Skip to content

پاکستان میں تحقیق کی حقیقت

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں


پاکستان میں تحقیق، پی ایچ ڈی اور ایم فل کے پروگراموں کا معیار دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔ جہاں دنیا کے مختلف حصوں میں تحقیقی کام کو نہ صرف علمی سطح پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، بلکہ وہ حقیقی دنیا کے مسائل حل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے، وہاں پاکستان میں یہ سلسلہ محض ایک رسمی ضرورت بن کر رہ گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے ملک کے محققین اور گریجویٹس عالمی معیار کے مقابلے میں پیچھے ہیں، اور ان کے لیے عالمی سطح پر مقابلہ کرنا نہ صرف مشکل ہے، بلکہ اکثر بے سود بھی ثابت ہوتا ہے۔

پاکستان میں پی ایچ ڈی یا ایم فل کرنے کا مقصد زیادہ تر محض ایک ڈگری حاصل کرنا اور تعلیمی تقاضے پورے کرنا رہ گیا ہے۔ زیادہ تر طلباء یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ڈگری صرف ایک اسناد ہے جو انہیں سرکاری یا نجی ملازمتوں میں ایک بہتر مقام دلائے گی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ڈگریاں اکثریت کے لیے صرف کاغذی اعتبار سے اہم ہوتی ہیں اور ان کا عملی زندگی میں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ پاکستانی جامعات میں تحقیق کی روح کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا کم ہی نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے تحقیق کے اصل مقاصد پورے نہیں ہوتے۔

اس کے برعکس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریاں محض تعلیمی حیثیت نہیں، بلکہ سائنسی، صنعتی اور سماجی ترقی کے لیے ایک اہم اثاثہ سمجھی جاتی ہیں۔ ان ممالک میں تحقیق کو معاشرتی ضرورت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ہر تحقیقی منصوبہ کسی نہ کسی عملی مسئلے کا حل پیش کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں زیادہ تر تحقیق محض مقالے لکھنے تک محدود رہتی ہے اور ان میں کوئی نیا علم یا عملی حل پیش نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی محققین عالمی سطح پر مقابلہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

پاکستان میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کے پروگراموں کے دوران تحقیق کے معیار اور اس کی اہمیت پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ طلباء کو صرف مقالہ لکھنے کی تکنیک سکھائی جاتی ہے، اور ان کے لیے یہ سکھانا ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ تحقیق کا مقصد معاشرتی یا سائنسی ترقی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر محققین صرف ڈگری حاصل کرنے کے لیے تحقیق کرتے ہیں، اور ان کی تحقیق کا اثر نہ تو عالمی سطح پر محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی بڑے سائنسی یا صنعتی مسئلے کا حل پیش کرتی ہے۔ یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ پاکستانی پی ایچ ڈی اور ایم فل کے پروگرام صرف تعلیم کی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔

پاکستان میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریوں کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ان ڈگریوں کا بازار میں کوئی خاص طلب نہیں ہے۔ جب تک طالب علم تحقیق سے متعلق عملی تجربہ نہیں حاصل کرتا، اس کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے پی ایچ ڈی یا ایم فل کے فارغ التحصیل افراد کو اپنی تعلیم کے مطابق ملازمتیں نہیں مل پاتیں اور وہ دیگر معمولی ملازمتوں میں کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، دیگر ممالک میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں نہ صرف تحقیقی میدان میں اہمیت رکھتی ہیں، بلکہ وہ صنعتی ترقی اور کاروباری دنیا میں بھی ایک قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی ہیں۔

پاکستان میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریوں کا مقصد محض تعلیمی معیار کو بہتر بنانا نہیں، بلکہ معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے لیے تحقیق کرنا ہونا چاہیے۔ لیکن یہ حقیقت کہ پاکستانی محققین دنیا بھر میں مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ ہماری تحقیق کا معیار عالمی معیار سے بہت کم ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم تحقیق کے عمل کو محض تعلیمی تقاضوں کو پورا کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں، نہ کہ علم کی تخلیق یا دنیا کے مسائل کے حل کے طور پر۔ اس صورتحال کا سدباب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں تحقیق اور اعلیٰ تعلیم کے معیار کو عالمی سطح پر ہم آہنگ کیا جائے اور تحقیق کی اصل روح کو سمجھا جائے۔

نتیجتاً، پاکستانی پی ایچ ڈی اور ایم فل کے فارغ التحصیل افراد کو عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے درکار مہارتیں، وسائل اور تحقیق کے معیار کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ جب تک تحقیق کے معیار کو بہتر نہیں بنایا جائے گا، تب تک یہ ڈگریاں محض کاغذی سجاوٹ بن کر رہیں گی، اور پاکستانی طلباء عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کو صحیح طریقے سے نہیں منوا پائیں گے۔ پاکستان میں تحقیق، پی ایچ ڈی اور ایم فل کے پروگراموں کا معیار دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔ جہاں دنیا کے مختلف حصوں میں تحقیقی کام کو نہ صرف علمی سطح پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، بلکہ وہ حقیقی دنیا کے مسائل حل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے، وہاں پاکستان میں یہ سلسلہ محض ایک رسمی ضرورت بن کر رہ گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے ملک کے محققین اور گریجویٹس عالمی معیار کے مقابلے میں پیچھے ہیں، اور ان کے لیے عالمی سطح پر مقابلہ کرنا نہ صرف مشکل ہے، بلکہ اکثر بے سود بھی ثابت ہوتا ہے۔

پاکستان میں پی ایچ ڈی یا ایم فل کرنے کا مقصد زیادہ تر محض ایک ڈگری حاصل کرنا اور تعلیمی تقاضے پورے کرنا رہ گیا ہے۔ زیادہ تر طلباء یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ڈگری صرف ایک اسناد ہے جو انہیں سرکاری یا نجی ملازمتوں میں ایک بہتر مقام دلائے گی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ڈگریاں اکثریت کے لیے صرف کاغذی اعتبار سے اہم ہوتی ہیں اور ان کا عملی زندگی میں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ پاکستانی جامعات میں تحقیق کی روح کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا کم ہی نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے تحقیق کے اصل مقاصد پورے نہیں ہوتے۔

اس کے برعکس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریاں محض تعلیمی حیثیت نہیں، بلکہ سائنسی، صنعتی اور سماجی ترقی کے لیے ایک اہم اثاثہ سمجھی جاتی ہیں۔ ان ممالک میں تحقیق کو معاشرتی ضرورت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ہر تحقیقی منصوبہ کسی نہ کسی عملی مسئلے کا حل پیش کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں زیادہ تر تحقیق محض مقالے لکھنے تک محدود رہتی ہے اور ان میں کوئی نیا علم یا عملی حل پیش نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی محققین عالمی سطح پر مقابلہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

پاکستان میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کے پروگراموں کے دوران تحقیق کے معیار اور اس کی اہمیت پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ طلباء کو صرف مقالہ لکھنے کی تکنیک سکھائی جاتی ہے، اور ان کے لیے یہ سکھانا ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ تحقیق کا مقصد معاشرتی یا سائنسی ترقی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر محققین صرف ڈگری حاصل کرنے کے لیے تحقیق کرتے ہیں، اور ان کی تحقیق کا اثر نہ تو عالمی سطح پر محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی بڑے سائنسی یا صنعتی مسئلے کا حل پیش کرتی ہے۔ یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ پاکستانی پی ایچ ڈی اور ایم فل کے پروگرام صرف تعلیم کی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔

پاکستان میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریوں کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ان ڈگریوں کا بازار میں کوئی خاص طلب نہیں ہے۔ جب تک طالب علم تحقیق سے متعلق عملی تجربہ نہیں حاصل کرتا، اس کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے پی ایچ ڈی یا ایم فل کے فارغ التحصیل افراد کو اپنی تعلیم کے مطابق ملازمتیں نہیں مل پاتیں اور وہ دیگر معمولی ملازمتوں میں کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، دیگر ممالک میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں نہ صرف تحقیقی میدان میں اہمیت رکھتی ہیں، بلکہ وہ صنعتی ترقی اور کاروباری دنیا میں بھی ایک قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی ہیں۔

پاکستان میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریوں کا مقصد محض تعلیمی معیار کو بہتر بنانا نہیں، بلکہ معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے لیے تحقیق کرنا ہونا چاہیے۔ لیکن یہ حقیقت کہ پاکستانی محققین دنیا بھر میں مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ ہماری تحقیق کا معیار عالمی معیار سے بہت کم ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم تحقیق کے عمل کو محض تعلیمی تقاضوں کو پورا کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں، نہ کہ علم کی تخلیق یا دنیا کے مسائل کے حل کے طور پر۔ اس صورتحال کا سدباب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں تحقیق اور اعلیٰ تعلیم کے معیار کو عالمی سطح پر ہم آہنگ کیا جائے اور تحقیق کی اصل روح کو سمجھا جائے۔

نتیجتاً، پاکستانی پی ایچ ڈی اور ایم فل کے فارغ التحصیل افراد کو عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے درکار مہارتیں، وسائل اور تحقیق کے معیار کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ جب تک تحقیق کے معیار کو بہتر نہیں بنایا جائے گا، تب تک یہ ڈگریاں محض کاغذی سجاوٹ بن کر رہیں گی، اور پاکستانی طلباء عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کو صحیح طریقے سے نہیں منوا پائیں گے۔ پاکستان میں تحقیق کا مقصد زیادہ تر محض تعلیمی تقاضے پورے کرنا رہ گیا ہے۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طلباء کی اکثریت نہ تو تحقیق کے حقیقی مقصد کو سمجھتی ہے اور نہ ہی اس میں دلچسپی لیتی ہے۔ یہ سلسلہ محض رسمی طور پر چل رہا ہے جہاں نہ تحقیق میں جدت ہے اور نہ ہی کوئی عملی فوائد۔ پاکستان میں بننے والے تحقیقی منصوبے اور ایجادات اکثر بے مصرف ہوتی ہیں اور ان کا حقیقت میں کسی بھی معاشرتی یا سائنسی مسئلے کے حل میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ یہاں تحقیق کا عمل صرف ایک ڈگری حاصل کرنے کی رسم بن چکا ہے۔

پاکستانی جامعات میں تحقیق کے لیے بنیادی سہولیات کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تجربہ گاہیں خستہ حال ہیں، آلات اکثر خراب یا ناقص ہوتے ہیں، اور تحقیق کے لیے درکار فنڈز بہت محدود ہیں۔ ان حالات میں طلباء تحقیق کے عمل کو محض ایک بوجھ سمجھتے ہیں، اور ان کی ترجیح صرف ڈگری حاصل کرنا ہوتی ہے۔ اساتذہ کی اکثریت بھی صرف اس بات میں دلچسپی رکھتی ہے کہ ان کے طلباء کسی طرح فارغ التحصیل ہو جائیں تاکہ ان کے ڈیپارٹمنٹ کا ریکارڈ بہتر نظر آئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تحقیق کی اصل روح غائب ہو چکی ہے، اور یہ عمل محض رسمی تقاضوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

پاکستانی تعلیمی نظام میں رٹہ کلچر اور نقل و چسپاں کا رجحان بھی عام ہے۔ تحقیق کے دوران طالب علم نئے خیالات یا مسائل کے حل پیش کرنے کی بجائے موجودہ مواد کو دوبارہ ترتیب دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طالب علم اکثر تحقیق کے بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف ہوتے ہیں، اور ان کی تحقیق کا معیار نہایت ناقص ہوتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ طلباء اپنی تعلیم کے دوران ایک معیاری تحقیقی مقالہ لکھنے یا شائع کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور اکثر انگریزی زبان میں بھی روانی سے بات یا لکھنے سے قاصر ہوتے ہیں، حالانکہ ان کی تعلیم کی زبان انگریزی ہوتی ہے۔

جب ایسے طلباء ڈگری حاصل کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش کرتے ہیں، تو وہ ناکامی کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کی قابلیت عالمی یا مقامی معیار پر پورا نہیں اترتی، اور وہ ہمیشہ کسی "سفارش” یا کسی معاونت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ انہیں شکایت ہوتی ہے کہ ملازمتیں نہیں ملتیں یا مواقع فراہم نہیں کیے جاتے، لیکن وہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ان کی اپنی صلاحیتیں اور محنت ان مواقع کے حصول کے لیے ناکافی ہیں۔ یہ صورتحال پاکستانی تعلیمی نظام کی کمزوریوں کو اجاگر کرتی ہے، جہاں طلباء اور اساتذہ دونوں اپنے اپنے کردار کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

تحقیق کے لیے فنڈز کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں تحقیقی کام کو کبھی بھی حکومت یا اداروں کی جانب سے مناسب مالی معاونت فراہم نہیں کی گئی۔ زیادہ تر طلباء اپنے تحقیقی کام کے لیے ضروری وسائل کے بغیر کام کرتے ہیں، اور ان کی تحقیق کا معیار اسی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تحقیق کو ایک سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور طلباء کو جدید تجربہ گاہیں، وسائل اور ماہرین کی رہنمائی فراہم کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کی تحقیق کے نتائج دنیا کے مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

پاکستان میں موجودہ تحقیقی نظام میں جدت اور معیار کی کمی کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ طلباء تحقیق کو اپنی ذاتی دلچسپی اور شوق کی بجائے محض ایک مجبوری سمجھتے ہیں۔ انہیں تحقیق کے دوران کسی نئے علم کی تخلیق یا عملی مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں ہوتی، اور ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح ڈگری حاصل ہو جائے۔ اساتذہ بھی اس مسئلے کے حل کی بجائے اس نظام کا حصہ بن چکے ہیں، اور وہ طلباء کو اس وقت تک راہنمائی فراہم کرتے ہیں جب تک کہ وہ فارغ التحصیل نہ ہو جائیں۔ تحقیق کے دوران طلباء کی مہارتوں کو بہتر بنانے یا ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔

یہ سب مسائل مل کر پاکستانی تحقیقی نظام کو غیر معیاری بنا دیتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے طلباء اور محققین عالمی سطح پر مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ جب تک تحقیق کے معیار کو بہتر بنانے، فنڈز کی فراہمی، اور اساتذہ و طلباء کی ذہنیت میں تبدیلی نہیں کی جاتی، پاکستانی تحقیق صرف ایک رسمی تقاضے تک محدود رہے گی، اور اس کا حقیقی فائدہ کسی کو بھی نہیں ہوگا۔ پاکستان میں تحقیق اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بہت سی حقیقتیں اور چیلنجز موجود ہیں جو عام طور پر نظر انداز کیے جاتے ہیں۔ ایک طرف جہاں ملک نے تعلیم و تحقیق کے میدان میں کچھ اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہیں دوسری طرف یہ شعبے اس حد تک ترقی نہیں کر پائے ہیں جیسے وہ ہونے چاہیے تھے۔ خصوصاً جامعات میں تحقیقی کام اور لیبارٹریوں کی حقیقت انتہائی مایوس کن ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ بیشتر لوگ صرف ڈگریاں یا مقالے حاصل کرنے کو ہی تحقیق سمجھتے ہیں، جو کہ تحقیق کے اصل مقصد سے بہت دور ہے۔

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا معیار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے کافی پیچھے ہے۔ یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی زیادہ تر جامعات دنیا کی 500 بہترین جامعات میں شامل نہیں ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے تعلیمی اداروں میں تحقیق پر کم توجہ دینا ہے۔ حکومت اور جامعات کی طرف سے تحقیق کے لیے مختص بجٹ بھی بہت کم ہے۔ 2021 میں حکومت نے تحقیقی منصوبوں کے لیے 20 ارب روپے مختص کیے، جو کہ بہت کم ہیں جب کہ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں یہ بجٹ کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

پاکستان میں تحقیقی کام کے لیے درکار جدید آلات اور وسائل کی کمی ایک اور اہم مسئلہ ہے۔ بیشتر لیبارٹریاں ان جدید سازوسامان سے محروم ہیں جو دنیا بھر میں تحقیق کے معیار کو بلند کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس کے باوجود، طالب علموں اور محققین سے تحقیق کی توقعات رکھی جاتی ہیں، لیکن ان کو مطلوبہ سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں۔ جب تک تحقیق کے لیے ضروری وسائل فراہم نہیں کیے جاتے، ہم عالمی سطح پر تحقیقی معیار کو نہیں بہتر بنا سکتے۔

پاکستان میں زیادہ تر تحقیق کا مقصد عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کرنے کے بجائے محض مقالات اور ڈگریوں کا حصول ہوتا ہے۔ زیادہ تر محققین اور استاد اپنے کام کو صرف شائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے کریڈٹ میں اضافہ ہو، نہ کہ واقعی معاشرتی، سائنسی یا تعلیمی بہتری کے لیے کچھ نئی بصیرت فراہم کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زیادہ تر تحقیقی کام یا تو سطحی ہوتا ہے یا صرف "کاپی پیسٹ” پر مبنی ہوتا ہے، جس کا حقیقی دنیا پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

جامعات میں اکثر تحقیق کا معیار اس وجہ سے کم ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے صحیح رہنمائی اور تربیت فراہم نہیں کی جاتی۔ طالب علموں کو محض مقالہ لکھنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے، لیکن تحقیق کے گہرے مفہوم اور مقصد کے بارے میں انہیں کبھی مکمل آگاہی نہیں دی جاتی۔ نتیجتاً، طالب علموں کا خیال ہوتا ہے کہ تحقیق صرف مقالے لکھنے یا امتحان پاس کرنے کے لیے کی جاتی ہے، نہ کہ نئے علم کی تخلیق یا معاشرتی مسائل کا حل نکالنے کے لیے۔

اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ صرف ڈگری حاصل کر لینا یا مقالہ چھپوانا تحقیق کے حقیقی مقصد کو پورا نہیں کرتا۔ تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ دنیا میں کوئی نیا علم یا ترقی لائے جو لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنا سکے، نہ کہ صرف تعلیمی جملوں اور اشاعتی مقاصد کے لیے ہو۔ پاکستانی تعلیمی نظام میں تحقیق کی اصل روح کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

مزید یہ کہ پاکستان میں زیادہ تر تحقیق صرف ان موضوعات پر کی جاتی ہے جن میں مالی فائدہ ہو یا جو فوری طور پر حکومت یا صنعت کے لیے فائدہ مند ہوں۔ اس کے نتیجے میں بہت سے اہم سائنسی، سماجی یا ماحولیاتی موضوعات نظر انداز ہو جاتے ہیں، جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سب چیزوں کے باوجود، تحقیق کے شعبے میں موجود بہت سے محققین اپنی محنت اور لگن سے کام کر رہے ہیں، لیکن انہیں ضروری وسائل اور حمایت فراہم نہیں کی جاتی۔ یہ ہمارے تعلیمی اور تحقیقی نظام کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے، تاکہ یہ عالمی معیار کے مطابق ہو سکے۔ اگر ہم تحقیق کے حقیقی مقصد کو سمجھیں اور اسے معاشرتی ترقی کے لیے استعمال کریں، تو نہ صرف ہمارا تعلیمی معیار بلند ہو گا بلکہ ہمارے معاشرے میں بھی علمی ترقی ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تحقیق کے شعبے کے لیے مزید سرمایہ کاری کرے، جدید وسائل فراہم کرے، اور جامعات میں تحقیق کی اصل روح کو فروغ دے۔ اگر ہم صرف ڈگریاں اور مقالات حاصل کرنے کے بجائے، تحقیق کو اپنے معاشرتی مسائل حل کرنے کا ذریعہ بنائیں، تو ہم ایک روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں