Skip to content

آگ کی لپیٹ میں لاس اینجلس 

شیئر

شیئر

 ڈاکٹر جزبیہ شیریں


           لاس اینجلس میں جنگلاتی آگ کے حالیہ واقعے نے نہ صرف شہر بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ آگ پیسیفک پالیسیڈز کے علاقے میں بھڑکی اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی میل تک پھیل گئی۔ اس آگ کی شدت اس قدر تھی کہ ہزاروں افراد کو اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ تیز ہوائیں اور خشک موسم نے اس آگ کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ رپورٹ کے مطابق، 12,000 سے زائد مکانات اور عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں، جبکہ متاثرہ علاقوں میں ہالی وڈ کی مشہور شخصیات کے کروڑوں ڈالرز کے مکانات بھی شامل ہیں۔

ماہرین کے مطابق، آگ لگنے کی اہم وجوہات میں خشک موسم، انسانی غفلت اور موسمیاتی تبدیلیاں شامل ہیں۔ لاس اینجلس کے جنگلاتی علاقوں میں طویل عرصے سے بارشیں نہیں ہوئیں، جس کی وجہ سے درخت اور جھاڑیاں خشک ہوچکی تھیں۔ اس خشک ماحول میں ایک چنگاری بھی تباہ کن آگ کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، انسانی سرگرمیاں، جیسے کہ بجلی کی لائنوں کا خراب ہونا یا جنگلات میں کیمپنگ کے دوران آگ لگانا، بھی آگ بھڑکانے کا باعث بن سکتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں نے ان آگ کے واقعات کی شدت کو بڑھا دیا ہے۔ گرم اور خشک موسم کی طوالت نے جنگلاتی علاقوں کو انتہائی خطرناک بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ، تیز ہواؤں نے آگ کو مزید بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ماہرین کے مطابق، یہ صورتحال موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک واضح مثال ہے، جو مستقبل میں مزید بدتر ہو سکتی ہے۔

اس آگ کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ ماحول پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آگ نے جنگلات کو نقصان پہنچایا، جو نہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں بلکہ جنگلی حیات کے لیے پناہ گاہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ جنگلی حیات کی بڑی تعداد اس آگ میں ہلاک ہو چکی ہے یا بے گھر ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ، فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا ہے، کیونکہ آگ سے پیدا ہونے والا دھواں شہری علاقوں تک پہنچا، جس سے سانس کی بیماریاں بڑھنے کا خدشہ پیدا ہوا ہے۔

معاشی طور پر بھی یہ آگ بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئی ہے۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق، اس آگ سے ہونے والے نقصانات کا مجموعی خرچ 50 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ مکانات، کاروباری عمارتیں اور دیگر انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، بجلی کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے، اور ہزاروں صارفین بجلی سے محروم ہو چکے ہیں۔

حکام اور فائر فائٹرز نے آگ پر قابو پانے کے لیے غیر معمولی کوششیں کیں۔ تقریباً 12,000 فائر فائٹرز، 1,100 سے زیادہ فائر انجن، 60 طیارے اور 143 واٹر ٹینکر اس مشن میں شامل تھے۔ لیکن تیز ہواؤں اور خشک موسم کے باعث یہ کام انتہائی مشکل ثابت ہوا۔ فائر فائٹرز کو جان کی بازی لگاتے ہوئے کئی دنوں تک آگ بجھانے میں مصروف رہنا پڑا۔

شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے حکام نے ہنگامی حالت کا اعلان کیا اور انہیں فوری طور پر نقل مکانی کرنے کی ہدایت کی۔ تقریباً 2 لاکھ افراد کو اپنے گھروں سے نکل کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔ امدادی اداروں نے متاثرین کو خوراک، رہائش اور دیگر ضروریات فراہم کرنے کے لیے دن رات کام کیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی آگ سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔ سب سے پہلے، جنگلات کی دیکھ بھال اور ان میں جمع شدہ خشک مواد کو ہٹانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس کے علاوہ، جدید ٹیکنالوجی، جیسے کہ ڈرونز اور سیٹلائٹ، کا استعمال کرتے ہوئے آگ کا بروقت پتہ لگانے اور اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے، متبادل توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے اور جنگلات کی بحالی کے منصوبے شروع کرنے سے مستقبل میں ایسے واقعات کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، مقامی حکومتوں کو عوام میں آگاہی پیدا کرنی چاہیے کہ وہ جنگلاتی علاقوں میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع دیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی بات کی جائے تو یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، جس کے اثرات دنیا کے ہر کونے میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ گلوبل وارمنگ نے نہ صرف زمین کے درجہ حرارت کو بڑھا دیا ہے بلکہ ماحولیاتی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں زمین کے اوسط درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کا اثر برفانی علاقوں کے پگھلنے، سمندری سطح کے بڑھنے اور خشک سالی کے واقعات میں اضافہ کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔

لاس اینجلس کی جنگلاتی آگ کے پیچھے بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ گرمی کی شدت اور بارشوں کی کمی نے جنگلات کو جلنے کے لیے تیار مواد میں تبدیل کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، کیلیفورنیا میں 2020 سے 2025 کے دوران جنگلاتی آگ کے واقعات میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے، اور یہ اضافہ موسمیاتی تبدیلیوں کی براہ راست وجہ ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث جنگلاتی آگ کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ خشک سالی کے باعث پانی کی قلت بڑھ رہی ہے، جس سے زرعی پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے شہری علاقوں میں ہیٹ ویو کے واقعات کو بھی عام بنا دیا ہے۔ یہ ہیٹ ویوز نہ صرف انسانی صحت کے لیے خطرہ ہیں بلکہ بجلی کے نظام پر بھی دباؤ ڈالتی ہیں، کیونکہ کولنگ سسٹمز کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔ پیرس معاہدہ اس سلسلے میں ایک اہم قدم ہے، جس کا مقصد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا اور زمین کے درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنا ہے۔ لیکن اس معاہدے کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے تمام ممالک کو اپنے حصے کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔

جنگلات کی حفاظت کے لیے حکومتی سطح پر بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، جنگلاتی علاقوں میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، جیسے کہ خشک جھاڑیوں کی صفائی اور آگ کے خطرے کی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال۔ اس کے علاوہ، مقامی کمیونٹیز کو اس مسئلے کے حل میں شامل کیا جائے، تاکہ وہ اپنے علاقوں کی حفاظت کے لیے خود اقدامات کر سکیں۔

لاس اینجلس کی آگ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ابھی سے ان مسائل پر قابو پانے کے لیے کام نہیں کیا تو مستقبل میں اس قسم کی تباہیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جو نہ صرف انسانی زندگیوں بلکہ پوری زمین کے لیے نقصان دہ ہوں گی۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زمین کی حفاظت کے لیے اجتماعی طور پر کام کریں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ انفرادی سطح پر بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہر فرد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی چھوٹی سی کوششیں، جیسے کہ توانائی کی بچت، درخت لگانا اور پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنا، زمین کی حفاظت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اگر ہم سب مل کر کام کریں تو ہم مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور خوشحال دنیا چھوڑ سکتے ہیں

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں