ایک چینی سفارتکار کا اس اعلان نے کہ چین گوادر کی ماہی گیری کی صنعت کو بڑھاۓ گا ، پاکستان کے ساحلی شہروں کے ماہی گیروں کو خوفزدہ کردیا ہے ، جو پہلے ہی کم شکار ہونے کی وجہ سے بدحالی سے گزر رہے ہیں۔
Muhammad Akbar Notezai, عتیقہ رحمان
بحیرہ عرب پر واقع شہر گوادر کے ماہی گیر پاکستانی فشریز سیکٹر میں چین کی بڑھتی دلچسپی سے خوفزدہ ہیں۔
“اگر اس کا مطلب ہے کہ ان کے ٹرالر ہمارے مچھلی کے ذخیرے ہڑپ کرجائیں گے تو ہمیں چینیوں سے کوئی سرمایہ کاری یا مدد نہیں چا ہیے۔” چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پی ای سی) کے وسط میں تجارتی مرکز کے طور پر ترقی پذیر ہونے والے اس ضلع کی کمیونٹی کے رہنما حاجی خدا داد واجو نے کہا۔
واجو کی طرح ، پاکستان کے 990 کلومیٹر ساحلی پٹی پر متعدد ماہی گیروں کو غیر منظم مقامی اور غیر ملکی ماہی گیری کے ٹرالروں جو “مچھلیوں کی نسل کشی کا سبب ہیں” کے تباہ کن اثرات نے بدحال کر دیا ہے ۔
2021 کی شام کو ، ایک اعلی چینی سفارتکار نے پاکستانی اخبار کو انٹرویو دیتے وقت یہ عندیہ دیا کہ چین ملک میں ماہی گیری کی مقامی صنعت کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتا ہے-
“جب آپ ماہی گیری کی بات کرتے ہیں تو آپ ( پاکستان) کے پاس زرخیز وسائل موجود ہیں… چینی سرمایہ کار پاکستان میں ماہی گیری کے شعبے میں سرمایہ کاری میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں” ، قونصل جنرل لی بیجیان نے کہا۔
انہوں نے گوادر میں ماہی گیروں کے لئے بڑی کشتیاں اور ماہی گیری کے جدید آلات کی بات کی اور کہا کہ پروسیسنگ فیکٹریاں بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ “سمندری غذا برآمد کرنے کے لئے مقامی ماہی گیروں کو اپنی ماہی گیری کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے ،” انہوں نے مزید کہا کہ مقامی افراد کو ماہی گیری کے لئے گہرے سمندر میں جانے کی ضرورت ہے کیونکہ سمندر کے کنارے “ماہی گیری منافع بخش نہیں”۔
مچھلیوں کے ذخائر پہلے ہی ختم ہونے کو ہیں
اس اعلامیے نے سندھ اور بلوچستان دونوں صوبوں میں ماہی گیروں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے ، جہاں مچھلی پکڑنے والوں کی کم زکم 700،000 کی آبادی والی کمیونٹی تیزی سے ختم ہوتے مچھلی کےوسائل کی وجہ سے زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔
2015 میں اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے پاکستان کے ماہی گیروں کے بارے میں ایک مطالعہ میں یہ انکشاف کیا کہ پاکستان کی سمندری فشریز میں ایک بھی وسائل مچھلی پکڑنے کے پائیدار طریقہ استعمال نہیں کررہے۔ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کے سمندری وسائل بےدریغ استعمال ہورہے ہیں اور “رواں ماحولیاتی تباہی” کے حصے کے طور پر کم ہوتے جارہے ہیں۔ اگرچہ لی نے ماحولیاتی نظام کے تحفظ کی بات کی تھی ، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ چین سمندری حیات اور بلوچستان میں مقامی ماہی گیروں کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کرے گا۔
چین کی بڑھتی ہوئی طلب
ملک میں سمندری غذا کی بڑھتی ہوئی طلب کے ساتھ ، چین میں ماہی گیری کی دنیا کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ برطانیہ کا اوورسیز ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ ( او ڈی آئی) کےمطابق چین کے گہرے پانی میں ماہی گیری کے بیڑے کا سائز 17،000 جہازوں پر مشتمل ہے ، جو کسی دوسرے ملک سے بہت زیادہ ہے۔
بین الاقوامی مطالعات نے چینی ٹرالروں کے تباہ کن ماہی گیری کے طریقوں کو متعدد ممالک میں مچھلی کے ذخیرے ختم ہوجانے کے ساتھ منسلک کیا ہے۔
اسٹاک ہوم یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق میں پیشن گوئی کی گئی ہے کہ 2030 تک ، چین کو متوقع گھریلو استعمال کو پورا کرنے کے لئے 18 ملین ٹن اضافی سمندری غذا کی ضرورت ہوگی اور یہ ضرورت وہ دور دراز پانیوں میں ماہی گیری کے آپریشنز کو بڑھا کر پورا کرے گا۔
احتجاج کا امکان ہے
پاکستانی ماہی گیر کئی دہائیوں سے گہری سمندری شکار پر احتجاج کرتے آۓ ہیں اور حالیہ برسوں میں ان کے مچھلی پکڑنے میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔
گوادر میں ، جہاں چین نے سی پیک منصوبوں کے ذریعے اربوں کی سرمایہ کاری کی ہے ، بندرگاہ جسے چین کے تجارتی عزائم کے راستہ بتایا جاتا ہے، کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے مقامی افراد پہلے ہی بے گھری سے دوچار ہیں-
“ہم ماہی گیری کے ان ٹرالروں کے مکمّل خلاف ہیں۔ وہ مچھلی کا سارا ذخیرہ ختم کردیں گے اور ہماری برادری کو تباہ کردیں گے،” فشرفوک فورم (پی ایف ایف) کے سعید بلوچ نے کہا- انہوں نے کہا، ” کراچی بندرگاہ پر پہلے ہی 12 چینی ٹرالرز موجود ہیں اور ہمیں آگاہ کیا گیا ہے کہ مستقبل میں 60 مزید ٹرالر ہوں گے۔ اگر انہیں مچھلی پکڑنے کی اجازت دی جاتی ہے تو ، بدترین صورتحال ہوگی ہے۔”
کراچی کے بندرگاہ پر چینی گہری سمندری ٹرالروں کی موجودگی کے بارے میں بلوچوں کے خدشات کا بہت سے ماہی گیروں نے اظہار کیا ہے۔ اکتوبر 2020 میں ان جہازوں کی آمد نے احتجاج کو جنم دیا کیونکہ مقامی ماہی گیروں کو خدشہ ہے کہ وفاقی حکومت خفیہ طور پر ان پانیوں میں چینی جہازوں کو مچھلی پکڑنے کی اجازت دے رہی ہے۔ چونکہ حکومت کی طرف ان ٹرالروں کو ماہی گیری کے لائسنس نہ دینے کا ایسا کوئی اعلانیہ نہیں آیا ، لہذا برادری کو بدترین صورتحال کا اندیشہ ہ
ماہی گیری کی قیمت کی پالیسی؟
پاکستان کی وفاقی حکومت نے 2018 میں ان امور کو منظم کرنے کے لئے گہری سمندری ماہی گیری کی پالیسی بنائی تھی ، لیکن اسے ماہی گیروں اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے لئے سمندری ماہی گیری کے مشیر معظم خان نے کہا کہ 2018 کی پالیسی ملک کے ایکسکلوزو اکنامک زون کے انتظامات کے لئے بنائی گئی تھی۔ “2018 کی پالیسی اسی مقصد کے لئے بنائی گئی تھی کہ ای ای زیڈ ماہی گیری کا انتظام کیا جائے لیکن ماہی گیروں نے سماجی و اقتصادی نتائج کی بنا پر اس کی مزاحمت کی ہے- ہم اپنی ماہی گیری میں ترمیم کرسکتے ہیں اور کرنا چاہیے لیکن اچانک یہ کرنا ہزاروں لوگوں کے لئے تباہ کن ہوگا۔ مثال کے طور پر ، تباہ کن گل نیٹ پریکٹس کو ختم کرنا ضروری ہے لیکن بغیر کسی متبادل کے ماہی گیر کیا کریں گے؟”
پاکستان کا 990 کلومیٹر طویل ساحل مشرق میں ہندوستانی سرحد سے لے کر مغرب میں ایرانی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کا ایکسکلوزیو اکنامک زون (ای ای زیڈ) تقریبا 240،000 مربع کلومیٹر ہے ، جس کا ایک اضافی براعظمی شیلف رقبہ قریب 50،000 مربع کلومیٹر ہے۔
جہاں تک چینیوں کے بڑے جہازوں کی آمد کا تعلق ہے ، خان نے کہا کہ اس کا نتیجہ “ماہی گیروں کا خاتمہ” ہوگا۔ “یہ جہاز مقامی ماہی گیروں کے ساتھ مقابلہ کریں گے اور ساحلی برادری یہ مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ” انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا-
“مقامی لوگوں کے لئے شاید ہی کوئی مچھلی بچی ہے ،ادھر ہمارے پانیوں میں چینیوں کو کس طرح اور کیوں مچھلی پکڑنے کی اجازت دی جا رہی ہے ،” خان نے پوچھا ، ساتھ مزید کہا کہ تقریبا 2،500 کے قریب ، پاکستان کے نجی ٹرالر بتائی گئی گنجائش سے پہلے ہی چار گنا زیادہ ہیں۔
پراسرار چینی ٹرالر
پی ایف ایف کے نمائندے بلوچ نے کہا کہ کراچی کی بندرگاہ پر چینی گہرے سمندری ٹرالروں کی موجودگی “وفاقی حکومت کی جانب سے ایک سازش ہے جو پہلے ہی پریشان ماہی گیر برادری کو مزید دیوار سے لگا دے گی۔” انہوں نے الزام لگایا کہ اس سے “واضح طور پر” اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وفاقی حکومت آنے والے دنوں میں چینی ٹرالروں کو لائسنس دینے جارہی ہے۔
“سمندری امور کے وزیر نے کہا ہے کہ وہ جیٹی پہ مذکورہ ٹرالروں کی آمد سے لاعلم تھے،” سعید نے کہا ” یہ کیسے ممکن ہے؟ وفاقی حکومت نے جان بوجھ کر انہیں [یہاں] آنے کی اجازت دی ہے تاکہ لائسنس دیے جاسکیں۔”
بلوچ نے کہا کہ اگر یہ غیر ملکی ٹرالر چلانے کی اجازت دیتے ہیں تو وہ سمندریحیات کا ختم کردیں گے اور سندھ سے ٹرالروں کی موجودگی پر سندھ اور بلوچستان کے مابین بڑھتے ہوئے تنازعہ میں اضافہ کریں گے۔
“ہم مکمل طور پر بلوچستان میں مقامی اور غیر ملکی ٹرالروں کے خلاف ہیں،” انہوں نے کہا مزید یہ کہ کراچی میں چینی جہازوں کی موجودگی کے خلاف سیکڑوں ماہی گیر سڑکوں پر نکل آئے۔
معظم خان نے کہا کہ چینی پاکستان کے پانیوں میں مچھلی کے خواہشمند ہیں کیونکہ وہ شکار بنا کسی ڈیوٹی کے اپنے ملک میں بیچ سکتے ہیں۔ اگر کوئی چینی جہاز یہاں مچھلی پکڑنے کے لئے آتا ہے تو ، درآمد شدہ مچھلی ڈیوٹی فری ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر چینی جہاز بندرگاہ پرموجود ہیں ، تو ان کا نام بحر ہند میں مچھلی پکڑنے اور انھیں ڈیوٹی فری فروخت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔”
تباہ کن ماہیگیری
ٹرالر بھاری وزن کےساتھ بڑے جال استعمال کرتے ہیں جو اپنے راستے میں ہر چیز کو اکٹھا کرنے کے لئے سمندری فرش پر گھسیٹے جاتے ہیں۔ اس مشق کو تحفظ پسند انتہائی نقصان دہ قرار دیتے ہیں-
ماہیگیر الیاس بنگالی ، جو مچھر کالونی کراچی کے رہائشی ہیں اور کئی سالوں سے سندھ اور بلوچستان کے گہرے سمندری پانی میں ماہی گیری کررہے ہیں ، نے دی تھرڈ پول کو بتایا ، ” یہ ٹرالر مچھلی پکڑنے کے لئے باریک بنے ہوئے جال رکھتے ہیں– چھوٹی اور بڑی اور انڈوں کے ساتھ یہ آبی حیات کا صفایا کررہے ہیں- مچھلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ، اب ہم اپنی چھوٹی کشتیوں میں مچھلی پکڑنے کیلئے بلوچستان جانے پر مجبور ہیں- ”
ایک پاکستانی ٹرالر بحیرہ عرب سے مچھلیاں پکڑ کر لا رہا ہے [تصویر بشکریہ ساجد نور بلوچ]
الیاس بنگالی نے بتایا کہ بہت سارے مقامی ٹرالر غیر قانونی طور پر مچھلیاں پکڑ رہے ہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ ان کی پریشانیوں میں پچھلے سال سندھ کے ساحلی علاقے میں چینی ٹرالروں کی آمد اضافہ ہوا ہے۔
گوادر میں ماہی گیروں کے ساتھ کافی وقت گزارنے والے ماہر بشریات حفیظ جمالی نے کہا ، “1990 کی دہائی سے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں گہری سمندری ٹرالنگ ہو رہی ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کے مناسب نظام کے بغیر ، ٹرالروں نے انڈس ڈیلٹا میں فشریز کے ذخیرے کو کافی حد تک ختم کردیا ہے۔ آج ، وہ مایوسی کے مارے وقتا فوقتا مکران کے ساحلی علاقے میں مچھلیاں پکڑتے ہیں ، کیونکہ سندھ میں ان کے پاس ذخائر بہت کم رہ گۓ ہیں۔ “
“جب ان کے جہاز چلتے ہیں تو ، جال سمندری سطح پر جھاڑو سی دیتے ہیں، اور اس عمل میں ہر جاندار کو جال میں لپیٹ لیتے ہیں ، چاہے اس کی ضرورت ہو یا نہیں۔ جب ٹرال نیٹ جہاز پر لایا جاتا ہے تو ، قیمتی تجارتی مچھلیاں نکال لی جاتی ہیں اور باقی – انڈے اور مردہ مچھلی – باہر پھینک دی جاتی ہیں۔”
جمالی نے کہا گہری پانی کی ٹرالنگ ماحولیاتی تباہی کا سبب بنتی ہے- اس سے حد سے زیادہ مچھلی کے شکار ہوتا ہے اور بیک وقت سمندری افزائش گاہ بھی تباہ ہوجاتے ہیں-
جبکہ ماہی گیری کا قانون ٹرالروں کو 12 سمندری میل کے فاصلے پر آپریٹ کرنے سے منع کرتا ہے- جمالی نے کہا ، “قیمتی تجارتی مچھلیوں کے لالچ میں انہیں قانون کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔”
ماہی گیروں کے بہتر حقوق کے حامی ، کے بی فراق نے کہا کہ بلوچستان کے پانیوں میں غیر قانونی ٹرالنگ ایک پرانا رجحان ہے۔ ” یہ پریکٹس کوئی 1970سے چل رہی ہے – حال ہی میں ، جب میں گوادر ضلع میں جییوانی گیا تو ، مجھے ساحل کے قریب ، پانی میں ٹرالر نظر آیا- وہ آرام سے کارروائی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مچھلیوں کی نسل کشی ہوتی ہے۔ ”
فراق کہتے ہیں حالانکہ بلوچستان میں یہ غیر قانونی ہے لیکن یہ ٹرالر اپنی کارروائی کا کوئی نہ کوئی انتظام کرلیتے ہیں کیونکہ ان کے آپریٹرز کا ” حکام کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے”-
وزیر اعلی بلوچستان کے مشیر ، محمد اکبر عسکانی نے اس مسئلے کی تصدیق کی۔
“میں نے گوادر ضلع کے ایک بندرگاہ قصبہ جیوانی میں محکمہ فشریز کے 12 عہدیداروں کو معطل کردیا ، جو غیر قانونی طور پر ٹرالروں کو مچھلی کی اجازت دینے میں ملوث تھے،” عسکانی نے دی تھرڈ پول کو بتایا-
“بعض اوقات ، خاص طور پر رات کے اندھیرے میں، یہ [زون 3 کے ٹرالر] ہمارے پانی [زون 1] میں گھس جاتے ہیں۔ ہم انہیں پکڑتے ہیں لیکن بعض اوقات ، ان کے حجم اور عملے کی تعداد کی وجہ سے وہ ہمارے لوگوں کو شدید زخمی کردیتے ہیں۔ ”
ماہی گیروں کے حقوق پر لکھنے والے کراچی میں مقیم ایکٹوسٹ عزیز سنگھور نے کہا: “کراچی میں بااثر اور دولت مند لوگ ان ٹرالرز کے مالک ہیں۔ سندھ کے پانیوں میں مچھلی کی کمی کی وجہ سے ، یہ ٹرالر گہری سمندری ماہی گیری کے لئے بلوچستان کے پانیوں میں جاتے ہیں۔ ”
انہوں نے کہا کہ ٹرولنگ کو روکنے کے بجائے ، ایسا لگتا ہے کہ اس کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ “اس سے نہ صرف ماہی گیروں اور ماحولیات بلکہ پاکستان میں مچھلی کی برآمد کو بھی سنگین نتائج کا سامنا ہوگا۔”
گھٹتی ہوئی ہوئی آمدنی
گوادر میں پسنی پورٹ جیٹی پر ، ماہی گیر نسیم بلوچ نے بتایا کہ ان کی برادری بمشکل گزارا کررہی ہے۔ انہوں نے کہا ، “ماضی میں جب ہم سمندر میں جاتے تو ہم میں سے ہر ایک 15،000 سے 20،000 روپے [ 93 سے 125 امریکی ڈالر] مچھلی کی فروخت سے حاصل کرتا تھا۔ آج ، یہ آمدنی کم ہو کر 5،000 سے 10،000روپے [ 30سے 62 امریکی ڈالر] رہ گئی ہے۔ کبھی کبھی ، یہ 4،000 روپے [ 25 امریکی ڈالر ] گھٹ جاتی ہے۔ ہم بڑی مشکل سے گزارہ کررہے ہیں- ”
یہ خطرہ نیا نہیں ہے۔ پندرہ سال پہلے ، ایکشن ایڈ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا ، “پاکستان کے ماہی گیر بھوکے سوتے ہیں کیونکہ ملک میں تجارت اور برآمدات میں ترقی کے نتیجے میں شکاری ٹرالر اس کا حصّہ بن رہے ہیں۔”
ماہی گیری کی ایک اور کشتی پسنی ساحل پر لاوارث کھڑی ہے- [تصویر بشکریہ ساجد نور بلوچ]
چین کی پاکستان کی ماہی گیری میں دلچسپی ہے
چین کے پاکستان کے ماہی گیری کے شعبے میں سرمایہ کاری کے منصوبوں کے حوالے سے ، ماہرین غیر متفق ہیں۔ ” وہ کس وسعت کی بات کر رہے ہیں؟ ہمیں اپنی ماہی گیری کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ، ” ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معظم خان نے کہا۔ “ہم یہ کرنے کے بعد ہی دوسروں کو مدعو کرسکتے ہیں-”
حتیٰ کہ جب آبی حیات کے ذخائر ازسرنو بھر جائیں، خان کو لگتا ہے کہ ماہی گیری چینیوں کے ذریعہ نہیں کی جانی چاہئے ، بلکہ مقامی لوگوں کو موقع دیا جانا چاہیے تاکہ انہیں غربت سے نکالا جاسکے-
“اسکویڈ کے علاوہ ، جسے نہ پاکستان پکڑتا ہے اور نہ ہی مارکیٹ کرتا ہے ، ان چینی جہازوں کی ہمارے پانیوں میں ماہی گیری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔” خان نے مزید کہا کہ ایک چینی جہاز پاکستانی سے 10 گنا زیادہ مچھلی پکڑ سکتا ہے۔
جب لی بیجیان کے پائیدار ماہی گیری، ماہی گیروں کی تربیت اور پروسیسنگ پلانٹوں کے ذکر کے بارے میں پوچھا گیا تو ، خان نے کہا: “یہ منہ زبانی لگتا ہے۔ کیا آپکو لگتا ہے ان ماہیگیروں کو تربیت کی ضرورت ہے؟ پراسیسنگ پلانٹ بنا خام مال کے کیسے چلیں گے؟ یہ پیشکشیں اپنے گہرے سمندری جہازوں کی اجازت حاصل کرنے کا ایک بہانہ ہیں۔”
آئی یو سی این کے مطابق ، پاکستان کی ماہی گیری صنعت کو کچھ اہم امور کو حل کرنے سے فائدہ ہوگا: پائیدار حد سے زیادہ مچھلی پکڑنا، تباہ کن جالوں کا استعمال ، کشتیوں اور ٹرالروں کی زیادہ تعداد، مینگروو کا انحطاط اور ساحلی ماہی گیری کےعلاقوں کی آلودگی-
مقامی افراد سے کوئی مشاورت نہیں
حاجی واجو نے کہا کہ ان کی برادری کو ترقی سے متعلق گفتگو سرے سے شامل ہی نہیں کیا گیا- “گوادر کے سب سے قدیم باشندے ہونے کے باوجود ، اس عمل میں ہمارے سے کوئی رائے نہیں لی گئی ہے۔ ان کے احتجاج کی وجہ سے ، انہوں نے کہا کہ انہیں چین سے امداد ملی ہے ، جس میں 15 بوٹ انجن اور سولر پینل شامل ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک یہ “سمندر میں ایک قطرہ کےبرابر ہے- ہمیں تربیت یافتہ ، تعلیم یافتہ اور ماہی گیری کے جدید آلات سے آراستہ ہونا چاہئے۔ میری برادری ان پڑھ ہے ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلے نہیں کر سکتے۔”
یہ مضمون اصل میں دی تھرڈ پول پر کریٸیٹو کامنز لاٸنسنس کے تحت شاٸع ہوا ہے۔