ڈاکٹر جزبیہ شیریں
ہمارے معاشرے میں خواتین آج بھی نہ صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ اپنی زندگی جینے کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ زینب سے لے کر ثنا یوسف، قندیل بلوچ، اقرا، ایات مریم اور نور مقدم تک کی داستانیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کا وجود کتنی مشکلات، نفرت اور تشدد کا شکار ہے۔ یہ صرف ایک حادثہ یا ذاتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک گہری سماجی بیماری ہے جو ہماری سوچ، روایات، اور مذہب کے نام پر قائم شدہ بندشوں سے جنم لیتی ہے۔
ایک طرف ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام عورت کی عزت کا پاسدار ہے، اور دوسری طرف عورت کو زندگی گزارنے کے ہر حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ مذہب، جو انسانیت کی رہنمائی کا ذریعہ ہونا چاہیے، اسے بعض افراد نے اپنے مفادات کے لیے ہتھیار بنایا ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں "غیرت” کی نام نہاد حفاظت کے نام پر عورت کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی یا عورت اپنی مرضی سے زندگی جینا چاہے، اپنا حق مانگے، یا خودمختار بننا چاہے، تو اسے "غیرت کا مسئلہ” قرار دے کر قتل کیا جاتا ہے یا معاشرتی طور پر جلا وطنی دی جاتی ہے۔
یہاں ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ مرد جو اپنی زندگی میں ناکامی اور مایوسی کا شکار ہیں، اپنی تمام تر تلخیوں اور ناکامیوں کا الزام عورت پر لگاتے ہیں۔ ایک ایسی ذہنی بیماری جسے ‘انسلز’ کہتے ہیں، میں مبتلا ہو جاتا ہے، جس میں اسے یہ لگتا ہے کہ اگر عورت اس کی نہیں ہو سکتی تو کسی کی بھی نہیں ہو سکتی۔ عورت کی ‘نہ’ یا ‘ہاں’ کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔
یہی وہ گروہ ہے جو نفرت اور تشدد کو اپنی طاقت سمجھتا ہے۔ ان کی دنیا میں عورت کی مرضی کا کوئی مطلب نہیں، انہیں صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کی فکر ہے۔ وہ خود کو حق سمجھتے ہیں کہ عورت سے جبری طور پر تعلق قائم کریں یا اس کے خلاف انتہائی قدم اٹھائیں۔ یہ رجحان صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بڑھ رہا ہے، مگر ہمارے ہاں اس کا اثر کہیں زیادہ تباہ کن ہے کیونکہ یہاں سماجی، مذہبی اور قانونی تحفظات انتہائی کمزور ہیں۔
یہ دردناک حقیقت ہے کہ آج کی دنیا میں ایک لڑکی نہ صرف باہر بلکہ اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں، نیٹ فلکس کی فلم "اڈولیسنس” جہاں ایک تیرہ سالہ لڑکے نے اپنی کلاس فیلو کو صرف اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے اس کی محبت کا جواب نہ دیا۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ چاہے مغرب ہو یا مشرق، لڑکی کہیں بھی محفوظ نہیں۔ ہماری سماجی اور ذہنی حالت آج بھی غار کلچر کی طرح ہے جہاں عورت کو مرد کی ملکیت سمجھا جاتا ہے، اور اگر مرد چاہے تو اسے حاصل کرنا اس کی تقدیر ہے، چاہے عورت انکار کرے یا نہ کرے۔ یہی سوچ عورت کو زندگی گزارنے کا حق نہیں دیتی ہے۔
موٹروے پر ہونے والے ریپ کیسز پر مقتولہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ اکیلی کیوں سفر کر رہی تھی، یا دہلی میں لڑکیوں پر ہونے والے تشدد پر کہا جاتا ہے کہ رات کو باہر جانا، کپڑے چھوٹے پہننا غلط ہے، تو یہ معاشرتی رویے عورت کے خلاف نفرت کو بڑھاتے ہیں۔ زینب جیسے ننھے بچیوں کے ساتھ گھروں میں ہونے والے تشدد اور قتل پر بھی ہم خاموش رہ جاتے ہیں۔
ثنا یوسف کے قتل پر جہاں مردوں کی جعلی غیرت کی باتیں عام ہیں، وہیں کچھ خواتین کے ایسے بیانات اور تبصرے بھی نظر آتے ہیں جو زیادہ صدمہ دیتے ہیں۔ ثنا ایک خوش مزاج، خوبصورت لڑکی تھی جو اپنی زندگی آزادی کے ساتھ گزارنا چاہتی تھی، مگر ایسے خاندانوں اور معاشروں میں جہاں ٹاکسک رویے عام ہیں، ایسی خواتین کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ ثنا کو قتل کرنے والا ایک ناکام اور جاہل لڑکا تھا۔
یہ تمام قاتل اور مظالم کرنے والے زیادہ تر ان پڑھ، ناکام اور حسد میں مبتلا لوگ ہیں، جو اپنی ناکامیوں کا ازالہ دوسروں کی کامیابیوں کو نقصان پہنچا کر کرنا چاہتے ہیں۔ ایات مریم کے شوہر، قندیل بلوچ کے بھائی، اقرا کے کزن سب نے اپنی ناکامیوں کو "غیرت” کا بہانہ بنا کر قتل کو جائز ٹھہرایا۔
مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں دھوکہ دے کر نشہ پلا کر، یا محبت کے جال میں پھنسا کر خواتین کی ویڈیوز بنا کر بلیک میل کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس معاشرتی نظام کی عکاسی کرتا ہے جہاں عورت کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ دینی مدارس میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے ریپ کو بھی جواز بنا کر نظر انداز کیا جاتا ہے، اور یونیورسٹیوں، کالجوں میں بھی ایسے واقعات عام ہیں، مگر انہیں چھپایا جاتا ہے۔
ہم انسان نہیں رہے جب دل چاہے کسی کو اٹھا کر قتل کر دیں، اس کی سانسیں روک دیں، اس کے لباس، شناخت، آزادی کو چھین لیں۔ عورت کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جیے نہ، پہنے نہ، بولے نہ، اپنی شناخت چھپائے۔ ہم نہ گھر میں محفوظ ہیں، نہ سڑکوں پر، نہ مدارس میں، نہ سکولوں میں۔ ہم کہاں جا ئیں ، سانس نہ لیں ہم، جیئیں نہ؟ مر جائیں؟ محفوظ بس قبر ہے، قبر میں جائیں یا کسی اور سیارے پر ہجرت کر جائیں؟ ہم محفوظ نہیں اور ہمیں غیر محفوظ بنانے والے کون ہیں؟ ہم کو خطرہ ہے لیکن کس سے؟ اس کا جواب ہے مرد۔ لیکن قصور پھر بھی ہمارا ہے، تنقید پھر بھی ہم پر ہوتی ہے، اور جان سے ہم عورتیں ہی جاتی ہیں۔ ایسے کیوں؟
یہ وہ خوفناک صورتحال ہے جس سے نکلنے کے لیے ہمیں اجتماعی شعور، انصاف اور برابری کی شدید ضرورت ہے۔ ورنہ ہم انسانیت کے اس ظلم میں گھِرc رہ جائیں گے جہاں عورت کبھی آزاد نہیں ہو سکتی، اور نہ ہی اپنی زندگی خود جینے کا حق پاسکتی ہے۔
ہم نے دیکھا کہ کیسے ایک لڑکی، جو محض اپنے خوابوں اور اپنی شناخت کے لیے زندگی گزارنا چاہتی تھی، اس کے حق میں کھڑا کوئی نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے قاتل کو جواز دیا جاتا ہے، اور اس کے عمل کو معمولی سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہماری عدالتیں، ہمارے قانون، اور بعض اوقات ہماری خود کی سوچ بھی عورت کو انصاف نہیں دے پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ عورت کو ہمیشہ "ان کی ملکیت” سمجھتا ہے، ان کے فیصلے، ان کے خواب، ان کی زندگی کو اپنی مرضی سے قابو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جب ایک مرد کو "نہیں” سننے کی عادت نہ ہو، جب وہ یہ برداشت نہ کر سکے کہ عورت خود اپنے فیصلے کرے، تو پھر ایسے معاشرے میں عورت کا زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں عورت کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کب اور کیسے بات کرے، کیا پہنے، کس کے ساتھ بات کرے، کہاں جائے، اور کیا سوچے۔ وہ عورت جو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے، اسے فوراً "بدکردار” یا "ناجائز” قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ وہ عورتیں جو اپنی کامیابی اور خوشی کا اظہار کرتی ہیں، انہیں حسد کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور کبھی کبھار ان کے خلاف نفرت انگیز مہم بھی چلائی جاتی ہے۔
یہ سب کچھ معاشرے کی گراوٹ کی نشاندہی کرتا ہے جہاں عورت کو صرف ایک جنس سمجھا جاتا ہے، انسان نہیں۔ جہاں مردوں کے "مردانگی” کے تصور نے عورت کو ایک غلام اور قابو پانے والی شے بنا دیا ہے۔ جہاں عورت کی زندگی اور اس کی خواہشات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
یہ بھی اہم ہے کہ یہ مسئلہ صرف معاشرتی یا ثقافتی نہیں بلکہ نفسیاتی اور قانونی بھی ہے۔ پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ میں خواتین کے خلاف آن لائن ہراسانی، بلیک میلنگ، اور ویڈیوز کے ذریعے بلیک میلنگ کی رپورٹس میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ کئی بار وہی مرد جو گھر میں بیوی کو ظلم کا نشانہ بناتے ہیں، وہی لوگ سماجی میڈیا پر بھی خواتین کی عزت مجروح کرتے ہیں۔ ایسے جرائم کی رپورٹنگ اور ان کی تحقیقات میں بھی کئی پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں، جن کے باعث قاتل اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ مذہب اور ثقافت کا غلط استعمال بہت سارے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ مذہب کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت اور عزت ہے، مگر یہاں مذہب کو "غیرت” اور "عزت” کے نام پر عورت پر ظلم کے لیے جواز بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔خواتین کو ہی الزام دیا جاتا ہے کہ وہ "بے احتیاطی” کی وجہ سے اس ظلم کی حقدار بن گئی ہیں۔ یہی رویہ نہ صرف ظلم کو جائز ٹھہراتا ہے بلکہ عورت کے خلاف نفرت کو بڑھاتا ہے۔
لہٰذا، آج کا سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی ایک ایسے معاشرے میں رہنا چاہتے ہیں جہاں عورت کو اپنی مرضی سے جینے کا حق نہ ہو؟ جہاں مرد اپنی انا کی تسکین کے لیے عورت کی جان لے بیٹھیں؟ جہاں ہم عورت کو اس کی آزادی، اس کی خوشی، اور اس کی زندگی کی قیمت نہ دے سکیں؟
ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا کہ عورت مرد کی ملکیت ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عورت بھی انسان ہے، اس کا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی خود بنائے۔ اس کے فیصلوں کا احترام کیا جائے۔ مرد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ "نہیں” کا مطلب "نہیں” ہے، اس کا کوئی متبادل نہیں۔ مرد کو اپنی انا، اپنی حسد، اور اپنی نفرت کو قابو میں رکھنا ہوگا۔
ہمیں قانون سازی کو مضبوط کرنا ہوگا، عورت کے حقوق کی حفاظت کرنی ہوگی، اور معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہم سب مل کر عورت کی عزت، اس کے خوابوں اور اس کی زندگی کو سنجیدگی سے لیں۔ عورت کے قتل، ظلم، اور تشدد پر احتجاج کریں، اس کے حق میں آواز بلند کریں، اور ایک ایسے معاشرے کے لیے کام کریں جہاں عورت بھی بلا خوف، بلا شرم اپنی زندگی جئے۔
ہماری دعائیں، ہماری احتجاجی آوازیں، اور ہمارا شعور ہی ثنا یوسفز، قندیل بلوچز اور زینبز کی قربانیوں کا حق ادا کر سکتا ہے۔ عورت کو جینے کا حق دینا ہمارا فرض ہے، ورنہ ہمارا سماج کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہر ایک کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی، ہر مرد کو عورت کے ساتھ برابر کے حقوق دینے ہوں گے، اور عورت کو بھی اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی آزادی دینی ہوگی۔
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ عورت کی عزت اس کی جان ہے، اس کی آزادی اس کا حق ہے، اور اس کی زندگی ہماری انسانیت کا آئینہ۔ جب تک یہ حق عورت کو مکمل طور پر نہ ملے، ہم اس گراوٹ سے باہر نہیں نکل سکتے۔