ڈاکٹر جزبیہ شیریں
پاکستان میں سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ نہ صرف معیشت پر اثرانداز ہو رہا ہے بلکہ معاشرتی روایات اور خاندانی ذمہ داریوں کو بھی بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ 2024 میں سونے کی قیمت ڈھائی لاکھ روپے فی تولہ تک پہنچ چکی ہے، جو کہ ایک عام پاکستانی کے لیے خواب بن چکا ہے۔ یہ اضافہ نہ صرف شادی بیاہ کے معاملات کو مشکل بناتا ہے بلکہ مڈل کلاس اور نچلے طبقے کے خاندانوں کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث بن رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں شادی کو صرف ایک رسم کے بجائے فخر کا موقع تصور کیا جاتا ہے۔ دلہن کے لیے سونے کے زیورات بنوانا لازمی سمجھا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ زیورات شادی کے بعد الماریوں یا سیف میں بند پڑے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود، خاندان اپنی حیثیت سے بڑھ کر سونے کے زیورات خریدنے کے لیے قرض لیتے ہیں یا اپنی جمع پونجی خرچ کر دیتے ہیں۔ سونے کی قیمت میں اضافے کے ساتھ، یہ صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے، کیونکہ عام لوگ اب ان زیورات کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
یہاں تک کہ متوسط طبقے کے لوگ بھی، جو اپنی محنت کی کمائی کو بڑی محنت سے جمع کرتے ہیں، شادی کے موقع پر اپنی تمام بچت زیورات، بریانی اور دیگر فضول خرچوں پر لگا دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، شادی کے بعد کا پہلا سال قرض اتارنے اور مالی پریشانیوں میں گزر جاتا ہے۔ یہ حقیقت افسوسناک ہے کہ لوگ معاشی مسائل کے باوجود "دکھاوے” کو ترجیح دیتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ سادگی اپنائیں اور اپنی اگلی نسل کو بہتر زندگی فراہم کرنے کی کوشش کریں۔
2024 میں سونے کی قیمت کے بڑھتے گراف نے متوسط طبقے کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے۔ کچھ دہائیاں قبل، زیورات کو لڑکی کے جہیز کا اہم حصہ سمجھا جاتا تھا، لیکن موجودہ قیمتیں اس روایت کو تبدیل کرنے کا تقاضا کر رہی ہیں۔ جہاں پہلے والدین چند تولے سونا دلہن کے لیے خرید سکتے تھے، اب وہی چند تولے لاکھوں روپے کی لاگت کے ساتھ ناقابلِ حصول ہو گئے ہیں۔
مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ زیورات کی افادیت شادی کے موقع پر دکھاوے تک محدود رہتی ہے۔ شادی کے بعد نہ تو یہ زیورات روزمرہ زندگی میں پہنے جاتے ہیں اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی مالی فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر یہ پیسے دلہا یا دلہن کے مستقبل کے لیے کسی کاروبار یا گھر خریدنے میں لگائے جائیں، تو یہ ان کی زندگی کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
پاکستانی معیشت میں غیر یقینی صورتحال، بڑھتی ہوئی مہنگائی، اور روپے کی قدر میں کمی نے سونے کی قیمت کو تاریخی سطح تک پہنچا دیا ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے فضول خرچے نہ صرف ان کے مالی حالات کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ معاشرے میں غیر ضروری دباؤ اور غیر مساوی روایات کو بھی فروغ دیتے ہیں۔
سادگی کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ والدین اور نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ دکھاوے کی بجائے اصل زندگی کی ضروریات پر توجہ دیں۔ اگر ہم سادگی کو اپنائیں اور اپنے اخراجات کو کم کریں، تو نہ صرف ہمارے خاندانوں کی مالی حالت بہتر ہوگی بلکہ ہماری اجتماعی سوچ میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی۔ سونے کے زیورات پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بجائے، یہی رقم زندگی کی بہتری اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں لگائی جا سکتی ہے، جو کہ ایک روشن اور خوشحال پاکستان کے لیے ضروری ہے۔ پاکستانی معاشرے میں شادی بیاہ کے مواقع پر فضول خرچی اور دکھاوے کا رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف افراد کے مالی مسائل میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ سماجی اقدار کو بھی کمزور کر رہا ہے۔ سونے کی قیمت 2024 میں ڈھائی لاکھ روپے فی تولہ سے تجاوز کر چکی ہے، جو متوسط اور نچلے طبقے کے لیے ناقابلِ حصول بن چکا ہے۔ اس کے باوجود، لوگ اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، صرف اس لیے کہ معاشرتی دباؤ یا دکھاوے کی روایت قائم رہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شادی کے لیے لاکھوں روپے کے زیورات خریدے جاتے ہیں، حالانکہ یہ زیورات شادی کے بعد کسی فنکشن میں شاذ و نادر ہی پہنے جاتے ہیں۔ زیورات کے یہ سیٹ عام طور پر الماریوں میں بند پڑے رہتے ہیں، لیکن ان پر لاکھوں روپے صرف کیے جاتے ہیں۔ سونا اب عام عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے، مگر دکھاوے کی اس دوڑ نے متوسط طبقے کو بھی اس دوڑ میں شامل کر لیا ہے۔
شادیوں پر فضول خرچیاں صرف زیورات تک محدود نہیں ہیں۔ لڑکے والے اپنی حیثیت سے بڑھ کر بارات کے لیے کرائے کی کئی گاڑیاں لاتے ہیں تاکہ ایک دن کے لیے امیری کا تاثر دیا جا سکے، حالانکہ بارات کے اگلے ہی دن دولہا اور دلہن موٹر سائیکل پر نظر آتے ہیں۔ اسی طرح دلہن کے جہیز میں بے شمار بستر، کمبل، اور کپڑے شامل کیے جاتے ہیں، جو اکثر دس سے بیس سال تک استعمال میں نہیں آتے اور الماریوں یا پیٹیوں میں بند رہتے ہیں۔
کھانے پینے کی بات کی جائے تو شادی کے فنکشنز جیسے مہندی، بارات، اور ولیمہ پر بریانی، مٹن، اور دیگر قیمتی پکوانوں پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ دلہن کے میک اپ کے لیے پچیس ہزار سے لاکھوں روپے تک خرچ کیے جاتے ہیں، حالانکہ یہ سب کچھ صرف چند گھنٹوں کے لیے ہوتا ہے۔ فوٹو سیشن اور ویڈیوز کے لیے الگ سے لاکھوں روپے صرف کیے جاتے ہیں، تاکہ یہ یادیں مستقبل میں محفوظ رہیں، لیکن ان یادوں کے ساتھ آنے والے قرضوں کا بوجھ اکثر کئی سالوں تک خاندان کے مالی حالات کو متاثر کرتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک اوسط شادی پر دس سے پندرہ لاکھ روپے خرچ کیے جاتے ہیں، جو اکثر قرض لے کر پورے کیے جاتے ہیں۔ یہ قرض بعد میں شادی کے جوڑے اور ان کے اہل خانہ کے لیے ایک بڑا مالی بوجھ بن جاتا ہے، جسے اتارنے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ ان سب فضول خرچیوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شادی کے بعد کا پہلا سال مشکلات اور مالی پریشانیوں میں گزر جاتا ہے۔
اگر ان تمام فضول خرچیوں سے گریز کیا جائے اور سادگی کو اپنایا جائے تو یہی رقم کسی چھوٹے کاروبار، گاڑی، یا گھر کی خریداری میں استعمال کی جا سکتی ہے۔ دکھاوے کی یہ روایت معاشرے کو مزید مشکلات میں دھکیل رہی ہے، اور ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سادگی سے شادی نہ صرف مالی مسائل کو کم کر سکتی ہے بلکہ حقیقی خوشی اور سکون کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں شادی بیاہ کے موقع پر جہیز ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے جو نہ صرف خاندانوں پر مالی بوجھ ڈالتا ہے بلکہ سماجی اور اخلاقی اقدار کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب جہیز ایک رسمی روایت کے طور پر دیکھا جاتا تھا، مگر آج یہ ایک معاشرتی مقابلہ بازی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ خاص طور پر متوسط اور نچلے طبقے کے لیے، یہ رسم ایک ایسا بوجھ ہے جو شادی کے خوشیوں بھرے دن کو قرضوں اور مشکلات میں بدل دیتا ہے۔
اکثر لڑکی کے والدین اپنی عمر بھر کی جمع پونجی اس بات پر خرچ کر دیتے ہیں کہ ان کی بیٹی کا جہیز معاشرے کی توقعات کے مطابق ہو۔ جہیز میں شامل غیر ضروری سامان، جیسے درجنوں بستر، کمبل، رضائیاں، برتن، اور کئی سوٹ، زیادہ تر استعمال کے بغیر ہی سالہا سال الماریوں یا پیٹیوں میں بند رہتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق، پاکستان میں شادی کے موقع پر دیے جانے والے جہیز کی مالیت اوسطاً 5 سے 10 لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے، جو کہ اکثر والدین کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ معاشرتی دباؤ کے تحت لوگ اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تیاریوں میں غیر ضروری دکھاوے کے لیے جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے، اس میں لڑکی کے لیے قیمتی کپڑے، زیورات، اور یہاں تک کہ برقی آلات بھی شامل ہوتے ہیں، جن کی ضرورت کم اور دکھاوے کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ اکثر یہ سامان نہ صرف بے کار ہوتا ہے بلکہ جلد ہی اپنی اہمیت کھو دیتا ہے، کیونکہ نئے فیشن یا ٹیکنالوجی کے آنے سے یہ پرانے ہو جاتے ہیں۔
معاشی دباؤ کے نتیجے میں والدین کو قرض لینا پڑتا ہے یا اپنی جائیداد بیچنی پڑتی ہے، جو کہ ان کے لیے زندگی بھر کی کمائی کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد سے زیادہ والدین اپنی بیٹی کی شادی کے لیے قرض لیتے ہیں، جو کہ شادی کے بعد کئی سالوں تک ان کی مالی حالت کو متاثر کرتا ہے۔ یہ مالی دباؤ نہ صرف والدین بلکہ نوبیاہتا جوڑے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، جو اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں قرضوں کی ادائیگی میں مصروف رہتے ہیں۔
اس روایت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ اکثر خاندانوں کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کر دیتی ہے۔ شادی کے بعد، اگر لڑکی کے جہیز کے بارے میں کوئی شکایت یا کمزوری محسوس کی جائے، تو یہ نہ صرف لڑکی کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے بلکہ ازدواجی زندگی میں مسائل پیدا کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ جہیز کی مقدار یا معیار پر اعتراضات ازدواجی تنازعات کو جنم دیتے ہیں، اور بدقسمتی سے، کئی معاملات میں یہ تنازعات طلاق یا گھریلو تشدد کی صورت میں ختم ہوتے ہیں۔
اگر ہم اس مسئلے کا حل تلاش کریں تو سادگی اور عملی سوچ اپنانا ضروری ہے۔ لڑکی کی تعلیم اور تربیت پر توجہ دینا، اسے خود مختار بنانا، اور شادی کے اخراجات کو محدود رکھنا ایک بہتر مستقبل کی ضمانت دے سکتا ہے۔ جہیز کے غیر ضروری سامان پر خرچ کرنے کے بجائے، یہ رقم لڑکی کی تعلیم، کاروبار، یا مستقبل کے لیے بچائی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں ایسے کئی کامیاب افراد کی مثالیں موجود ہیں جو بغیر کسی جہیز کے سادہ شادی کرکے خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس غیر ضروری رسم کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر مثال قائم کریں۔ جہیز کو ایک ضرورت کے بجائے، ایک غیر ضروری رسم سمجھا جائے اور اس کے بوجھ سے خود کو آزاد کیا جائے تاکہ شادی کا یہ خوبصورت دن حقیقی خوشیوں کا دن بن سکے، نہ کہ قرض اور دباؤ کا باعث۔ پاکستان میں شادی ایک خوبصورت اور یادگار موقع سمجھا جاتا ہے، مگر بدقسمتی سے یہ موقع اکثر قرضوں اور معاشی دباؤ کی نذر ہو جاتا ہے۔ معاشرتی دباؤ اور روایتی توقعات کی وجہ سے خاندان اپنی حیثیت سے بڑھ کر اخراجات کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جو انہیں مالی مشکلات کے گہرے جال میں پھنسا دیتا ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پر متوسط اور نچلے طبقے کے لیے زیادہ سنگین ہو جاتا ہے، جہاں شادی کے اخراجات کو پورا کرنا کسی خواب سے کم نہیں ہوتا۔
پاکستان میں شادی کے موقع پر اخراجات کا ایک بڑا حصہ دکھاوے پر مبنی ہوتا ہے۔ شادی کے مختلف فنکشنز، جیسے مہندی، بارات، اور ولیمہ، میں نہ صرف مہنگے کھانے بلکہ عالیشان ہالز اور شاندار سجاوٹ پر بھی لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان میں شادی پر اوسطاً 10 سے 20 لاکھ روپے خرچ کیے جاتے ہیں، جبکہ زیادہ خوشحال خاندان اس سے بھی کہیں زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو جاتی ہے جب خاندان اپنی محدود آمدنی کے باوجود یہ اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں۔
معاشرتی روایات اور توقعات کی وجہ سے لڑکی کے والدین پر اضافی دباؤ ہوتا ہے۔ جہیز کے نام پر لاکھوں روپے کا سامان، قیمتی زیورات، اور دیگر اشیاء خریدی جاتی ہیں، جن کی زیادہ تر نہ ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی عملی استعمال۔ اسی طرح، بارات کے دن گاڑیوں کا کرایہ، مہنگے کپڑوں اور جوتوں کا انتظام، اور دلہن کے میک اپ پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، جو صرف چند گھنٹوں کے لیے ایک مصنوعی خوشنما تصویر پیش کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام اخراجات کا اصل اثر شادی کے بعد ظاہر ہوتا ہے، جب خاندان قرضوں کی ادائیگی میں پھنس جاتے ہیں۔ پاکستان میں قرض لینا ایک عام رجحان بن چکا ہے، خاص طور پر شادیوں کے موقع پر۔ بینکوں، فلاحی تنظیموں، اور رشتہ داروں سے قرض حاصل کرنا ان خاندانوں کے لیے ایک معمولی عمل ہے جو اپنی حیثیت سے بڑھ کر اخراجات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق، پاکستان کے متوسط اور نچلے طبقے کے تقریباً 60 فیصد خاندان شادی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کسی نہ کسی صورت میں قرض لیتے ہیں۔ یہ قرض بعد میں خاندانوں کے لیے ایک مستقل مالی بوجھ بن جاتا ہے، جس کی ادائیگی میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
شادیوں کے بعد قرضوں کی ادائیگی کی مشکلات خاندانوں کو مزید مالی دباؤ میں ڈال دیتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ دباؤ نئی نویلی جوڑی کی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، جو اپنی شادی کے ابتدائی سال قرض کی ادائیگی میں گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، قرض کی وجہ سے خاندان کے دیگر افراد کی ضروریات، جیسے تعلیم، صحت، یا گھر کی دیکھ بھال، متاثر ہوتی ہیں۔
معاشرتی توقعات کی یہ دوڑ خاص طور پر متوسط طبقے کے لیے نقصان دہ ہے، جو اپنی محدود آمدنی کے باوجود دکھاوے کی روایات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، بارات کے لیے کرائے پر مہنگی گاڑیاں لینا، شاندار ہالز بک کرنا، اور ضرورت سے زیادہ کھانے کی ڈشز شامل کرنا ایسے اخراجات ہیں جو عملی طور پر غیر ضروری ہیں لیکن صرف "لوگ کیا کہیں گے” کے خوف سے کیے جاتے ہیں۔
معاشرتی دباؤ کا خاتمہ اور سادگی کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر خاندان سادگی کو ترجیح دیں اور اپنے وسائل کے مطابق شادی کے اخراجات کریں، تو یہ نہ صرف قرض لینے کی ضرورت کو ختم کرے گا بلکہ معاشرے میں ایک مثبت مثال بھی قائم کرے گا۔ سادہ اور باوقار شادی کا رجحان نہ صرف مذہبی تعلیمات کے مطابق ہے بلکہ عملی زندگی میں بھی کئی مسائل کو حل کر سکتا ہے۔
قرضوں سے بچنے کے لیے خاندانوں کو اپنی ترجیحات پر غور کرنا چاہیے اور ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جو طویل مدتی فائدے کے لیے ہوں۔ شادی کے موقع پر غیر ضروری اخراجات سے گریز، محدود مہمانوں کی فہرست، اور کم قیمت کے مگر معیاری انتظامات ایسے اقدامات ہیں جو مالی دباؤ کو کم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت اور سماجی تنظیموں کو بھی عوام کو اس سلسلے میں شعور دینے کی ضرورت ہے تاکہ شادیوں کو معاشی بوجھ کے بجائے خوشیوں کا ذریعہ بنایا جا سکے۔
شادی ایک نئی زندگی کا آغاز ہے اور اس کا مقصد خوشیوں اور دعاؤں کا حصول ہونا چاہیے، نہ کہ قرضوں اور مالی مشکلات کا بوجھ۔ سادگی اور بچت کو فروغ دے کر ہم نہ صرف اپنی زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں بلکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں خوشی اور سکون کا تعلق اخراجات سے نہیں بلکہ محبت اور باہمی احترام سے ہو۔ پاکستان میں شادیوں کے معاملات میں سادگی اور بچت کی اہمیت نہایت ضروری ہے، خاص طور پر اس وقت جب معاشی حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ مشکل ہو رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، روپے کی گرتی ہوئی قدر، اور روزمرہ کے اخراجات میں اضافے نے عام آدمی کے لیے مالی منصوبہ بندی کو بہت زیادہ چیلنجنگ بنا دیا ہے۔ اس تناظر میں شادیوں پر بے جا اخراجات نہ صرف مالی وسائل کو ضائع کرتے ہیں بلکہ خاندانوں کو قرض اور دباؤ کے جال میں بھی پھنسا دیتے ہیں۔
شادی کے موقع پر سادگی اختیار کرنا صرف مذہبی تعلیمات ہی نہیں بلکہ عملی زندگی کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں دکھاوے کے لیے کی جانے والی فضول خرچی نے شادیوں کے بعد بھی خاندانوں کو معاشی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان میں اوسطاً ایک شادی پر 10 سے 20 لاکھ روپے خرچ کیے جاتے ہیں، جبکہ متوسط طبقے کے بہت سے خاندان اپنی پوری زندگی کی بچت صرف ایک دن کے فنکشن پر خرچ کر دیتے ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف مالی نقصان کا باعث بنتا ہے بلکہ سماجی دباؤ کو بھی بڑھاتا ہے، جہاں ہر خاندان دوسرے سے زیادہ شاندار شادی کا اہتمام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
سادگی اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ شادی کی خوشیوں میں کوئی کمی کی جائے، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ غیر ضروری اخراجات سے بچتے ہوئے ان وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کیا جائے۔ مثال کے طور پر، مہنگے شادی ہالز کے بجائے گھر یا کسی سادہ جگہ پر تقریب منعقد کی جا سکتی ہے، جو نہ صرف اخراجات کم کرے گی بلکہ خاندانی ماحول کو بھی فروغ دے گی۔ اسی طرح، مہنگے کھانے اور اضافی ڈشز کے بجائے سادہ مگر معیاری کھانے کا انتظام کیا جا سکتا ہے، جس سے مہمانوں کی عزت اور خاندان کے مالی حالات دونوں محفوظ رہتے ہیں۔
جہیز کے حوالے سے بھی سادگی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ایک عام روایت ہے کہ لڑکی کے والدین اپنی حیثیت سے بڑھ کر قیمتی سامان اور زیورات دیتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عملی استعمال میں نہیں آتا۔ ایک تحقیق کے مطابق، جہیز کے سامان کی اوسط قیمت 5 لاکھ سے 10 لاکھ روپے کے درمیان ہوتی ہے، جو کہ متوسط اور نچلے طبقے کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ اس کے برعکس، سادگی اختیار کرنے سے یہ رقم لڑکی کے مستقبل یا تعلیم پر خرچ کی جا سکتی ہے، جو اسے زندگی میں زیادہ مضبوط بناتی ہے۔
سادگی اور بچت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ خاندانوں کو مالی طور پر مستحکم بناتی ہے۔ اگر شادیوں پر خرچ ہونے والی رقم کو مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یہ خاندان کے دوسرے ضروری معاملات جیسے تعلیم، صحت، یا کاروبار میں سرمایہ کاری کے لیے کام آ سکتی ہے۔ یہ رجحان نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ مجموعی طور پر معاشرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، جہاں ہر خاندان اپنی حیثیت کے مطابق خوشیاں منا سکے۔
سادگی اختیار کرنے کے لیے سب سے پہلا قدم معاشرتی دباؤ کو نظرانداز کرنا ہے۔ لوگ کیا کہیں گے؟ اس سوال کو پس پشت ڈال کر اپنی ضروریات اور وسائل کے مطابق فیصلے کرنا ہی اصل دانشمندی ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں حالیہ دنوں میں کچھ خاندانوں نے سادہ شادیوں کا رجحان شروع کیا ہے، جہاں ایک تقریب میں کم مہمانوں کو مدعو کیا جاتا ہے اور غیر ضروری اخراجات سے بچا جاتا ہے۔ یہ مثالیں معاشرتی رویوں میں تبدیلی کا آغاز ہیں، جو آگے چل کر ایک مثبت اثر ڈال سکتی ہیں۔
سادگی اور بچت نہ صرف شادی کے موقع پر بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ نہ صرف مالی دباؤ کو کم کرتی ہیں بلکہ زندگی کو زیادہ پر سکون اور خوشحال بھی بناتی ہیں۔ اگر ہم ان اصولوں کو اپنائیں تو نہ صرف اپنی زندگی بہتر کر سکتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال بھی قائم کر سکتے ہیں