Skip to content

پاکستان کا معاشی نظام اور اسلام

شیئر

شیئر

تحریر عباد سرور

جنگِ عظیم دوم کے بعد دنیا کے تمام نظام یکسر بدل گئے خواہ وہ سیاسی تھے سماجی تھے یا معاشی ۔ اس طرح بہت سی ریاستیں ٹوٹیں ، بہت سی وجود میں آئیں ، انہیں ریاستوں میں ایک نام اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی عملی جدوجہد کی بدولت معرض وجود میں آنے والی ریاست کے قیام کا نعرہ !

لا إله إلا الله، محمد رسول الله تھا ۔

اس نظریے کی بنیاد پر بننے والی ریاست کا مقصد اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانا اور ان پر عمل کرنا تھا ۔اگر ہم اس ریاست کے بنیادی نظریے یعنی کلمے کی تشریح و مفہوم کی تفسیر کو دیکھیں تو اس میں ہمیں واضح طور پرایک چیز کی کی نفی ملتی ہے ۔وہ یہ ہے کہ نہیں ہے کوئی معبود اللہ کے سوا اس سے مراد ہم نے تمام معبودوں کا انکار کیا ہماری سب عبادات ،معاملات اس ہدایات پر ہوں گی ۔جو ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ دی ہوئی کی تعلیمات سے ملتی ہیں۔

جیسے ہم نے اللہ کو ایک معبود مانا اس کی وحدانیت کا اقرار کیا تو ہم پر لازم ہےکہ ہم اپنی ریاست کے تمام نظام سیاسی ، سماجی اور اقتصادی نظام کو بھی ان کی دی ہوئی تعلیمات کے مطابق بنائیں ، اب دیکھتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کا اقتصادی نظام اسلام کے اقتصادی نظام جیسا ہے یا نہیں ؟ ریاست پاکستان کو بنے ہوئے تقریباً 76 برس گزر چکے ہیں۔ اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ اس ریاست کا پہلا بجٹ ہی خسارے میں پیش کیا گیا تھا ، اس کے بعد بھی ابھی تک پاکستان میں ہر سال پیش ہونے والا بجٹ خسارے میں ہی ہوتا ہے ۔کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اسکی کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟ ہمیں تو سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا ، موقع ملے بھی تو کیسے ؟ کیونکہ ہم دو وقت کی روٹی کمانے میں اتنے مصروف ہیں کہ ہمیں تو چاند پربھی روٹی دکھائی دیتی ہے۔

نوجوان اپنے اپنے رہنماؤں کے آلہ کاروں کی دن رات خوشامد اور ان کے قصیدے پڑھتے ہیں ، ہم نے اپنی سوچنے کی صلاحيت کو ہی کھو دیا ، ہم وہ مردہ قوم ہیں جو اپنے حق کے لیے سوال نہیں اٹھاتے بلکہ دوسروں کے گن گاتے ہیں، کبھی یہ سوچا کہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کا سیاسی نظام کس نظریے پر قائم ہے ؟ پھر اسی طرح معاشرتی و معاشی نظام پر کبھی غور کرنے کی زحمت نہیں کی ہو گی۔ اگر ہم دنیا کے معاشی نظاموں پر ایک نظر ڈالیں تو دو نظام ہمیں ملتے ہیں ایک ہے سرمایہ دارانہ نظام، capitalism* دوسرا اشتراکیت socialism ملتا ہے اور ان ہی سے ملتی جلتی تیسری شکل اشتمالیت communism کی ہے۔ ان سب میں ہمیں ذیادہ متحرک سرمادارانہ نظام یعنی capaitalism ہی پوری دنیا میں نظر آتا ہے ۔یہ ایک معاشی نظریہ تھا ۔آہستہ آہستہ اس نے سیاسی شکل اختیار کر لی اور آج اس پر دنیا کی بڑی بڑی ریاستیں کھڑی ہیں مثلاً
امریکہ ، روس ، وغیرہ دیکھتے ہیں اس نظام کے بنیادی اصول کیا ہیں؟

بنیادی مقصد یا اصول یہ ہیں (ہرانسان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ذاتی ملکیت اشیاء بھی رکھ سکتا ہے اور وسائل پیداوار بھی رکھ سکتا ہے ۔ اشتراکی نظام میں اگرچہ ذاتی استعمال کی اشیاء تو ذاتی ملکیت میں آسکتی ہیں لیکن وسائل پیداوار مثلاً زمین یا کار خانہ عموماً ذاتی ملکیت میں نہیں ہوتے البتہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر قسم کی چیز چاہیے وہ استعمالی اشیاء سے تعلق رکھتی ہو یا اشیائے پیداوار میں سے ہووہ ذاتی ملکیت میں آسکتی ہے ۔اس کا دوسرا اصول یہ ہے کہ حکومت کو تاجروں کی تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ان کی معاشی سرگر می میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہے)
(بحوالہ کتاب !اسلام اور جدیدیت معشیت و تجارت )
از امفتی تقی عثمانی

یہ سرمایہ داریت کے بنیادی اصول تھے ،بعد میں کچھ ترمیم بھی کی گی کہ حکومت کی پابندیاں ہوں گی، مگر یہ برائے نام ہی تھی کیونکہ حکومت میں وہی لوگ ہوتے جن کے پاس پہلے سے ہی سرمایہ ہوتا ہے۔ کیونکہ انتخابات میں حصہ لینا عام انسان کی دسترس سے باہر ہے ۔وہ قانون بھی اپنی مرضی کے ہی بناتے ہیں۔ جن سے ان کی دولت کو حفاظت ملے ،سرمایہ دارانہ نظام چونکہ قانون رسد و طلب law of demand nad supply کو مد نظر رکھتے ہوئے بات کرتا ہے۔ جب معاشرے میں کسی چیز کی طلب یعنی demand صنعت کار مہیا کرے گا رسد یعنی supply تو اس طرح معاشرہ چل جائے گا ،مگر اس نظریے کی مخالفت کی گی اس کی مد میں ایک دوسرا نظریہ آیا اشتراکیت۔ socialism یہ اس سے تھوڑا مختلف تھا ،اس میں صنعت کاروں کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے حق کی بھی بات کی گی مگر ان تمام نظاموں سے اسلام کی نظامِ معیشت یکسر مختلف ہے ۔ گر ہم اس کو قرآن یا حدیث کی روشنی میں دیکھیں تو واضح طور ہمیں سب سے پہلے سود کی نفی ملتی ہے سود اسلام میں حرام ہے اسی طرح ذخیرہ اندوزی ناجائز منافع خوری ،رشوت، بدعنوانی ، سود تمام برائیوں سے پاک اسلامی معشیت انفرادی مفاد کی بات نہیں کرتی بلکہ اجتماعی مفاد اور معاشرے کو کلی سطح پر فائدہ پہچانے کی ترغیب دیتی ہے۔ دولت کو چند ہاتھوں میں مخفوظ نہیں رہنے دیتی بلکہ یہ ہر فرد کی بات کرتی ہے ۔ دولت گردش کرے گی تو سب کو فائدہ پہنچے گا اگر ہم اسلامی معاشی نظام پر نظر ڈالیں تو ہمیں واضح طور پر مثالیں ملتی ہیں۔ ریاست مدینہ سے لے کر سترہویں ،اٹھارہویں صدی تک اسلامی معاشی نظام کے واضح ثبوت ملتے ہیں مثلاً
انگریز کی آمد سے پہلے ہندوستان کی ریاست جس کا حصہ پوری دنیا ٢٧فی صد تھا ۔ ہندوستان کے علاوہ اور اگر ہم تھوڑا پیچھے جائیں تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے ۔بنو امیہ ،بنو عباس ، اور بنو عثمان شامل ہیں یہ سب اپنے معاشی نظام میں مستحکم تھی ۔انہوں نے تاریخ میں مثال پیدا کی ہے۔ موجودہ دور میں ہمیں ایران میں اسلامی معشیت کے کچھ قوا نین ملتے ہیں جو باقی ممالک سے بہتر ہے ۔اسلامی معاشی نظام سے ملک و قوم کو کلی طور پر فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ یہ فردواحد کی بات نہیں کرتا اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا معاشرے میں انصاف قائم ہوتا ہے ۔اس کا مقصد معاشی لین دین میں مساوات کو یقینی بنانا معاشی معاملات میں نیک نامی ،سخاوت اور ہمدری کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ زکات صدقات کو قومی خزانے میں جمع کرکے غریبوں ،یتیموں ،اور ضروت مندوں تک پہچانا اقلیتوں سے جزیہ لے کر اسے قومی خزانے میں جمع کرنا سود کی ممانعت اور سود کی وصولی پر پابندیاں لگانا ، اس کا مقصد متوازن اور منصفانہ معشیت بنانا ہے۔ اس سے معاشرہ ترقی کرتا ہے ۔تمام شہریوں کو ان کے برابر حقوق دیے جاتے ہیں ۔

اس کے برعکس اگر دوسرے نظاموں کی بات کریں ،تو ان میں یہ چیزیں نہیں ملتیں وہ صرف ایک ہی طبقے کی بات کرتے ہیں وہ ہے سرمایہ دار ، نظام ان کی ترقی میں لگے رہتے ہیں، دوسرے انسانوں کا استحصال کرتے ہیں سرمایہ دارانہ نظام معشیت میں منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی حکومت کی طرف سے عائد کردہ ٹیکس غریب بھی ادا کرتا ہے ۔ جبکہ اسلامی نظام میں یہ چیز امیر ادا کرتا ہے۔ غیریب نہیں ، یہ بہت بڑا فرق ہے ۔ معاشرہ دو طبقات میں تقسیم ہوجاتا ہے امیر اور غر یب ، سرمایہ دارنہ نظام معشیت میں زیادہ توجہ منافع کو دی جاتی ہے ۔جس سے بہت سی اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں ۔ معاشرہ اخلاقی طور پر گر جاتا ہے ۔ اس نظام معشیت میں وہ خود کو محفوظ کرتے ہیں ،مزدور طبقہ اور عام عوام کے حقوق کو تحفظ نہیں دیا جاتا ۔ چیزیں انفرادی ملکیت میں ہوتی ہیں ۔ وہ اپنی مرضی سے سرمایہ لگاتے ہیں سرمایہ دار دن دگنی رات چگنی ترقی کررہا ہے۔ عام انسانوں کی کوئی بات ہی نہیں کرتا ملکیت فرد واحد کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کا معاشی نظام بھی ان کے ہی زیر تسلط کام کررہا ہے سرمایہ داروں کو تحفظ ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس نظام کے زیرسایہ کیسے ہے؟
اگر ہم پاکستان کے نظامِ معشیت کو دیکھیں تو سب سے پہلے یہاں سود پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔اگر کوئی بل پیش بھی کیا جاتا ہے تو اسکی منظوری نہیں ہوتی یہ سود ہی سب سے بڑی لعنت ہے۔ جس سے ہماری معشیت کا مکمل ڈھانچہ بگڑا ہوا ہے ۔ جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوگا ہم مزید پستی کی طرف جائیں گے۔دوسری وجہ اسلامی ریاست ہوتے ہوئے بھی زکواۃ کا محکمہ بھی برائے نام ہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت اس پر اتنی خاص توجہ ہی نہیں دیتی یہ حکومت کا کام ہے ،جو صاحب زکات ہیں ان سے زکات ، صدقات وصول کرے ، اول تو وصول ہی نہیں ہوتی اور اگر کچھ تھوڑی بہت ہوتی بھی ہے۔ تو وہ مستحق افراد تک نہیں جاتی ، اسے وہی لوگ آپس میں بانٹ لیتے جن کی رسائی ہوتی ہے ۔اگر کچھ حصہ غریبوں کو دیا بھی جاتا ہے تو وہ بھی ایک مکمل کاغذی کاروائی مکمل کرکے احسان چڑھا دیتے ہیں کہ ہم نے دیا ۔تیسری بڑی وجہ اقلیتوں سے جزیہ لینے کا کوئی انتظام نہیں سبھی ادارے بد عنوانی کا شکار ہیں ، اپنے فرائض احسن طریقے سے نہیں نبھا رہے آئے روز نت نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں سود، بدعنوانی ،رشوت ،ذخیرہ اندوزی عام ہے۔حکومت خود کو محفوظ کرنے اور ایک خاص طبقے کو فروغ دینے میں مصروف ہے دولت چند ہاتھوں میں رہ گئی ہے ۔جس سے معاشرہ طبقاتی تقسیم class system کا شکار ہو گیا ہے ۔

ایک اور بڑی وجہ پا کستان میں جاگیرداری نظام بھی ہے ۔پنجاب اور سندھ کے نوابوں اور جاگیردارں کے پاس بہت بڑا رقبہ ایسا ہے ۔جو کاشت نہیں کیا جاتا وہ ان کی ذاتی ملکیت میں ہے اگر وہ کاشت بھی کرتے ہیں ،تو صرف اتنی ہی فصل اگائی جاتی ہے ۔جس سے ان کی عیاشیاں ہو جائیں جبکہ یہ ملک و قوم کے ساتھ ظلم ہے ۔چاہے تو یہ کہ قابل کاشت زمین میں فصل اگائی جائے جتنی ریاست کی ضرورت ہے اسے مارکیٹ میں لایا جاے باقی سے زرمبادلہ کیا جائے تاکہ ملک کو فائدہ ہو ،مگر یہاں جاگیردار ایسا نہیں کرتے بلکہ غریبوں کی زمینوں پر بھی قبضہ جما لیتے ہیں، اور یہ ہی طبقاتی تقسیم زوال کا سبب ہے ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ مقروض ہے ۔

ایک طرف مزدور دار طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے نام نہاد رہنماؤں کی عیاشیاں ختم نہیں ہوتی مغرب اور روس کا بنایا ہوا معاشی نظام صرف فرد واحد کی ترقی کی بات کر رہا ہے وہ کلی طور پر سماج کی ترقی کا متمنی نہیں ہے۔ ہماری بینک کانظام بھی سب کے سامنے ہے جو سود پہ چلتا ہے، سود پر قرضہ دیتا ہے ۔جب ملک کی معشیت کی بنیاد ہی سود پر ہوگی تو ملک کیسے اسلامی ہو سکتا ہے ؟ آئے روز ہماری حکومت عوام پر نئے نئے ٹیکس عائد کر رہی ہے۔اور اس سودی و فرعونی نظام کو اور ذیاده مستحکم بنانے کے کے بلز پاس کر رہی ہے۔ ملک دن بدن مزید زوال کی طرف جارہا ہے۔ ہر حکومت پستی کا موردِالزام پچھلی حکومت کو ٹھہرا رہی ہے۔میر ا ہر باشعور فرد سے سوال ہے ۔
کیا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے؟

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں