ڈاکٹر جزبیہ شیریں
یہ جو خواتین کے رسائل میں چھپنے والی کہانیاں ہیں نا، یہ ایک عجیب و غریب سلسلہ ہے جو دہائیوں سے ہمارے معاشرے کی سوچ کو نقصان پہنچا رہا ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ ابھی تک قائم و دائم ہے۔ میں تو کہوں گی کہ یہ کہانیاں نہ صرف وقت کا ضیاع ہیں بلکہ ایک طرح سے معاشرتی زہر بھی ہیں جو عورتوں کی حقیقی قابلیتوں، سوچ اور آزادی کو دبا کر انہیں محض ایک بے معنی خوابوں کی دنیا میں قید کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
یہ رسائل بنانے والے صاحبان کبھی سوچتے بھی ہیں کہ ان کی لکھی ہوئی ایک بھیانک جھوٹی دنیا کس طرح ہماری خواتین کی سوچ اور زندگیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے؟ یہ کہانیاں ہمیشہ ایک ہی دھاگے میں پروئی جاتی ہیں، ایک ہی طرح کی کہانی، ایک ہی طرح کے کردار، اور ایک ہی طرح کے مسائل جو حقیقت سے اتنے دور ہوتے ہیں جتنا زمین سے آسمان۔ ہیروئن کا نام ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے کوئی فارسی یا عربی لغت سے نکالا گیا ہو، اس کا مطلب بھی اتنا ہی پرانا اور بھاری ہوتا ہے جتنا اس کا کردار بےمعنی۔ اور ہیرو تو ایسا ہوتا ہے کہ بس نام کے سوا کوئی چیز سمجھ نہ آئے، لیکن کہانی میں اسے سنجیدہ یا خاموش دکھا کر جیسے پڑھنے والے کو جادو میں مبتلا کرنا مقصود ہو۔
یہاں کرداروں کی جھرمٹ مچانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ ماں کی محبت، چاچی کی سازشیں، سہیلی کی چاپلوسی، اور خاندان کے اندرونی جھگڑے ایسے ایسے نکالے جاتے ہیں کہ لگتا ہے ہمارے گھروں میں صرف یہی مسائل چلتے ہوں۔ لیکن یہ سب کچھ ایسا مصنوعی ہوتا ہے کہ پڑھتے پڑھتے بوریت اور جھنجھلاہٹ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔
یہ کہانیاں معاشرےمیں زہر پھیلاتی ہیں کیونکہ یہ خواتین کو ایک محدود ذہنیت کے قید خانے میں بند کر دیتی ہیں۔ ان میں دکھائے جانے والے کردار کبھی خودمختار یا ذہین نہیں ہوتے، بلکہ اکثر ہیروئن کو ‘منہ پھٹ’، ‘نخریلی’ مگر ‘سنجیدہ’ جیسی وہی چرب زبانی دی جاتی ہے جو حقیقی زندگی میں صرف تنگ نظری اور غیر ضروری لڑائی جھگڑے کو جنم دیتی ہے۔ اس کے برعکس، ہیرو اکثر خاموش، سنجیدہ، یا سنجیدہ دکھا کر ایک ایسا مثالی نقشہ پیش کیا جاتا ہے جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ اس ڈرامے میں جب دونوں کی ملاقات ہوتی ہے تو بس بس یہی ہوتا ہے کہ جتنا زیادہ پیچ و خم اور ڈرامہ ہو گا، اتنی ہی کہانی ‘مزیدار’ سمجھی جاتی ہے۔
یہ رسائل ، اصل میں معاشرے میں عورتوں کی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ کہانیاں عورتوں کو اپنی ذات کی پہچان سے دور کر کے صرف ایک محبت، رنج، غم، اور خاندان کے جھگڑوں کے گرد گھومتی ہوئی مخلوق بنا دیتی ہیں، جس کا کوئی اپنا مقصد یا خواب نہیں ہوتا۔ ان رسائل کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انہیں اکثر کمزور ذہنی صلاحیتوں والی خواتین کی بڑی تعداد پسند کرتی ہے اور وہ ان کہانیوں کو حقیقت کا آئینہ سمجھ بیٹھتی ہیں۔ اور انہیں لکھنے، بیچنے اور چھاپنے والے پیسہ کماتے رہتے ہیں۔
یہاں تاریخ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں خواتین کی رسائل کی روایت کب سے چل رہی ہے اور کیسے یہ ایک کاروبار بن گئی ہے جو صرف منافع کمانے کے لیے خواتین کو دھوکہ دیتا ہے۔ جب پہلی بار خواتین کے رسائل نے مارکیٹ میں جگہ بنائی، تو شاید ان کا مقصد تھا خواتین کی تعلیم، آگہی، اور خود مختاری کو فروغ دینا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ رسائل صرف رومانوی کہانیوں اور بے معنی ڈراموں میں الجھتے گئے، جس سے خواتین کے لئے مفید معلومات اور تعلیم کی جگہ غیرواضح اور فضول باتیں آ گئیں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ ان کہانیوں کے پیچھے چھپے ہوئے مصنفین اور ادارے کس قدر ذمہ دار ہیں؟ کیا انہیں احساس ہے کہ وہ ایک پورے معاشرے کی سوچ کو بگاڑ رہے ہیں؟ ان کے ہاں تو شاید صرف منافع ہی سب کچھ ہے، چاہے اس منافع کے بدلے معاشرتی زہر ہی کیوں نہ بیچنا پڑے۔ ایک طرف تو وہ خواتین کی خودمختاری کے نعرے لگاتے ہیں، مگر دوسری طرف ان کے رسائل میں عورتوں کو ایک محدود اور پیچھے رہ جانے والی مخلوق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو صرف محبت کے غم میں مبتلا رہتی ہے۔ ان فضول کہانیوں اور رسالوں کے پیچھے لڑکیاں اپنا قیمتی وقت ضائع کرتی رہتی ہیں، جبکہ آج کے دور میں وقت کی قدر سب سے زیادہ ہے۔ وقت ایسا خزانہ ہے جو واپس نہیں آتا، اسے ضائع کرنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں اور ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر ہماری خواتین ایسی کہانیوں کی جگہ حقائق، کامیابی کی داستانیں، حقیقی مسائل اور حل پڑھیں، تو معاشرہ کتنا بہتر ہو سکتا ہے۔ مگر یہ رسائل اور ناول نگار خواتین و حضرات ایسا کرنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے، کیونکہ حقیقت میں وہ عورتوں کو ایک کھلونا سمجھتے ہیں جنہیں وہ اپنی مرضی سے مروڑ سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے گھروں میں عورتوں کی تعلیم و ترقی کے حوالے سے غلط فہمیاں، شرم و حیا کے غیر ضروری بھوت، اور ذاتی آزادی پر پابندیاں عام ہیں۔ ان کہانیوں کی وجہ سے خواتین کے ذہنوں میں ایک غلط تصور بس گیا ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف محبت، شادی، اور گھر کے جھگڑوں کے گرد گھومنا ہے، نہ کہ اپنے خوابوں کی تکمیل۔
لہٰذا، یہ ناول نگار، رسالہ ساز، اور کہانی نویس حضرات جو اپنی بیزار کن کہانیاں عورتوں کو تھماتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ایک بار اپنی قلم کے ذریعے معاشرے کی خدمت کریں نہ کہ اس کی بربادی۔ خواتین کی عزت، ان کے خواب، ان کی خودمختاری کو سمجھیں اور ان کی ترقی کے لئے کچھ نیا اور مفید لکھیں، نہ کہ وہی پرانے ڈھونگ، جو صرف معاشرے میں زہر بکھیرتے ہیں۔
آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گی کہ خواتین کو چاہیے کہ وہ خود بھی اپنے وقت کی قدر کریں، اور ایسی فضول کہانیوں سے دور رہیں جو انہیں محدود اور پریشان کرنے کے سوا کچھ نہیں دیتیں۔ اپنی تعلیم، اپنی ترقی، اور اپنی خودی کو پہچانیں، کیونکہ یہی ہمارے معاشرے کی حقیقی ترقی کا راستہ ہے، نہ کہ ان رسائل کی دھوکہ باز کہانیاں جو صرف وقت اور توانائی کا ضیاع ہیں۔