عمرخان جوزوی
ہمارے بزرگ کہاکرتے تھے کہ کورٹ،کچہریوں،تھانوں اورہسپتالوں سے اللہ دشمن کوبھی بچائے۔کورٹ،کچہریوں،تھانوں اورہسپتالوں میں اب جوکچھ ہوتاہے ایسااگربزرگوں کے دوراور وقت میں ہوتاتویقین مانیں ہمارے وہ بزرگ دن میں ایک نہیں ہزارباران کورٹ،کچہریوں،تھانوں اورہسپتالوں سے پناہ مانگتے۔کورٹ،کچہریوں اورتھانوں کوچھوڑیں ہسپتالوں کے نام پربننے والے صرف ان قصاب خانوں میں اب جوکچھ ہورہاہے واللہ ان ہسپتالوں کے حالات دیکھ کردل پھٹنے لگتاہے۔مویشیوں کے باڑے میں باندھنے والے جانوروں کے ساتھ بھی ایساسلوک نہیں ہوتاجوسلوک اورظلم ان ہسپتالوں میں اپنے زخموں پرمرہم رکھنے کے لئے آنے والے غریبوں کے ساتھ ہوتاہے۔اپنے کزن بہرام خان کے شیرخواربچے کی بیماری کے باعث بہت سے ہسپتالوں،ڈاکٹروں اورنرسزسے واسطہ پڑا۔ایبٹ آبادسے پشاورتک اس بھاگ دوڑمیں جہاں یہ یقین ہوگیاکہ ڈاکٹراورنرسزکی اکثریت کے سینے میں دل نہیں ہوتاوہیں یہ بھی معلوم ہواکہ ہسپتال بٹگرام کے ہوں،ایبٹ آبادکے یاپھرپشاورکے یہ سب تقریباایک جیسے ہوتے ہیں۔ان ہسپتالوں میں غریب،مجبوراورلاچارانسانوں کے ساتھ جوکچھ ہوتاہے وہ بیان سے باہرہے۔موسم سرماکی سردراتوں میں جب یخ بستہ ہواؤں سے بچنے کے لئے جانوربھی باہرپناہ تلاش کئے پھرتے ہیں اس حال میں جب ان ہسپتالوں کے دلانوں اوربیابانوں میں وارڈز سے نکالے گئے غریبوں اورمجبوروں کوسردی سے کانپتے اورٹھٹھرتے ہوئے انسان دیکھتاہے توروح بھی کانپ اٹھتی ہے۔جن ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈپرتین تین اورچارچارمریض لٹائے جاتے ہوں ان ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین کے لئے کیاانتظام ہوگا۔؟یہ سب کواچھی طرح پتہ ہے۔غریب لوگ اپنااوراپنوں کاعلاج کرانے کے لئے اپنی مرغیاں،گائے،بکری اوربھینس کیا۔؟گھرکی ایک ایک چیزتک بیج دیتے ہیں لیکن ان ہسپتالوں میں پھربھی ان غریبوں کے ساتھ جوکچھ ہوتاہے اس سے شیطان بھی پناہ مانگتاہے۔پیسے ہرکسی کواچھے لگتے ہیں پرہسپتالوں کے نام پرقصاب خانے کھولنے والے ان نام نہادخدائی خدمتگاروں اورمسیحاؤں کی پیسوں سے محبت لیلیٰ ومجنون اورہیررانجھاکی محبت سے بھی بڑھ کرہے۔یہ مخلوق پیسے سے صرف محبت نہیں بلکہ محبت کی بھی انتہاء کرتے ہیں۔ہسپتال اوربیڈزپرپڑ ے مریضوں سے اس مخلوق کاکوئی لینادینانہیں ہوتا۔ہسپتال کے بیڈپرایڑھیاں رگڑنے والامریض مرتاہویاجیتتاہواس سے اس مخلوق کاکیاکام۔؟ان کاکام اورمقصدفقط پیسے تک ہے۔یہ وہی کام کرتے ہیں جس سے پیسہ ملنے کایقین ہو۔ماناکہ ڈاکٹرمسیحاہوتے ہیں اوربہت سے ڈاکٹرسچ اورحقیقت میں غریبوں اورمجبوروں کے زخموں پرمرہم رکھتے ہیں لیکن اس مقدس پیشے سے وابستہ مسیحاؤں کی اکثریت زخموں پرمرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کرنے والوں کی ہے۔اکثرڈاکٹرپیسوں کے بغیرمریضوں کوہاتھ تک نہیں لگاتے۔جس کے پاس فیس کے پیسے نہ ہوں اس کاڈاکٹرسے چیک اپ کاتوسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔بغیرفیس اورپیسوں کے توڈاکٹرکسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے۔اس ملک میں سرکاری ہسپتالوں اورڈاکٹروں کاحال بہت براہے۔ان ہسپتالوں میں ایک ہی رات گزارنے کے بعدبندے کوخدایادآجاتاہے۔یہاں مریض کے لواحقین دن اوررات کوجس کرب وتکلیف سے گزارتے ہیں وہ صرف ان ہسپتالوں میں شب وروزگزارنے والے غریب اوران کاخداہی جانتاہے۔عالمی سٹینڈرڈکے پرائیوٹ ہسپتالوں سے علاج کرانے والے حکمران اورسیاستدان کیاجانیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں غریبوں پرکیاگزررہی ہوتی ہے۔؟سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین جس طرح ذلیل اورخوارہوتے ہیں وہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔سنگ مرمرسے بنے محلات میں خراٹے مارنے والوں کوایک لمحے کے لئے سوچناچاہئیے کہ سخت سردی میں آدھی رات کووارڈسے بیدخل ہونے والے مریضوں کے لواحقین پرکھلے آسمان تلے کیاگزرتی ہوگی۔؟ہم نے ایبٹ آبادسے پشاورتک مریضوں کے ساتھ ہسپتال آنے والے رشتہ داروں اورقرابت داروں کویخ بستہ ہواؤں اور راتوں میں کھلے آسمان تلے سردی سے کانپتے اورٹھٹھرتے ہوئے دیکھاہے۔ان ہسپتالوں میں غریبوں کے لئے دھکے اورٹھوکریں کھانے کے سواکوئی انتظام نہیں۔اللہ کسی کوغریب پیدانہ کرے۔کوئی غریب پیداہوتوپھررب اسے ہربیماری سے بچائے۔ہسپتالوں میں غریبوں کے ساتھ صرف برانہیں بلکہ بہت براہوتاہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ یہاں کے ہسپتال امریکہ اوربرطانیہ جیسے ہوں حکمران اس ملک کے غریب عوام کے لئے بے شک عالمی سٹینڈرڈکے ہسپتال نہ بنائیں لیکن ان ہسپتالوں کوکم ازکم اس قابل تو بنائیں کہ یہاں آنے والے غریب ارمانوں اورمایوسیوں کی بوریاں سروں پراٹھائے ان ہسپتالوں سے نہ نکلیں۔جومریض آخری ہچکیاں لے رہاہواوراس کاخونی رشتہ داربھائی،بہن،ماں اورباپ کسی ڈاکٹر،نرس اورگارڈسے باہردھکے کھارہاہوتوخودسوچیں اس مریض کے مرنے کے بعدان رشتہ داروں اورقرابت داروں کے دلوں پرکیاگزررہی ہوگی۔؟حکمران ان ہسپتالوں کوعالمی سٹینڈرڈکے مطابق سہولیات دیں یانہ دیں لیکن کم ازکم ان ہسپتالوں میں ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹرز،نرسزاوردیگرسٹاف کواخلاقیات اورانسانیت کاسبق ضرورپڑھائیں اورسکھائیں،جن لوگوں کواخلاقیات اورانسانیت کاہی نہیں پتہ وہ لوگ انسانیت کی کیاخدمت کریں گے یاانسانیت کوکیسے بچائیں گے۔ ڈاکٹرزاورنرسزسرکاری ہسپتالوں میں ایسے کام کرتے ہیں جیسے یہ نوکری نہیں بلکہ اس ملک اورقوم پرکوئی بہت بڑااحسان کررہے ہوں۔پرائیوٹ کلینک اورہسپتالوں میں یہی ڈاکٹرصبح سے رات تک بیٹھے رہتے ہیں لیکن سرکاری ہسپتالوں میں دوتین مریض دیکھنے اورتین چارگھنٹے گزارنے کے بعدان کوموت آنے لگتی ہے۔ ڈاکٹرز،نرسزاوردیگرملازمین اگرپرائیوٹ کلینکس اورہسپتالوں میں جی جی کرسکتے ہیں توپھرسرکاری ہسپتالوں میں کیوں نہیں۔؟پیسہ ہی سب کچھ نہیں انسانیت بھی آخرکوئی شے ہے۔مال بٹورنااورجاگیریں بنانابعدمیں ہے پہلے انسانیت بچاناہے۔انسانیت تب بچے گی جب پیسے پرایمان لانے والی یہ مخلوق انسان بنے گی نہیں تویہ انسان اس مخلوق کے ہاتھوں اسی طرح لٹتے،رلتے اورتڑپتے رہیں گے۔