Skip to content

برار کوٹ واقعہ،تھپڑ خاتون اور پولیس اہلکار کو پڑے یا خیبر پختونخوا کی گورننس کو؟

شیئر

شیئر

شیر افضل گوجر

مانسہرہ کے ایک گاوں برار کورٹ کی سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز وائرل ہیں جن میں ایک ویڈیو میں ٹریفک پولیس اہلکار ایک خاتون سے الجھتا اور پھر تھپڑ مارتا اور اس خاتون کے ساتھ گاڑی میں موجود مرد شور مچاتا سنائی دیتا ہے کہ "آپ نے میری بہن کو تھپڑ کیوں مارا ،میں ادھر ہی اپنے آپ کو آگ لگاوں گا”۔

اسی تنازعے سے متعلق دوسری ویڈیو میں گڑھی حبیب اللہ تھانے کے ایڈیشنل ایس ایچ او وقاص تنولی مظاہرین کو درخواست کر رہا ہے کہ آپ پانچ لوگ آجائیں ہم پولیس اہلکار کو لاتے ہیں وہ آپ سے معافی مانگے گا ۔

اس معاملے سے جڑی تیسری ویڈیو میں ایک گھر کے اندر ایس پی ٹریفک پولیس شہنواز خان ،ایس پی بالاکوٹ ،ڈی ایس پی گڑھی حبیب اللہ کیڈٹ فاروق اور ہائی وے پولیس کے انچارج دیگر مقامی لوگوں اور تین خواتین کے ہمراہ نظر آرہے ہیں جو سادہ کپڑوں میں ایک شخص کو خواتین سے معافی کا کہ رہے ہیں وہ شخص ہچکچاتا ہوا خواتین کے قریب آتا اور دوسرے کمرے میں بھاگتا دکھائی دیتا ہے جسے دوبارہ لایا جاتا ہے اور وہ واپس بھاگتا ہے تو ایک خاتون اس اس کی پیٹھ پر تھپڑ مارتی اور کچھ نازیبا الفاظ دہراتی سنائی اور دکھائی دیتی ہے۔

یہ واقعہ ہے کیا؟


برارکوٹ ضلع مانسہرہ اور آزاد کشمیر کے سنگم پر واقع ایک گاوں ہے جہاں گزشتہ روز مظفر آباد سے گڑھی حبیب اللہ آنے والے ایک فیملی کا ہائی وے پولیس اہلکاروں کی طرف سے ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے کے جرم میں چالان کے بعد تنازعہ پیدا ہوا اور پھر کشمیری فیملی کے حق میں مقامی عوام اور مظفر آباد کی طرف سے آنے والے مظاہرین نے شاہرہ پر دھرنا دے دیا جس کے نتیجے میں پاکستان کو کشمیر سے ملانے والی مین شاہرہ تقریبا چار سے پانچ گھنٹوں تک بند رہی ۔

برار کوٹ تھانہ گڑھی حبیب اللہ پولیس کی حدود میں واقع ہے جبکہ یہیں پہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی حدود پر ایک پولیس چیک پوسٹ بھی قائم ہے مگر اس تنازعے کا برارکوٹ چیک پوسٹ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس چیک پوسٹ کے قریب ہی پاکستان کی حدود میں ہائی وے پولیس کے ناکے پہ یہ صورتحال پیدا ہوئی۔

ہائی وے پولیس پاکستان کی ہائی ویز پر ٹریفک کنٹرول کرنے کی زمہ دار پولیس فورس ہے جو خیبر پختونخوا کی ریگولر پولیس کے ہی اہلکاروں پر مشتمل ہے جو عارضی طور پر ڈسٹرکٹ پولیس سے حسب ضرورت ہائی وے پر تعینات کر دیے جاتے ہیں یہ اہلکار ٹریفک معاملات کو ضلع کی ٹریفک پولیس کے بجائے ہائی وے پولیس کے اپنے افسران کو رپورٹ کرتے ہیں تاہم مجموعی طور پر صوبہ میں آئی جی خیبر پختونخوا کے ماتحت ہی ہیں۔۔

واقعہ کیسے اور کب پیش آیا؟

خورشید بانڈے مظفر آباد کے رہائشی ہیں انہوں نے رابطہ کرنے پر وی نیوز کو بتایا کہ چوبیس تاریخ کو معروف نعت خوان ابرار قادری کا انتقال ہوگیا تھا جس کی تدفین مظفر آباد میں ہوئی تھی مگر اس کا آبائی تعلق گڑھی حبیب اللہ سے تھا اور میں اپنی اہلیہ ,بیٹی ،دو بہنوں اور ایک پھوپھی زاد کے ہمراہ مرحوم ابرار قادری کی فیملی سے تعزیت کے لیے گڑھی حبیب اللہ آ رہے تھے۔
ہفتہ کے دن ڈیڑھ سے دوبجے کا وقت ہو گا جب ہم نے کا برار کورٹ پولیس چیک پوسٹ کراس کی تو کچھ فاصلے پر ہائی وے پولیس کے ناکے پر اہلکاروں نے مجھے روک کر مجھ گاڑی کی دستاویزات مانگی جو میں نے دکھائی اور پھر ڈرائیونگ لائسنس مانگا تو میں نے انہیں بتایا کہ مظفر آباد میں مینئول سسٹم تبدیل کرکے اب آن لائن کر دیا گیا ہے تو میرا اصل لائسنس ادھر جمع ہے انہوں نے کہا پھر رسید دکھاو میں نے کہا رسید بھی میرے پاس نہیں ہم مظفر آباد سے ادھر گھڑی حبیب اللہ ایک فوتگی والے گھر تعزیت کے لیے جا رہے ہیں جلدی میں رسید لانا بھول گئیے ہیں۔
میری یہ بات سنتے ہی پولیس اہلکار مجھے کہنے لگا تمہارے خلاف تو پھر پانچ ہزار کا چالان ہو گا تم تو آزاد ریاست کے شہری ہو ،تم نے احتجاج کرکے آٹا کیا سستا کروا لیا اب تم چالان بھی معاف کروانا چاہتے ہو ؟
یہ بات سن کر میں کچھ فاصلے پر کھڑے ہوئے ہائی وے پولیس کے افسر نعیم تنولی کے پاس چلا گیا اور اسے درخواست کی یہ مجھ سے پانچ ہزار روپے چالان کا مطالبہ کر رہا ہے ،نعیم تنولی نے کہا کہ آپ کا ایک ہزار روپے کا چالان ہو گا اور اس نے چالان جمع کرکے مجھے ایک ہزار بیس روپے کی چٹ دی اور میں نے نعیم تنولی کو شکوہ کیا کہ یہ آپ کا یہ اہلکار کشمیریوں کے متعلق اس طرح کی باتیں کر رہا ہے اسے سمجھائیں ۔
خورشید بانڈے کے مطابق وہ ابھی نعیم تنولی سے گفتگو کر ہی رہا تھا کہ وہ اہلکار دوبارہ آیا اور اونچی آواز میں بولا ایک تو تم کشمیری تقریریں بہت کرتے ہو اور پھر اس نے میرے بازو سے پکڑکر زور سے چلایا کہ اسے پولویس موبائل وین میں ڈالو!
مجھے کینچھتے ہوئے موبائل وین کی طرف لے کر جانے کی کوشش کی تو میرے ساتھ موجود خواتین یہ منظر دیکھ رہی تھیں وہ گاڑی سے باہر نکل آئیں۔
میری ایک بہن نے موبائل نکال کر ان اہلکاروں کی ویڈیو بناتے ہوئے شور کیا کہ خبر دار جو ہمارے بھائی کو ہاتھ لگایا تو یہ سن کر یہ اہلکار مجھے چھوڑ کر میرے بہن کی طرف لپکا اور اسے زور دار تھپڑ مارکر ہاتھ سے موبائل چھین لیا ۔

پھر میں نے اس بات پر احتجاج کیا کہ میری بہن کو تھپڑ کیوں مارا ہے میں یہیں اپنے آپ کو آگ لگاوں گا ۔

"چونکہ ہم نے گھر سے نکلتے ہوئے ماتم والے گھر اطلاع دی ہوئی تھی کہ ہم آ رہے ہیں اس دوران جب ہمیں تاخیر ہوئی تو ان کی کال آئی کہ کدھر ہیں ہم نے بتایا کہ اس طرح پولیس نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کر دیا ہے تو ماتم والے گھر سے بھی لوگ ہمارے پاس آ گئیے اور باقی لوگ بھی جمع ہو گئیے توپھر ہم نے روڈ پر احتجاجی دھرنا دیکر تھپڑ مارنے والے پولیس اہلکار کی سرے عام معافی سے مشروط کرکے اٹھنے سے انکار کر دیا۔

پولیس اہلکار کو تھپڑ کیوں مارا گیا؟

ڈی پی او مانسہرہ شفیع اللہ گنڈاپور نے وی نیوز کو بتایا کہ شاہرہ کشمیر چار گھنٹے سے مسلسل بند تھی تو معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے سینیئر افسران کو ٹاسک سونپا گیا تھا کہ وہ معاملے کو حل کرائیں کیونکہ احتجاج کے باعث پاکستان کو کشمیر سے ملانے والی مین روڈ کی بندش سے شہریوں کو مشکلات درپیش تھیں ،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کے لیے خاتون کے ساتھ بدتمیزی ناقابل برداشت تھی جس پر متعلقہ افسران کو معاملہ حل کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔

شفیع اللہ گنڈہ پور نے مزید بتایا گیا ہے کہ ریجنل پولیس آفیسر ہزارہ کے حکم پر پی ایس پی ریشم جہانگیر ایس پی سٹی کی سربرائی میں پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو میرٹ پر فیکٹ فائنڈنگ کرکے یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ کیسے اور کیوں ہوا اور کیسے پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی؟۔

اسی اثنا میں گڑھی حبیب اللہ ٹیوب ویل پر تعینات محکمہ پبلک ہیلتھ کے ملازم محمد صالح کی تھانہ گڑھی حبیب اللہ میں دی گئی ایک درخواست سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں انہوں نے برار کوٹ پر ہائی وے پولیس اور مظفر آباد کی فیملی کے مابین پیدا ہونے والے تنازعہ کے بعد روڈ بلاک کرکےمظاہرہ کرنے والوں اور پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے خاتون کو تھپڑ مارنے کے واقعہ کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے اسے ملازمین کی تضحیک اور کاروئی نہ ہونے کی صورت میں ایس پی بالاکوٹ،ایس پی ٹریفک پولیس مانسہرہ اور ڈی ایس پی گڑھی حبیب اللہ کو تمام تر صورتحال کا زمہ دارٹھرایا ہے۔
رابطہ کرنے پر محمد صالح نے درخواست کی تصدیق کی اور وی نیوز کو بتایا کہ خاتون کو تھپڑ مارنے کے واقعہ کی آڑھ میں روڈ بلاک کرکے افسران کو دباو میں لایا گیا اور انہوں نے عوامی دباو میں اپنی نگرانی میں پولیس اہلکار کو تھپڑ مروائے جوکہ ہم سب ملازمین کے لیے ناقابل قبول عمل ہے۔

خورشید بانڈے کہتے ہیں کہ پولیس اہلکاروں کو کسی شہری پر ہاتھ اٹھانے یا کسی بھی قسم کی تشدد کی کون سا قانون اجازت دیتا ہے ؟
ہم قانون کا ضرور احترام کرتے ہیں مگر قانون کی آڑھ میں اپنی تذلیل بالکل برداشت نہیں کرتے ،احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے ،ہم نے احتجاج میں ایک ہی مطالبہ سامنے رکھا کہ بہن کو پبلک مقام پر تھپڑ مارا ہے بدلے میں بہن مزکورہ اہلکار کو بھی سرے عام تھپڑ مارے گی ،ایس پی بالاکوٹ ایس پی ٹریفک ،ڈی ایس پی گڑھی حبیب اللہ اور ہائی وے کے پولیس افسران ہمارے پاس آئے ،بہن کے چہرے کو دیکھا جس پر تھپڑ کے نشانات واضع تھے اور انہوں نے ہمیں یقین دہانی کروائی کہ وہ ہمارا مطالبہ تسلیم کرتے ہیں مگر کچھ جرگہ عمائدین کا کہنا تھا کہ پبلک مقام پر تھپڑ مارنے کےبجائے کسی قریبی گھر میں بیٹھ جاتے ہیں وہاں پولیس اہلکار معافی مانگے گا ،جرگہ کے کہنے پر پہلے ایک گھر میں گیے پولیس اہلکار نہیں آیا،پھر دوسرے گھر اور آخر میں تیسرے گھر میں افسران کے حکم پر پولیس اہلکار کو زبردستی لایا گیا جو اپنی حرکت پر افسران کی موجودگی میں معافی نہیں مانگنا چاہ رہا تھا بار بار بھاگ رہا تھا تبھی میری بہن نے اس کو دو تھپڑ مارے ،اگر وہ عزت داروں کی طرح معذرت کر لیتا تو شاہد یہ نوبت ہی نہ آتی ۔
اس معاملے کے اہم کردار پولیس اہلکار طالع محمد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اس کا نمبر مسلسل بند مل رہا تھا جبکہ موقع پر موجود دیگر پولیس اہلکاروں نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ صرف افسران کو وقف دینے کی اجازت ہے۔

بالاکوٹ بار یسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری سردار اشفاق ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانون بڑا واضع ہے سزا و جزا دینے کا اختیار صرف عدالتوں کے پاس ہے،قانون کسی فرد یا گروہ کو یہ اختیار نہیں۔
پولیس والے ہوں یا عوام، وہ خود کسی کو سزا کا فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ خاتون کو تھپڑ مارنے پر پولیس اہلکار کے خلاف سول سرونٹ رولز کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے تھی تاکہ شہریوں کا قانون پر اعتماد قائم رہے مگر پہلے پولیس اہلکار کی طرف سے خاتون کو تھپڑ مارنا اور پھر افسران کی موجودگی میں پولیس اہلکار کو تھپڑ مروانا یہ دونوں غیر قانونی ہیں اور ان دونوں افعال کے قانونی نتائج ہیں،اگر خاتون نے کوئی جرم کیا تھا تو قانونی رستہ موجود تھا جس کا سہارا لینا چاہیے تھا۔
گورننس ایکسپرٹ اور انسانی حقوق ایکٹوسٹ ممتاز شاہ کا کہنا ہے کہ یہ ساری صورتحال خیبر پختونخوا میں گورننس کی عدم موجودگی کی گواہی دیتی ہے،پبلک مقامات ہو یا تھانے خیبر پختونخوا میں پولیس کی طرف سے شہریوں کی تذلیل کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور اب تو روزانہ کی بنیاد پر اس طرح کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں، اطلاعات کے مطابق اس واقعہ میں پولیس اہلکار کی طرف سے کشمیری کمیونٹی کے بارے میں ایسے ریمارکس دیے گیے جن سے رنجیدہ ہوکر اگر انہوں نے افسر سے شکوہ کیا تو اس میں کیا غلط تھا؟
ممتاز شاہ کا کا کہنا ہے کہ سوال یہ ہے کہ پولیس کا کام شہریوں کو تحفظ دینا ہے یا ان کی تذلیل کرنا ہے؟
چونکہ ہر چالان کے ساتھ اہلکاروں کو کمیشن ملتا ہے تو اب ٹریفک کنٹرول کرنے والے اہلکار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کو کنٹرول کرنے کے بجائے جرمانوں کو ایک کاروباری مواقع کے طور پر دیکھتے ہیں اور جگہ جگہ ناکے لگا کر شہریوں سے ٹریفک خلاف ورزیوں کی آڑھ میں بھاری جرمانے وصول کرتے نظر آتے ہیں روزانہ کی بنیاد پر ایسی شکایات موصول ہوتی ہیں کہ شہریوں کے پاس ساری دستاویزات کی موجودگی کے باوجود اہلکار جرمانے کرتے ہیں اور جوابدہی نہ ہونے سے یہ اب معمول بن چکا ہے ۔
خواتین کو تھپڑ مارنے کا واقعہ نہ صرف قانونی طور پر جرم ہے بلکہ یہ ہماری روایات،تہذیب اور ثقافت کے بھی خلاف ہے۔
جرگہ کے زریعے پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ممتاز شاہ کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں اب یہ باقاعدہ ایک رجحان فروغ پا گیا ہے کہ تھانوں میں قانون کے مطابق معاملات کو حل کرنے کے بجائے غیرقانونی جرگوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور پھر ان جرگوں کے نتائج اسی طرح کی غیر قانونی اور غیر انسانی واقعات کی صورت میں نکلتے ہیں۔

بشکریہ وی نیوز

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں