عمرخان جوزوی
یوں توحالات اورنظام پورے ملک کاٹھیک نہیں،طبقاتی سسٹم,اقرباپروری اورلوٹ مارکی وجہ سے ہم ترقی اورخوشحالی کے بجائے آئے روزتنزلی اورتباہی کی طرف بڑھتے جارہے ہیں۔ہرشخص اورفرداپنی جگہ پریشان اورحالات سے بیزارہے۔غریبوں باالخصوص نچلے طبقے کاتواب ہرچڑھتے سورج کے ساتھ جینابھی مشکل ہوتاجارہاہے لیکن نئے پاکستان کے تخلیق کاروں کے صوبے میں حالات بدسے بھی بدترہیں۔جب سے اس صوبے پرپی ٹی آئی مارکہ حکمرانوں کاسایہ پڑاہے تب سے صوبہ تباہ ہوکررہ گیاہے۔دس سال سے جاری اس بچگان حکمرانی کے کمالات و کرامات عالیہ کے باعث نہ صرف اکثرسرکاری محکمے اورادارے بربادی کے سفرپرگامزن ہوچکے ہیں بلکہ ان اداروں ومحکموں سے وابستہ اہلکاراورملازمین بھی پی ٹی آئی کے ماہر معیشت دانوں،دانشوروں اورفلاسفروں کی کوکھ سے نکلنے والی نام نہاداصلاحات کی بوریاں سرپراٹھائے حال اورمستقبل دونوں سے ناامیدومایوس ہوکرآنسوبہارہے ہیں۔اصلاحاتی ڈراموں کے ذریعے اداروں اورمحکموں کابیڑہ غرق کرنے کے بعداب پنشن اصلاحات کے نام پرتمام سرکاری ملازمین کی امیدوں اورامنگوں کاایک ہی بارجنازہ نکالنے کی کوششیں بھی شروع کردی گئی ہیں۔صوبے کے سرکاری ملازمین پی ٹی آئی حکمرانوں کی ان تازہ اداؤں اورحرکات نادانی پرسراپااحتجاج ہیں جن کی آوازسننے کے بجائے ان پرطاقت کااستعمال کرکے انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔جولوگ وفاقی حکومت اوراسلام آبادپرغیرقانونی چڑھائی کے دوران اپنے اوپرپڑنے والے ڈنڈوں کوظلم اوربے انصافی سے تعبیرکرکے نہیں تھکتے تھے اب وہی لوگ جائزاحتجاج پربے گناہ اورنہتے سرکاری ملازمین پرڈنڈوں کی بارش کوکوئی بڑاثواب سمجھ رہے ہیں۔سرکاری ملازمین پرڈنڈے برسانے والے حکمران یہ بھول رہے ہیں کہ اس ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس سرکاری ملازمین ہی دیتے ہیں باقی لوگ تواپنی مبارک زبانوں پرٹیکس کانام لینابھی گوارہ نہیں کرتے۔اس ملک میں جاگیرداروں،سرمایہ داروں اورصعنتکاروں کے روپ وشکل میں بڑے بڑے مگرمچھ ہیں۔ ان مگرمچھوں کے پاس نہ صرف کل سرمایہ بلکہ ان کی ماہانہ وروزانہ کی آمدن بھی ان سرکاری ملازمین سے ایک نہیں کئی سوگناہ زیادہ اوربڑھ کرہے پر اس کے باوجودیہ بڑے بڑے مگرمچھ اتناٹیکس نہیں دیتے جتناٹیکس اس ملک میں سرکاری ملازمین دیتے ہیں لیکن پھربھی مجرم اورگناہ گاراس ملک کے سرکاری ملازمین ہی ہیں۔ملازمین سارے ججزاوربیوروکریٹ کی طرح نہ توبھاری تنخواہیں لیتے ہیں اورنہ ہی بادشاہوں جیسی مراعات بلکہ ملازمین میں اکثریت توایسوں کی ہے کہ جن کاگزربسرہی ماہانہ تنخواہ اورپنشن پرہوتاہے۔ملازمین مہینے بھرکی محنت اورمشقت اسی تنخواہ اورزندگی بھرکی جدوجہدپنشن کے لئے تو کرتے ہیں۔زندگی کے قیمتی سال یہ ملازمین سرکاری محکموں اوراداروں کے لئے اس لئے قربان کرتے ہیں کہ انہیں عمرکے آخری حصے کے لئے پنشن کی امیدہوتی ہے۔پنشن ہی توسرکاری ملازمین کاآخری اورواحدسہاراہے۔اکثر سرکاری ملازم اس قابل نہیں ہوتے کہ نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعدبقایازندگی کے لئے ان کے پاس سرچھپانے کے لئے اپنی جگہ,بچوں کوکھلانے کے لئے روٹی اوربدن ڈھانپنے کے لئے کپڑاہو۔جاگیرداروں،سیاستدانوں اورسرمایہ داروں کی طرح سونے،چاندی اورڈالروں سے بھری تجوریاں توان کے پاس ہوتی نہیں کہ ان پرپھریہ مرنے تک عیش وعشرت کرتے پھریں۔ریٹائرمنٹ کے بعدیہی پنشن ہی توسرکاری ملازمین کے جینے کاایک ذریعہ ہے جس پرملازمین زندگی کے باقی شب وروزآرام وعزت سے گزاردیتے ہیں۔ان سے اگریہ ذریعہ بھی چھیناجائے توپھرسرکاری نوکریوں میں زندگی کھپانے کی کیاضرورت یاکیافائدہ۔۔؟سن کوٹے والے درتوپہلے ہی انصاف پسندوں کوبندکردیاہے۔لوگ سرکاری نوکری کے لئے محنت،کوشش اورجدوجہدہی توپنشن کے لئے کرتے ہیں ورنہ باہرتوسرکارسے اچھی تنخواہوں پرکام اورنوکریاں ملتی ہیں۔کیااندرون وبیرون ممالک پرائیوٹ نوکریوں کے ذریعے لوگوں نے اپنے ذاتی مکان،دکانیں،مارکیٹ اورپلازے نہیں بنائے۔؟جن لوگوں نے جی بھرکراس ملک کولوٹااب وہ کہہ رہے ہیں کہ سرکاری ملازمین،ان کی تنخواہیں اورپنشن خزانے پربوجھ ہے۔یہ ہردوسرے دن وزیروں،مشیروں اورممبران اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں جودوسواورتین سوفیصداضافہ ہوتاہے کیایہ خزانے پربوجھ نہیں۔؟سرکاری نوکریوں اورپنشن کوکسی اورنے نہیں انہی لوگوں نے جوآج اسے بوجھ قراردے رہے ہیں خودبوجھ بنایاہواہے۔ملازمین کی تنخواہوں اورپنشن کے بارے میں کوئی یکساں نظام اورپالیسی نہیں۔ہرمحکمے اورادارے میں تنخواہوں اورپنشن کاالگ قانون،الگ نظام اورمختلف پالیسی ہے۔ایک ہی سکیل کاایک ملازم ایک محکمے اورادارے سے چالیس پچاس ہزارتنخواہ لے رہاہے تواسی سکیل میں دوسرے محکمے کے ملازم کو ستراسی ہزارتنخواہ مل رہی ہوتی ہے یہی حال تنخواہوں کے ساتھ پنشن اورمراعات کابھی ہے۔خزانے پراصل بوجھ تنخواہوں،مراعات اورپنشن میں یہ تفریق ہے لیکن یہ ظلم کسی کونظرنہیں آرہا۔غریب کے منہ میں روٹی کاخشک نوالہ توسب کونظرآرہاہے پربڑے مگرمچھوں کے پیٹ میں جانے والے بڑے بڑے بکرے کسی کونظرنہیں آرہے۔ڈبل پنشن پرایک نہیں ہزاربارپابندی لگانی چاہئیے کہ یہ ظلم ہے لیکن پنشن اصلاحات کی آڑمیں غریب ملازمین کی پنشن سے کٹوتی،بیواؤں اوریتیموں پرپنشن کی بندش یہ کوئی انصاف نہیں بلکہ یہ ظلم سے بھی بڑاظلم ہے۔ہمارے حکمرانوں کوغریبوں کے خشک نوالے پرنظررکھنے کے بجائے اپنے گریبان میں بھی ذرہ جھانکناچاہئیے۔پنشن سے بہت سارے گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔اب ریٹائرمنٹ کے بعدجولوگ کام کاج کے قابل ہی نہ ہوں ان کی پنشن اگربند یاکم کی جائے توپھران کاگزاراکیسے ہوگا۔پنشن یہ نہ صرف غریب سرکاری ملازمین بلکہ بے بس اورمحتاج بزرگوں کابھی آخری سہاراہے۔اس لئے حکمرانوں کوپنشن اصلاحات کے ذریعے سرکاری ملازمین کوٹینشن دینے سے گریزکرناچاہئیے بلکہ پنشن کے ساتھ سرکاری ملازمین کے لئے ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد غریب سرکاری ملازمین بھی حکمرانوں،سیاستدانوں،ججزاوربیوروکریٹ کی طرح زندگی کے باقی شب وروز آرام وسکون سے گزارسکیں۔