Skip to content

ہماری یونیورسٹیاں اتنی پیچھے کیوں؟

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں 


دو ہزار چھبیس کی کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگز نے ایک بار پھر پاکستانی تعلیمی نظام کی ناکامی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ٹاپ دس میں ایم آئی ٹی (پہلا)، کیمبرج (دوسرا)، آکسفورڈ (تیسرا)، ہارورڈ (چوتھا)، اور اسٹینفورڈ (پانچواں) جیسی یونیورسٹیاں شامل ہیں، جبکہ چین کی پیکنگ یونیورسٹی اب چودہویں نمبر پر پہنچ چکی ہے۔ ٹاپ پچاس میں امریکہ کی چوبیس، برطانیہ کی دس اور چین کی آٹھ یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ المیہ یہ کہ ٹاپ پانچ سو میں پاکستان کا ایک بھی ادارہ شامل نہیں، جبکہ بھارت کی پندرہ، ایران کی چار اور بنگلہ دیش کی دو یونیورسٹیاں اس فہرست میں جگہ بنا چکی ہیں۔ ہماری بہترین یونیورسٹی بھی چھ سو سے آٹھ سو کی درمیانی رینج سے باہر نہیں نکل پائی۔یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ جب بھی عالمی یونیورسٹی رینکنگ آتی ہے، ہماری یونیورسٹیوں کا نام سننے کو نہیں ملتا۔ ٹاپ 500؟ خواب! ٹاپ 1000؟ شاید کوئی ایک آدھ بھاگ دوڑ کر لے آئے۔ اور پھر ہم حیران ہوتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ جبکہ ہمارے ہاں تو "تعلیم سب سے بڑی دولت ہے” کے نعرے روزانہ لگائے جاتے ہیں۔ مگر دولت تو درکنار، یونیورسٹیوں کے پاس تنخواہوں کے پیسے تک نہیں ہوتے۔ پھر رینکنگ کہاں سے بنے گی؟
ہارورڈ یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ 5 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ صرف ریسرچ پر وہ سالانہ 1 ارب ڈالر خرچ کرتی ہے۔ ایم آئی ٹی میں ایک اوسط پروفیسر کو ریسرچ گرانٹ کے طور پر 2 سے 5 لاکھ ڈالر سالانہ ملتے ہیں۔ سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی اپنے ہر نئے فیکلٹی ممبر کو شروع میں ہی 2 لاکھ ڈالر کی ریسرچ گرانٹ دیتی ہے۔
اور ہمارے ہاں؟ یہاں تو یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کو بجٹ ملتا ہے تو وہ پہلے اپنے دفتر کی صفائی، کرسیوں کی پالش اور ائیر کنڈیشنرز کے لیے خرچ کر دیتے ہیں۔ باقی اگر کچھ بچے تو شاید کسی ریسرچ پر لگا دیں۔ ایک سرکاری یونیورسٹی کے پروفیسر نے بتایا کہ انہیں اپنی پوری زندگی میں کل 50 ہزار روپے کی ریسرچ گرانٹ ملی ہے – جو کہ امریکہ میں ایک اوسط ریسرچ پیپر کی پبلشنگ فیس کے برابر ہے
لندن اسکول آف اکنامکس میں ایک اسسٹنٹ پروفیسر کی سالانہ تنخواہ تقریباً 80 ہزار پاؤنڈ (2 کروڑ 40 لاکھ روپے) ہوتی ہے۔ امریکہ میں تو ایک پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچر بھی 60 ہزار ڈالر سالانہ کماتا ہے۔
ہمارے ہاں؟ ایک پروفیسر کی اوسط تنخواہ 80 سے 1 لاکھ روپے ماہانہ۔ دلچسپ بات یہ کہ کئی یونیورسٹیوں میں VC کے ڈرائیور کی تنخواہ اس سے زیادہ ہوتی ہے ۔
دوسرے ملکوں میں یونیورسٹیاں ایجادات کرتی ہیں۔ اس سال آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے کینسر کی نئی دوا دریافت کی ہے۔ ایم آئی ٹی کے طلبہ نے مصنوعی ذہانت کا نیا نظام بنایا ہے۔ جرمنی کی ایک چھوٹی سی یونیورسٹی نے سولر انرجی میں انقلاب لانے والی ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔
ہمارے ہاں؟ یہاں ریسرچ کا مطلب یہ ہے کہ کسی استاد نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر ایک پیپر لکھ دیا، جو کسی جریدے میں چھپ گیا۔ اصل میں تو زیادہ تر "ریسرچ” وہی ہوتی ہے جو گوگل سے کاپی پیسٹ کر کے تھوڑا سا بدل دیا جاتا ہے۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ ان کے پروفیسر نے تو 2005 کا پرانا ریسرچ پیپر 2023 میں دوبارہ جمع کروا دیا، بس عنوان بدل کر!
ایک طالب علم نے بتایا کہ ان کی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے لیے اب بھی ونڈوز XP چلانے والے کمپیوٹرز استعمال ہوتے ہیں۔ کیمسٹری لیب میں تو بورک ایسڈ تک نہیں ملتا۔ انجینئرنگ کے طلبہ کو 20 سال پرانے ڈیزائن پڑھائے جاتے ہیں جبکہ دنیا میں 3 D پرنٹنگ اور روبوٹکس کا دور چل رہا ہے۔
اور فیس؟ ہر سال بڑھتی ہے۔ مگر سہولیات؟ وہی پرانی عمارتیں، وہی فرسودہ لائبریریاں جہاں نئی کتابیں تو کیا، پرانی کتابوں کے صفحات بھی غائب ہوتے ہیں۔ ایک طالب علم کا دل دکھانے والا واقعہ بتات

ی ہوں – میڈیکل کالج کے طالب علم نے بتایا کہ انہیں اناٹومی پڑھانے کے لیے ایک ہی لاش 20 سال سے استعمال ہو رہی ہے، جس کا بیشتر حصہ سڑ چکا ہےکچھ قابل اساتذہ نے تبدیلی کی کوشش کی۔ ڈاکٹر عابد، جنہوں نے سولر انرجی پر کام کرنا چاہا، انہیں یونیورسٹی نے 50 ہزار روپے کا بجٹ دیا – جبکہ صرف ایک معیاری سولر پینل ہی 2 لاکھ روپے کا آتا ہے۔ پروفیسر کمال نے نینو ٹیکنالوجی پر ریسرچ شروع کی تو پتا چلا کہ لیبارٹری میں موجود آلہ 1990 کی دہائی کا ہے۔
ایک اور قابل پروفیسر نے بیرون ملک سے 10 لاکھ ڈالر کی گرانٹ حاصل کی، مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے رقم کے استعمال میں اتنی رکاوٹیں کھڑی کیں کہ آخرکار انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اب وہ کینیڈا میں پڑھا رہے ہیں۔
 2016 میں جب ڈاکٹر الیاس نے ہزارہ یونیورسٹی میں "سنٹر فار ہیومن جینیٹکس” کی بنیاد رکھی تو سب کو لگا شاید پاکستان میں بھی تحقیق کا کوئی چراغ جلنے والا ہے۔ محض دو سال میں ہی اس سنٹر نے پانچ بین الاقوامی ریسرچ گرانٹس حاصل کر لیں – جن میں سے ایک جرمنی کی مشہور میکس پلانک سوسائٹی سے تھی۔ یہاں کے طلبہ کی تحقیق کے مقالے معتبر بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوئے۔  
سب سے قابل فخر بات یہ کہ اس سنٹر سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں نے جاپان، چین، اٹلی، فرانس، برطانیہ اور امریکہ کی معروف یونیورسٹیوں میں اپنی جگہ بنائی۔ ایک طالبہ تو ٹوکیو یونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹرل فیلوشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔  
مگر 2018 میں انتظامیہ کے ایک فیصلے نے اس خواب کو چکنا چور کر دیا۔ ذاتی اختلافات اور انتظامی دخل اندازیوں کے بعد یہ سنٹر بند کر دیا گیا۔ آج وہی عمارت خالی پڑی ہے جہاں کبھی پاکستان کی پہلی جینومکس لیب قائم ہونے والی تھی۔ ڈاکٹر الیاس اب کہیں اور خدمات انجام دے رہے ہیں، اور ہمارے نظام تعلیم نے ایک اور موقع گنوا دیا۔  
   کیا یہی ہے ہمارے ملک کا مستقبل؟ کیا کبھی بہتری آئے گی؟ کچھ عملی اقدامات تو فوری طور پر کیے جا سکتے ہیں
حکومت کو چاہیے کہ یونیورسٹیوں کو براہ راست فنڈز دینے کے بجائے آزاد ادارے کے ذریعے ریسرچ گرانٹس دی جائیں۔ میرٹ پر تقرریاں ہوں، سفارش پر نہیں۔ یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ صنعتوں کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ ریسرچ عملی استعمال میں آ سکے۔
بیرون ملک کی یونیورسٹیوں کے ساتھ مشترکہ پروگرام شروع کیے جائیں۔ پروفیسرز کو جدید ترین تحقیق کی تربیت دی جائے۔ مگر سب سے بڑی تبدیلی تو سوچ میں لانی ہوگی۔ جب تک تعلیم کو "کاروبار” سمجھا جاتا رہے گا، جب تک ریسرچ کو "وقت کا ضیاع” سمجھا جائے گا، اور جب تک یونیورسٹیاں "سیاسی گڑھ” بنی رہیں گی، تب تک ہم عالمی درجہ بندی میں کبھی نہیں آئیں گے۔
ہاں، ایک راستہ ہے یا تو ہم سنجیدہ ہو جائیں، یا پھر رینکنگ دیکھنے کے بجائے "ہماری یونیورسٹیاں دنیا کی سب سے منفرد یونیورسٹیاں ہیں” کا نعرہ لگا کر خوش رہیں۔ کیونکہ جب کوئی حل نہ ہو، تو مزاق بنا لینا ہی بہتر ہے نا؟

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں