مشتاق یوسف
ہر سال 23 اپریل کتاب کے عالمی دن کے طور پہ منایا جاتا ہے۔ جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور انسان کو کتابوں کی ہارڈ فارم سے کتابوں کی سافٹ فارم کی دنیا میں منتقل کردیا ہے اور کتابوں کا مطالعہ معدوم ہو کر رہ گیا ہے۔ اسکا مورد الزام ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کو ہر گز نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ ہم انسانوں نے ہی ان ڈیوائسیز کو اتنا استعمال کرنا شروع کر دیا ہیکہ شائد یہ بھی اب ہم انسانوں سے پناہ مانگتی ہوں گی۔ میرا یہ ماننا ہیکہ قحط صرف خوراک کا نہیں بلکہ مطالعہ کا بھی ہوتا ہے۔ آج ہماری نوجوان نسل جہاں سوشل میڈیا پہ گھنٹوں کے حساب سے وقت برباد کررہی ہے وہاں وہ کتب بینی سے کوسوں دور ہیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی کوئی مضائقہ نہیں لیکن ہماری ترجیحات ہی ہماری شخصیت بناتی ہیں۔ تصویریں دیکھنے والوں اور تحریریں دیکھنے والوں کی شخصیت میں سوشل میڈیا بھی فرق پیدا کر دیتا ہے۔ مطالعہ کرنا اک طرح کی دماغی ورزش ہے۔ جتنا مطالعہ زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی دماغ کی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور ذہانت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ کتاب پڑھنے سے سوچنے اور سمجھنے کے بند دروازے کھلتے ہیں۔ نئی راہوں اور راستوں کی نشاندھی ہوتی ہے اور علم کی روشنی میں راہیں دیکھائی دینے لگتی ہیں۔ اور ان ہی راہوں میں سے اچھے راستے کا انتخاب کر کے انسان مفکر، محقق، مصنف، استاد اور رہنما بن کر انسانیت کی خدمت کرسکتا ہے۔ کتب بینی انسان کے اندر مثبت سوچ کو فروغ دیتی ہے اور سوچ اور فکر کو پختہ کرتی ہے۔ میری آج کے نوجوان سے درخواست ہیکہ اگر آپ روزانہ ایک کتاب نہیں پڑھ سکتے کم از کم ایک صفحہ تو پڑھ سکتے ہیں۔ آپ نے مشہور قول تو سنا ہوگا
"Readers are the leaders” کہ پڑھنے والا ہی لیڈر بنتا ہے۔ کتب بینی اور مطالعہ کی عادت بنائیں۔
کتابوں کی مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی