Skip to content

بائیوڈائیورسٹی (حیاتیاتی تنوع): موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی زد میں

شیئر

شیئر

خالد شاہ جی


یہ دنیا میں رہنے والے تمام جانداروں کی بقا کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے

حیاتیاتی تنوع یا بائیوڈائیورسٹی زمین پر موجود تمام جانداروں کے لیے نہایت اہم ہے، کیونکہ یہ ایکو سسٹم کو متوازن رکھتی ہے اور مختلف انواع کی بقا کو یقینی بناتی ہے۔ تاہم، موسمیاتی تبدیلی کے باعث بائیوڈائیورسٹی کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں، جو افغانستان کی سرحد سے متصل ہے۔ یہ خطہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کی زد میں ہے، جس کی وجہ سے یہاں کی جنگلی حیات اور قدرتی ماحول متاثر ہو رہا ہے۔

ماہر حیاتیاتی تنوع وقاص احمد نے بائیوڈائیورسٹی کے چیلنجز اور ان کے حل پر روشنی ڈالتے ہوئے فروزاں کے نمائندے سے خصوصی گفتگو کی۔ ان کے مطابق بائیوڈائیورسٹی کا مطلب مختلف انواع کا اس سیارے پر موجود ہونا ہے، اور اس میں ہر جاندار، چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اگر کوئی ایک نوع ناپید ہو جائے تو اس کے اثرات پورے ایکو سسٹم پر مرتب ہوتے ہیں۔

بائیوڈائیورسٹی کو درپیش خطرات

وقاص احمد کے مطابق باجوڑ سمیت دنیا بھر میں بائیوڈائیورسٹی کو نقصان پہنچانے والے چند بڑے عوامل درج ذیل ہیں:

 جنگلات کی بے دریغ کٹائی

خیبر پختونخوا، خاص طور پر باجوڑ میں، جنگلات کی تیزی سے کٹائی جاری ہے، جس کی وجہ سے علاقے میں بنجر زمین بڑھ رہی ہے۔ درختوں کی کمی جنگلی حیات کے لیے نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ ان کے مسکن کو تباہ کر رہی ہے۔

آبادی میں تیزی سے اضافہ

باجوڑ سمیت پورے پاکستان میں آبادی میں اضافہ بائیوڈائیورسٹی کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ زیادہ آبادی جنگلات کی کٹائی، غیر قانونی شکار، اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کا سبب بنتی ہے، جو ماحولیاتی توازن کو بگاڑ رہے ہیں۔

 درجہ حرارت میں اضافہ

موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں باجوڑ میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گرمی کے دورانیے میں اضافہ جبکہ سردی کے موسم کا دورانیہ کم ہونے سے کئی جاندار ناپید ہو رہے ہیں، جو ایکو سسٹم کے لیے خطرناک ہے۔

ماحولیاتی آلودگی

فضائی، آبی، اور صنعتی آلودگی بائیوڈائیورسٹی کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کی آلودگی کے سبب ڈولفن مچھلی اور دیگر آبی حیات کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اسی طرح، باجوڑ میں ماربل فیکٹریوں سے خارج ہونے والی صنعتی آلودگی ایک بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔

بائیوڈائیورسٹی کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات

وقاص احمد کے مطابق حیاتیاتی تنوع کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت، غیر سرکاری تنظیموں، اور عام شہریوں کو مل کر درج ذیل اقدامات اٹھانے ہوں گے:

آبادی پر کنٹرول

آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے، اور اس حوالے سے ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

 بے ترتیب تعمیرات پر پابندی

زرعی زمینوں پر بے ہنگم تعمیرات کو روکا جائے اور قلعہ نما گھروں کے بجائے فلیٹ سسٹم کو فروغ دیا جائے۔ حکومت اور نجی شعبے کو منصوبہ بندی کے ساتھ رہائشی ترقی پر کام کرنا ہوگا۔

جنگلات کے رقبے میں اضافہ

جنگلات کی کٹائی پر سختی سے قابو پانے کے لیے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ نئے جنگلات لگانے کے لیے قبائلی روایات جیسے کہ “ناغہ” کا نفاذ کیا جانا چاہیے۔

 ماحولیاتی آلودگی پر قابو

دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی لگائی جائے اور الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دیا جائے۔ صنعتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے کارخانوں کو اپنے فضلے کے مناسب انتظامات کا پابند بنایا جائے۔

بائیوڈائیورسٹی کی بقا کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اپنی ماحولیاتی ذمہ داریوں کو نہ سمجھا تو آنے والی نسلوں کو شدید ماحولیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت، ماحولیاتی تنظیموں، اور عام شہریوں کو مل کر اس مسئلے کے حل کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ہمارا قدرتی ایکو سسٹم محفوظ رہ سکے

یہ آرٹیکل فروزن پر شائع ہوا ہے اور یہاں پر فروزن کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں