Skip to content

خواتین اور سماجی بندشیں

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں  


عورت کو اکثر ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو سماج میں معمولی سمجھے جاتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ان  کی زندگی پر گہرے اثرات ڈال رہے ہوتے ہیں۔ کسی عورت کے لیے شوہر کا کھانا گرم کرنا یا موزے ڈھونڈنا کوئی مسئلہ نہیں ہے،  یہ بات درست ہے کہ ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے مناسب رشتہ ملے اور وہ ایک اچھی زندگی گزارے۔ اسی طرح، ڈوپٹہ سر پر لینے سے کسی عورت کی عزت میں کمی نہیں آتی بلکہ یہ اس کی اپنی مرضی اور سماجی اقدار کے تحت ہوتا ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورت کے اصل مسائل ان چیزوں سے کہیں زیادہ سنگین اور تکلیف دہ ہیں۔ عورت کو تیزاب گردی کا شکار بنانا ہمارے معاشرے میں ایک عام بات بن چکی ہے۔ کسی عورت کے چہرے کو ہمیشہ کے لیے بگاڑ دینا یا اس کی زندگی کو تباہ کرنا ایک ایسا ظلم ہے جسے برداشت کرنا کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں۔ اسی طرح، پسند کی شادی کرنے پر عورت کو قتل کر دینا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے سماج میں عورت کو اپنی مرضی سے جینے کا حق حاصل نہیں ہے۔

طلاق کے معاملے میں بھی عورت کی حیثیت محدود ہے۔ اگر وہ کسی ناپسندیدہ یا نامناسب رشتے سے علیحدگی چاہے تو اسے یہ آزادی نہیں دی جاتی۔ اسے ہر حال میں اپنے شوہر کی مرضی کے تابع رہنا پڑتا ہے، چاہے وہ رشتہ اس کی زندگی پر کتنا ہی منفی اثر کیوں نہ ڈال رہا ہو۔ رشتوں کے انتخاب کے معاملے میں بھی عورت کو محدود رکھا جاتا ہے؛ وہ اپنا رشتہ بھیجنے یا اپنی پسند کا اظہار کرنے کی جرات نہیں کر سکتی، کیونکہ اسے معاشرتی قدغنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جہیز کا مسئلہ بھی عورت کے لیے ایک بڑا دکھ ہے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اسے اپنی شادی کے وقت یہ بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ محلے کے بدمعاشوں کی شکایت کرنے سے عورت ڈرتی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کے خاندان کو شرمندگی اٹھانی پڑے گی اور شاید مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید بگڑ جائے۔

یہاں تک کہ اگر کسی مرد کی توجہ کسی عورت پر پڑ جائے، تو الزام ہمیشہ عورت پر لگایا جاتا ہے کہ اس نے مرد کو ورغلایا ہوگا۔ اس سوچ کا خاتمہ ہونا ضروری ہے، کیونکہ یہ نہ صرف عورت کی عزت کو مجروح کرتی ہے بلکہ معاشرے میں مردوں کے لیے بھی غلط پیغام دیتی ہے۔

تعلیم اور روزگار کے حوالے سے بھی عورت کو مسائل کا سامنا ہے۔ اگر وہ زیادہ تعلیم حاصل کرے تو اسے "عمر زیادہ ہونے” یا "دماغ خراب ہونے” کی دلیل بنا دیا جاتا ہے۔ اگر وہ کام کرے تو اس کے کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں، اور اگر وہ سوشل میڈیا پر موجود ہو تو اس کی موجودگی کو اس کی "دستیابی” کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

پسند کی شادی کرنا آج بھی عورت کے خاندان کے لیے بدنامی کا سبب سمجھا جاتا ہے۔ بھائیوں کی خاطر جائیداد میں حق چھوڑ کر خود کو "اچھی بہن” ثابت کرنا ہو یا ماں باپ کی عزت کی خاطر کسی مرد کی مار سہنا، یہ سب وہ مسائل ہیں جو عورت کو سماج کے دباؤ میں زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں۔

بیوہ یا مطلقہ عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے دوسرا رشتہ نہیں ملتا، اور اگر اس کے بچے ہوں تو ان کے لیے کوئی دستِ شفقت نہیں بڑھاتا۔ معاشرہ ان تمام مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے، اور یہی عورت کا سب سے بڑا دکھ ہے۔ جب تک ہمارے سماج میں عورت کو اس کے حقوق اور عزت نہیں دی جاتی، وہ ان مسائل کے بوجھ تلے دبتی رہے گی۔

یہ ضروری ہے کہ ہم بطور معاشرہ ان مسائل کو سمجھیں اور ان کے حل کے لیے کوشش کریں۔ عورت کو وہ عزت اور مقام دینا ضروری ہے جو وہ حق رکھتی ہے تاکہ وہ بھی ایک آزاد اور خوشحال زندگی گزار سکے۔ خواتین کی سماجی حیثیت ایک ایسا موضوع ہے جو صدیوں سے بحث کا مرکز رہا ہے، لیکن آج بھی ان کے ساتھ جڑی روایات اور توقعات ان کی زندگی کو محدود کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین سے ایسی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں جو اکثر ان کے حقوق اور آزادی پر قدغن بن جاتی ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں مسئلہ جہیز کی روایت ہے، جو نہ صرف خواتین بلکہ ان کے خاندانوں کے لیے بھی بوجھ کا باعث بنتی ہے۔

جہیز کی روایت اس حد تک جڑ پکڑ چکی ہے کہ شادی جیسے مقدس بندھن کو بھی مالی معاملات سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ خواتین، چاہے کتنی ہی تعلیم یافتہ اور خود مختار ہوں، ان کے لیے یہ لازمی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ قیمتی سامان اور دولت لائیں۔ اس کے بغیر انہیں سماج میں عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، اور ان کے خاندان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کے لیے بڑی مقدار میں جہیز فراہم کریں۔ یہ روایت نہ صرف خواتین کی خود مختاری کو کم کرتی ہے بلکہ ان کی صلاحیتوں اور قابلیت کو بھی پس پشت ڈال دیتی ہے۔

رشتے بھیجنے کے معاملے میں خواتین کو مزید مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام ہے کہ لڑکی اپنی پسند کا اظہار نہیں کر سکتی یا اپنی مرضی سے رشتہ نہیں بھیج سکتی۔ یہ عمل خاندان کی عزت اور سماجی حیثیت سے جوڑ دیا جاتا ہے، اور اگر کوئی لڑکی اس روایت کو توڑنے کی کوشش کرے تو اسے شرمندگی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ صورتحال خواتین کی زندگی میں ایک نفسیاتی دباؤ پیدا کرتی ہے، جہاں انہیں اپنی خواہشات کو دبانا پڑتا ہے اور ان کی زندگی کے اہم فیصلے دوسروں کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں۔

معاشرتی روایات کا اثر خواتین کی روزمرہ زندگی میں بھی نمایاں ہے۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر کے کام کاج کریں، بچوں کی پرورش کریں، اور اپنے خاندان کی خدمت کریں، جبکہ ان کی اپنی خواہشات اور خوابوں کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی خاتون تعلیم حاصل کرے یا ملازمت اختیار کرے، تو اسے اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کی کامیابیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

یہ روایات خواتین کو ایک محدود دائرے میں قید کر دیتی ہیں، جہاں وہ اپنی زندگی کے اہم فیصلے خود نہیں کر سکتیں۔ ان کے ہر عمل کو معاشرتی اصولوں کے مطابق پرکھا جاتا ہے، اور اگر وہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کریں تو انہیں تنقید، شرمندگی، اور بعض اوقات ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان روایات پر نظر ثانی کریں اور خواتین کو وہ آزادی اور عزت دیں جس کی وہ حق دار ہیں۔ خواتین کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دینا، ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنا، اور ان پر سے غیر ضروری سماجی دباؤ ہٹانا نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے تعلیم، روزگار، اور خودمختاری کے راستے پر کئی چیلنجز موجود ہیں، جنہیں اکثر سماجی روایات اور تعصبات کی وجہ سے مزید پیچیدہ بنا دیا جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ خواتین کو ایسے تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی قابلیت اور اہلیت کو کم کر دیتے ہیں، جبکہ ان کے روزگار اور ذاتی زندگی کے فیصلوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کے بارے میں یہ سوچ عام ہے کہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہو کر شادی کے لیے غیر موزوں ہو جاتی ہیں۔ ان کی عمر زیادہ ہونے کو ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے، اور بعض اوقات یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ زیادہ تعلیم ان کے خیالات کو "باغی” بنا دیتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف خواتین کی خودمختاری کو محدود کرتا ہے بلکہ ان کے خوابوں اور مقاصد کو بھی متاثر کرتا ہے۔ تعلیم کو ان کی شخصیت سنوارنے کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے اسے ایک بوجھ یا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔

روزگار کے حوالے سے بھی خواتین کو شدید تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی خاتون ملازمت کرتی ہے تو اسے بدکردار یا غیر ذمہ دار تصور کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کام کرنے والی خواتین گھر کے معاملات کو نظرانداز کرتی ہیں یا اپنے خاندان کی عزت کو داؤ پر لگاتی ہیں۔ یہ سوچ نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ کامیابیوں کو کم تر دکھاتی ہے بلکہ ان کے خاندان پر بھی دباؤ ڈالتی ہے کہ وہ خواتین کو کام کرنے سے روکیں۔ نتیجتاً، کئی خواتین اپنے کیریئر کو قربان کر دیتی ہیں تاکہ سماجی دباؤ سے بچ سکیں۔

پسند کی شادی کے معاملے میں خواتین کو ایک اور مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی خاتون اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے تو اسے خاندانی بدنامی کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پسند کی شادی خاندان کی روایات اور عزت کے خلاف ہے، اور ایسی خواتین کو خاندان اور معاشرے دونوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات یہ تنقید اتنی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ خواتین کو اپنے فیصلوں سے دستبردار ہونا پڑتا ہے یا انہیں سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ رویے نہ صرف خواتین کی زندگیوں کو محدود کرتے ہیں بلکہ معاشرے کی مجموعی ترقی میں بھی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ خواتین کی تعلیم اور روزگار کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ پسند کی شادی کو جرم سمجھنے کے بجائے اسے خواتین کے حقوق کا حصہ مانا جانا چاہیے۔ ایک بہتر اور ترقی یافتہ معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان تعصبات اور روایات کو ترک کریں جو خواتین کی خودمختاری اور عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں