے باوجود اسمبلیوں میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ ہر گرفتاری کے بعد نوجوانوں کی نئی کھیپ سیاست میں متحرک ہوئی، سوشل میڈیا پر سیاسی بحثوں کا نیا رواج بنا، اور عوامی سطح پر اداروں کے کردار پر سوالات اٹھے۔ اب بھی جب کبھی عمران خان یا ان کے کارکنوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو فوری طور پر ٹویٹر/فیس بک پر ہیش ٹیگ ٹرینڈ ہوتے ہیں، یونیورسٹیوں میں پرامن احتجاج ہوتے ہیں، اور بین الاقوامی میڈیا میں کوریج ملتی ہے۔ یہ سلسلہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی صرف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک عوامی تحریک بن چکی ہے، اور جب تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے اور سیاسی انصاف کا شعور زندہ ہے، یہ ردعمل جاری رہے گا۔
میں ایک عام شہری کی حیثیت سے یہ محسوس کرتی ہوں کہ پی ٹی آئی اب بھی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے پاس نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی، عوامی جلسوں میں شرکت، اور نظریاتی وابستگی دوسری جماعتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اگر وہ اپنی حکمت عملی درست کر لیں تو 2028 میں ان کی واپسی نہ صرف ممکن ہے بلکہ شاید ناگزیر ہو جائے۔
سیاست کا کھیل ہمیشہ سے غیر متوقع رہا ہے۔ آج جو جماعت زیر زمین نظر آ رہی ہے، کل وہی دوبارہ عروج پر ہو سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے چیلنجز بہت ہیں، لیکن مواقع بھی کم نہیں۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ ان مواقع کو کیسے استعمال کرتی ہے۔ اور ہاں، یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ آخرکار فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ چاہیں تو کسی بھی جماعت کو دوبارہ موقع دے سکتے ہیں۔
سوچنے کا سوال یہ ہے: کیا ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں؟ یا پھر ہم وہی پرانا راستہ اختیار کریں گے؟

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں