حکومت خیبرپختونخوا نے کچھ عرصہ قبل ایک نئی پالیسی نافذ کی ہے جس سے مالی طور پر کمزور اور اپنے خاندان کو معاشی معاونت فراہم۔کرنے والے طلبا و طالبات اور ان کے خاندان بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، اس پالیسی کے نتائج کے خلاف میں پہلے بھی اپنی آواز بلند کر چکا ہوں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروا چکا ہوں۔ تاہم، آج مجھے محسوس ہوا کہ اس مسئلے پر دوبارہ بات کرنا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ اسی لیے میں نے ذیل میں چند نکات پیش کیے ہیں، جن کی روشنی میں حکومت سے میری اپیل ہے کہ وہ اس پالیسی پر نظرثانی کرے۔
یہ مسائل صرف میرے ذاتی نہیں ہیں بلکہ مانسہرہ کی تمام غریب خاندانوں کے ہیں۔ یہ ان طلبہ اور ان کے خاندانوں کا مسئلہ ہے جو پہلے ہی معاشی مشکلات اور وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ میری حکومت سے پُرزور اپیل ہے کہ ایسے طلبہ کے مسائل اور مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس فیصلے پر نظرثانی کی جائے تاکہ غریب خاندانوں اور طلبہ کی مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہو۔
۔ یہ فیصلہ ہمارے علاقے، معاشرے، اور لوگوں پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ ذیل میں ان اثرات کو مختصر مگر جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے:
نئی پالیسی:
پہلے کالجز کا آغاز صبح 8:20 پر ہوتا تھا اور چھٹی 12:40 پر ہوتی تھی، لیکن نئی پالیسی لاگو ہونے کے بعد اب کالج کا آغاز تو 8:20 پر ہی ہوتا ہے، مگر چھٹی کا وقت بڑھا کر 2:20 بجے کر دیا گیا ہے۔ اس اضافی وقت کی وجہ سے ہمیں کئی مشکلات کا سامنا ہے
- معاشی مسائل:
ہمارے علاقے کے زیادہ تر طلبہ پسماندہ اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ جز وقتی ملازمت کر کے اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں۔ کالجز کے طویل اوقات کی وجہ سے ان کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہو گئے ہیں، جس سے ان کے گھرانوں پر معاشی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ - تعلیمی مشکلات:
طلبہ جو اسکول یا کالج کے بعد تکنیکی یا پیشہ ورانہ کورسز میں داخلہ لیتے ہیں، وہ اب ان کورسز سے محروم ہو رہے ہیں کیونکہ ٹائم ٹیبل کی یہ تبدیلی ان کے روزمرہ کے شیڈول کو درہم برہم کر رہی ہے۔ نتیجتاً، ان کی تکنیکی مہارت اور مستقبل کے مواقع متاثر ہو رہے ہیں۔ - سماجی اثرات:
تعلیم کے ساتھ ساتھ، طلبہ کو اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی نبھانی ہوتی ہیں۔ تعلیمی ادارے میں طویل اوقات کار کے باعث وہ نہ صرف اپنے خاندان کے دیگر کاموں میں مدد دینے سے قاصر ہیں بلکہ ان کی سماجی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ - طلبہ کی ذہنی صحت:
اضافی وقت تک کالج میں موجود رہنا طلبہ پر ذہنی دباؤ ڈال رہا ہے۔ یہ ان کی کارکردگی اور تعلیمی نتائج پر منفی اثر ڈال سکتا ہے..
یہ فیصلہ ایسے علاقے میں، جو پہلے ہی وسائل کی کمی اور غربت کا شکار ہے، مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ میری حکومت اور متعلقہ اداروں سے اپیل ہے کہ وہ اس قانون پر دوبارہ غور کریں اور طلبہ کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر حکمت عملی اپنائیں۔