Skip to content

مانسہرہ میں جاری تین روزہ شیواتری کا تہوار اختتام پذیر ہوگیا

شیئر

شیئر

مانسہرہ میں جاری تین روزہ شیواتری کا تہوار اختتام پذیر ہوگیا ۔ تہوار میں صوبہ خیبر پختونخواہ ، پنجاب ،سندھ ، بلوچستان، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سے بڑی تعداد میں ہندو مذہب کے پیرو کار مردو خواتین اور بچوں نے شرکت کی ۔ واضح رہے کہ ضلع مانسہرہ میں چٹی گٹی کے مقام پر ہزارہ ڈویژن میں ہندو برادری کی یہ آخری عبادت گاہ ہے ۔ جہاں ہر سال باقاعدگی کیساتھ شیواتری کا تہوار منایا جاتا ہے ۔ جبکہ ہزارہ ڈویژن میں ہندو اقلیت کی تعداد چند گھرانوں تک محدود ہے ، کیوں کہ تقسیم کے وقت اس علاقے سے ہندو اور سکھ مذہب کے پیروکار وں کی غالب اکثریت ہجرت کرکے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے ۔ اور بعدازاں مہاجرت کا دکھ جھیلنے والوں کی نئی نسل بتدریج اپنی آبائی سرزمین سے دور ہوتی گئی ۔
شیواتری کا تہوار کیاہے ؟
ہرسال فروری کے اواخر یا مارچ کے اوائل میں یہ تہوار منایا جاتا ہے ، جس میں شیو دیوتا اور پاروتی ماتا کی شادی کی یاد میں رسومات ادا کی جاتی ہیں ۔ جن میں دور و نزدیک سے آنے والے مرد وخواتین یاتری حصہ لیتے ہیں ، ترقی وخوشحالی کیلئے دعا مانگتے ہیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں ۔
مندر کے معاملات کو دیکھنے والے شیو ٹیمپل سوسائٹی کے صدر درشن لال کے مطابق اس مندر کی تاریخ کم و بیش تین ہزار سال پرانی ہے ۔ تاہم تقسیم کے بعد کچھ سال کیلئے یہ مندر بند رہا ،جسے مقامی عمائدین کی مدد سے دوبارہ بحال کیا گیا اور اس وقت یہ پاکستان کے ان چند بڑے مندروں میں شامل ہے جہاں ہر سال باقاعدگی کیساتھ عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ جس میں ملک کے کونے کونے سے شیوجی کے ماننے والے عقیدتمند شرکت کرتے ہیں ۔


تہوار میں کیا رسومات ادا کی جاتی ہیں ؟
پشاور سے آنے والی عقیدت مند نگہت غنی ایڈووکیٹ کے مطابق یہ تہوارشیوجی اور پاروتی ماتا کی شادی کی یاد میں ہر سال منایا جاتا ہے ۔ جس خوشی بیاہ کی وہ تمام رسومات ادا کی جاتی ہیں جو اب بھی برصغیر کے معاشرے کا حصہ ہیں ۔ جس میں ملک کے مختلف حصوں سے آئی سنگتیں گھڑا گھڑولی ، مہندی جیسی رسومات ادا کرتی ہیں اور اس موقع پر مذہبی گیت گائے جاتے ہیں ۔چیئرمین شام لال کی چیئرمین شپ میں گذشتہ 35 سال سے مندر کی دیکھ بھال کا فریضہ سر انجام دینے والی تنظیم
شیو ٹیمپل سوسائٹی کے نگران درشن لال کے مطابق امن و امان کی بہتر صورتحال اور انتظامیہ کے تعاون کی وجہ سے ہر سال زائرین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے ۔ اگرچہ حکومت اقلیتوں کو ان کے تمام جائز حقوق فراہم کررہی ہے تاہم ابھی بھی زائرین کی بڑھتی تعداد پیش نظر ہمیں نئی تعمیرات کی ضرورت ہے ،جس کی اجازت نہیں مل رہی ، یہی وجہ ہے کہ ابھی دور دراز سے آنے والے یاتریوں کیلئے کھانے پینے اور رہائش کیلئے ملحقہ پولٹری فارمز میں عارضی انتظامات کئے جاتے ہیں ۔انہوں نے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور اسفند یار بھنڈارا کا بھی خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جنہوں نے میلے میں شرکت کی اور اقلیتی برادری کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے مسائل کے حل کی یقینی دہانی کروائی ۔


بٹگرام سے تعلق رکھنے والے اوم پرکاش ملہوترا نے کہا ہم حکومت کے شکرگزار ہیں جس نے ہندو اقلیت کی مذہبی آزادی اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنا نے کیلئے خصوصی اقدامات کئے اور بہت کم تعداد میں ہونے کے باوجود ہمیں کبھی کسی امتیاز یا رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا
ہمیں خوشی ہے کہ ہم اپنے عقیدے کے مطابق اپنی عبادات مکمل آزادی اور اطمینان کے ساتھ کرپاتے ہیں اور بالخصوص ہزارہ کے عوام انتہائی کھلے دل اور ذہبن کے حامل ہیں جو دوسرے عقائد اور مذہب کو بھی کشادہ دلی سے قبول کرتے آرہے ہیں ۔


انتظامات اور امن و امان کا جائزہ لینے کیلئے آنے والی اسسٹنٹ کمشنر منیبہ فاطمہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام اقلیتیں ہمارے لئے قابل عزت ہیں ۔ جن کے آرام و سکون اور ان کی مذہبی عبادات کی ادائیگی میں تعاون کرناہمارا فرض ہے ۔ اس لئے شیواتری کے تہوار میں شرکت کرنیوالے یاتریوں کی حفاظت اور آرام و سکون کیلئے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں ۔ اور اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ اور تمام ادارے آپس میں قریبی رابطہ رکھے ہوئے ہیں ۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں