Skip to content

مصنوعی ذہانت کی دوڑ: چین بمقابلہ امریکہ  

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں


یہ چند دن پہلے کی بات ہے جب میں نے ایک خبر پڑھی کہ چینی نئے سال کے دوران بیجنگ میں ایک بڑا تکنیکی اعلان ہوا۔ اس خبر نے مجھے حیران کر دیا کیونکہ اس کا تعلق مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا سے تھا۔ چین نے اپنے جدید اے آئی ماڈل ڈیپ سیک کے بارے میں ایک بڑا انکشاف کیا، جس کے فوراً بعد عالمی سطح پر بحث چھڑ گئی کہ کیا یہ ماڈل امریکہ کے چیٹ جی پی ٹی کا مقابلہ کر سکتا ہے یا اس سے بھی آگے جا سکتا ہے۔ اسی لمحے میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں ان دونوں ماڈلز کا تفصیلی موازنہ کروں اور دیکھوں کہ مستقبل میں اے آئی کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہوگی۔

اگر ہم اے آئی کی دوڑ پر نظر ڈالیں تو امریکہ اور چین دو بڑی طاقتیں ہیں جو اس میدان میں مسلسل ترقی کر رہی ہیں۔ امریکہ نے اوپن اے آئی کے ذریعے چیٹ جی پی ٹی کو دنیا کے سامنے پیش کیا، جو کہ ایک انقلابی زبان ماڈل ثابت ہوا۔ دوسری طرف، چین نے ڈیپ سیک متعارف کرایا، جو اپنے منفرد الگورتھمز اور کم لاگت کی وجہ سے ایک طاقتور چیلنج بن کر ابھرا۔ ان دونوں ماڈلز کا تقابلی جائزہ لینے سے ہمیں اندازہ ہوگا کہ ٹیکنالوجی کی جنگ میں کون سبقت لے جا رہا ہے۔

چیٹ جی پی ٹی کی بات کی جائے تو اس کی سب سے بڑی خوبی اس کی وسیع زبان فہمی، عمومی علم اور گفتگو کا فطری انداز ہے۔ یہ ماڈل مختلف زبانوں میں مہارت رکھتا ہے اور اسے ہر عمر اور طبقے کے لوگ استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کی خامیوں میں سب سے نمایاں اس کا زیادہ مہنگا ہونا اور اس کی محدودیت ہے، جو بعض مخصوص تکنیکی سوالات کے جوابات دینے میں مشکل پیش کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس، ڈیپ سیک بنیادی طور پر چینی زبان اور ثقافت کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے اور اسے خاص طور پر چینی مارکیٹ کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، لیکن اس کی صلاحیتیں صرف چین تک محدود نہیں ہیں۔

چین کی اے آئی صنعت نے گزشتہ دہائی میں بے حد ترقی کی ہے، اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے اے آئی کے شعبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ چین کا ہدف 2030 تک اے آئی میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننا ہے، اور ڈیپ سیک اس مقصد کی طرف ایک بڑا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیپ سیک کی لاگت چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں کافی کم ہے، کیونکہ چین میں تکنیکی ترقی کے باوجود مزدوری اور پروڈکشن کی لاگت کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اپنے اے آئی ماڈلز کو زیادہ سستے داموں میں عوام تک پہنچا سکتا ہے، جو کہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے۔

مارکیٹ کے حوالے سے بات کریں تو جب چیٹ جی پی ٹی نے دنیا میں قدم رکھا، تو اے آئی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں زبردست اضافہ ہوا، لیکن جیسے ہی ڈیپ سیک نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، عالمی مارکیٹ میں امریکہ کے اے آئی اسٹاکس کو زبردست دھچکا لگا۔ یہی وجہ ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار کہا تھا، "چین ہمیں ہر میدان میں پیچھے چھوڑ رہا ہے، اور ہمیں اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔” ٹرمپ کی یہ بات اے آئی کے میدان میں بھی بالکل درست ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اے آئی صنعت نے امریکہ کو کئی مواقع پر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

  یہاں ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ڈیپ سیک کی بنیادی حکمت عملی چین کی اندرونی مارکیٹ پر مبنی ہے، جبکہ چیٹ جی پی ٹی کو عالمی سطح پر پھیلایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کو زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن ڈیپ سیک مستقبل میں چینی مارکیٹ پر اپنی مضبوط گرفت کی وجہ سے ایک بڑا عالمی کھلاڑی بن سکتا ہے۔ چین نے حالیہ برسوں میں اے آئی کے کئی سنگ میل عبور کیے ہیں، اور ڈیپ سیک ان کی ایک تازہ مثال ہے۔  

چینی ماڈل ڈیپ سیک اور اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ایک واضح فرق ان کی لاگت میں نظر آتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی جو کہ اوپن اے آئی کا جدید ترین زبان ماڈل ہے، اپنی وسعت، قدرتی مکالمے اور تخلیقی تحریر کی مہارت کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہے، لیکن اس کے استعمال پر بھاری لاگت آتی ہے۔ جی پی ٹی فور ٹربو، جو کہ اوپن اے آئی کا تازہ ترین ماڈل ہے، کا استعمال کافی مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، ڈیپ سیک بنیادی طور پر چینی مارکیٹ کے لیے تیار کیا گیا ہے، لیکن اس کی لاگت چیٹ جی پی ٹی سے کہیں کم ہے۔ چین میں تکنیکی ترقی کے باوجود مزدوری اور پیداوار کی لاگت کم ہونے کی وجہ سے ڈیپ سیک کو نہایت کم خرچ پر چلایا جا سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ چینی صارفین اور کمپنیاں اسے بڑی تعداد میں اپنا سکتی ہیں، جو کہ اوپن اے آئی کے ماڈلز کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔

جیسے ہی ڈیپ سیک کا اعلان ہوا، عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کی مارکیٹ میں ہلچل مچ گئی۔ سب سے زیادہ اثر امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے حصص پر پڑا۔ اوپن اے آئی کے قریبی شراکت داروں کے حصص میں زبردست کمی دیکھی گئی، جس میں مائیکروسافٹ اور دیگر بڑی کمپنیوں کے حصص کی قدر گھٹ گئی۔ ڈیپ سیک کے اعلان کے فوراً بعد مائیکروسافٹ کے حصص میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی، جبکہ چیٹ جی پی ٹی کے بنیادی ماڈل کو چلانے والے دیگر سرور فراہم کنندگان کی قیمتیں بھی متاثر ہوئیں۔ اس نئی صورتحال میں، سرمایہ کاروں نے سوال اٹھانا شروع کر دیا کہ آیا چیٹ جی پی ٹی مستقبل میں اپنی اہمیت برقرار رکھ سکے گا یا نہیں۔

چین نے مصنوعی ذہانت کی ترقی کے لیے گزشتہ کئی سالوں میں بے حد سرمایہ کاری کی ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے اس میدان میں بے شمار مالی وسائل مختص کیے ہیں۔ ڈیپ سیک اس حکمت عملی کا حصہ ہے، جہاں چین اپنی کم لاگت اور مؤثر ٹیکنالوجی کے ذریعے امریکی برتری کو چیلنج کر رہا ہے۔ اس ماڈل کو چین کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے فوری طور پر اپنا لیا ہے، جو کہ اسے کروڑوں صارفین تک پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔

ڈیپ سیک کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرے کو دیکھتے ہوئے، امریکی حکومت اور ٹیک کمپنیاں نئی پالیسیوں پر کام کر رہی ہیں۔ اوپن اے آئی نے اپنی اگلی نسل کے ماڈل پر کام تیز کر دیا ہے، جو آئندہ سال تک متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، امریکی ٹیک کمپنیاں اپنے ماڈلز کو مزید بہتر بنانے اور ان کی لاگت کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہیں تاکہ ڈیپ سیک کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکے۔ ساتھ ہی ساتھ، امریکی حکومت چینی مصنوعی ذہانت کی مصنوعات پر نئی پابندیاں لگانے پر غور کر رہی ہے، تاکہ ڈیپ سیک کو مغربی منڈیوں میں پھیلنے سے روکا جا سکے۔

یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت کی عالمی قیادت کس کے ہاتھ میں ہوگی، لیکن چین کی تیز رفتار ترقی اس بات کی طرف واضح اشارہ کر رہی ہے کہ آنے والے سالوں میں ڈیپ سیک جیسے ماڈلز عالمی سطح پر ایک غالب قوت بن سکتے ہیں۔ اگر امریکی کمپنیاں اپنی حکمت عملی میں جلدی تبدیلیاں نہیں کرتیں تو مصنوعی ذہانت کی صنعت میں چین کا مکمل غلبہ ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ دوڑ ابھی ختم نہیں ہوئی، لیکن ایک بات یقینی ہے کہ مصنوعی ذہانت کا میدان اب صرف امریکہ کی اجارہ داری میں نہیں رہا۔ چین نہ صرف مقابلے میں شامل ہو چکا ہے بلکہ وہ تیزی سے سبقت بھی حاصل کر رہا ہے

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں