ہر سال 10 دسمبر کو دنیا بھر میں یوم حقوق انسان منایا جاتا ہے تاکہ 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی منظوری کو عزت دی جائے۔ یہ دن بنیادی حقوق اور آزادیوں کی یاد دہانی کے طور پرمنایا جاتا ہے جن کا ہر انسان کو، اس کے وطن، نسل یا مذہب سے قطع نظر، حق حاصل ہے۔ پاکستان کے تناظر میں، انسانی حقوق با بین الاقومای دن ایک موقع فراہم کرتا ہے تاکہ ملک کی انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ میں کی جانے والی پیش رفت کے ساتھ ساتھ درپیش چیلنجز پر بھی غور کیا جا سکے۔
پاکستان میں حقوق انسان: ایک تاریخی جائزہ
پاکستان کا انسانی حقوق کا سفر پیچیدہ اور اکثرمسائل سے بھرپور رہا ہے۔ پاکستان 1947 میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے پناہ گاہ فراہم کرنے کے وژن کے تحت قائم ہوا تھا۔ تاہم، اس کی تشکیل کے بعد سے ہی پاکستان کو سیاسی عدم استحکام، غیر جمہوری قوتوں کی مداخلتوں، فرقہ وارانہ تشدد، اور مختلف نسلی، مذہبی اور ثقافتی پس منظر رکھنے والی متنوع آبادی کو یکجا کرنے کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔
آغاز میں حکومت نے انسانی حقوق کے فروغ کے لیے اقدامات کیے، جن میں آئین میں بنیادی حقوق کو شامل کرنا شامل تھا۔ تاہم، حقیقت میں مختلف شعبوں میں حقوق کی خلاف ورزیاں اکثر نظر آتی رہی ہیں۔
پاکستان میں حقوق انسان کے اہم مسائل
اظہار رائے اور صحافت کی آزادی:پاکستان میں ایک اہم انسانی حقوق کا مسئلہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن ہے۔ صحافیوں، کارکنوں، سول سوسائٹی اور حکومت کے نقادوں کو اکثر ہراسانی، دھمکیوں، غیر قانونی قانونی شکنجوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ برسوں میں میڈیا اور سول سوسائٹی کے اداروں پر ریاست کا بڑھتا ہوا کنٹرول اور اختلافی آوازوں کا تعاقب آزادی اظہار کے لیے خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مذہبی و مسالک کی آزادی:پاکستان میں مختلف مذہب کے ماننے والے بستے ہیں، جن میں مسیحی ، ہندو ،سکھ اور دوسرے مذاہب کے لوگ شامل ہیں، جب کہ مسلمان اکثریت میں ہیں۔ تاہم، ملک کو ہر دور میں مذہباور مسالک کی عدم برداشت جیسے مسائل کا سامنا رہا ہے، اور مذہبی اقلیتوں ، نسلی قلیتوں اور مسلکی اقلیتی گروہوں پر تشدد کے حملے انسانی حقوق کے لیے سنگین مسائل ہیں۔
صنفی مساوات: اگرچہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی دفعات موجود ہیں، جن میں تعلیم اور روزگار تک رسائی شامل ہے، لیکن پاکستان میں خواتین کو گھریلو تشدد، عزت کے نام پر قتل، اور سیاسی نمائندگی میں کمی جیسے متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ آئین کے 18ویں ترمیم نے خواتین کو مزید حقوق دیے، لیکن ثقافتی اور سماجی روایات، اور قوانین کے کمزور نفاذ کے باعث جنس کی مساوات کے مکمل حصول میں رکاوٹیں موجود ہیں۔ٹرانس جینڈر کے حقوق کی جنگ ابھی عوامی مکالمہ بازی اور پالیسی کے مراحل طے کر رہی ہے۔
بچوں کے حقوق اور تعلیم:بچوں کے حقوق، بشمول تعلیم تک رسائی اور بدسلوکی اور بڑھتے ہوئے جنسی تشددسے تحفظ سنگین مسائل ہیں۔ اگرچہ پاکستان نے خواندگی کی شرح اور بچوں کی فلاح و بہبود میں پیش رفت کی ہے، لیکن لاکھوں بچے اب بھی معیاری تعلیم سے محروم ہیں۔ خاص طور پر دیہی اور پسماندہ علاقوں میں بچوں کا سکول سے ڈراپ آوٹ اور مزدوری ایک بڑا مسئلہ ہے جو کئی پاکستانی بچوں کے مستقبل کو متاثر کرتا ہے۔
مجبوراً بے گھر افراد اور پناہ گزینوں کا مسئلہ:افغانستان میں جاری تنازعے کی وجہ سے پاکستان میں ایک بڑا پناہ گزینی بحران ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں افغان پناہ گزین دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ ان کے حقوق کو خطرات لاحق ہیں، اور انہیں اکثر امتیازی سلوک، صحت کی دیکھ بھال، اور تعلیم تک محدود رسائی کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی طرح، پاکستانپر بے گھر افراد کوناقص رہائشی حالات اور بنیادی سہولتوں کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔
سیاسی آزادی اور جمہوریت: پاکستان میں سیاسی حقوق بھی ہمیشہ دباؤ میں رہے ہیں، اور غیر جمہوی حکمرانی کے ادوار نے جمہوری عمل کو خاصانقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں، لیکن غیر جانبدار نٹ ورک اور مبصریں کی رپورٹ اور رائے کے مطابق انتخابات میں دھونس دھاندلی، پیسے کا بے دریغ استعمال، ووٹرز کو دباؤ میں لانا، اور سیاسی جماعتوں کے قیام کی آزادی پر خدشات موجود ہیں۔ جمہوری اداروں کی کمزوری نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جنم دیا ہے، جس میں باری باری سیاسی اپوزیشن کے اراکین کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرنا اور ماورائے عدالت گرفتاریاں بھی شامل ہیں۔
حقوق انسان میں پیش رفت: مثبت ترقی
ان تمام مسائل کے باوجود، پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کی جانب اہم قدم اٹھائے گئے ہیں
آئینی تحفظات: پاکستان کا آئین بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، جن میں زندگی، آزادی اور وقار کا حق شامل ہیں۔ خواتین کے حقوق کو فروغ دینے کے لیے "اینٹی ویمن پریکٹسز ایکٹ” (2011) اور "گھریلو تشدد (تحفظ و پیشگی) ایکٹ” (2012) جیسے قانونی فریم ورک اہم سنگ میل ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عوامی پیروی: سول سوسائٹی کی تنظیمیں، بشمول ویلفیئر ایسوسی ایشن جرید نے پسماندہ کمیونٹیز کے حقوق کے لیے پیروہی کرنے میں تین دہائیوں سے سرگرم عمل ہیں یہ تنظیمیں انسانی، جمہوری، ماحولیاتی اور دیگر حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہی بڑھانے، قانونی امداد فراہم کرنے، اور احتساب کے لیے کام کر رہی ہیں۔
عدالتی سرگرمی: پاکستان کی عدلیہ نے خاص طور پر بعض چیف جسٹس صاحبان کی قیادت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دور کرنے کے لیے فعال اقدامات کیے ہیں۔ بچوں کی مزدوری، زبردستی تبدیلی مذہب، اور پولیس کے ظلم کے متعلق اہم فیصلے عدلیہ کے حقوق کے تحفظ میں بڑھتی ہوئی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
بین الاقوامی تعلقات: پاکستان نے کئی بین الاقوامی انسانی حقوق کے کنونشنز کی توثیق کی ہے اور اقوام متحدہ کے "یونیورسل پیریاڈک ریویومیکانزم”کا حصہ ہے۔ یہ تعلقات پاکستان کو انسانی حقوق کی پالیسیوں کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔پاکستان خود بھی یونیورسل پیریاڈک ریویو سے گذرتا ہے اور گروپ کی شکل میں دیگر ممالک کے ریویو کا حصہ بھی بنتا ہے۔
پاکستان میں یوم حقوق انسان کا کردار
انسانی حقوق کا بین الاقوامی دن پاکستان کے لیے ایک اہم یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے تاکہ وہ اپنے انسانی حقوق کے وعدوں کو پورا کرے۔ یہ حکومت، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی کمیونٹی کے لیے ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں کی جانے والی پیش رفت پر غور کریں اور کمزور افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی کوششوں کو دوبارہ شروع کریں۔
حالیہ برسوں میں، پاکستان میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی دن پرسول سوسائٹی کی تنظیمیں مختلف گروہوں سے ملکر تقریبات جیسے ریلیوں، کانفرنسوں اور میڈیا کی سرگرمیوںانسانی حقوق کے مسائل کے بارے میں آگاہی پیدا کی جا سکے۔ ایسی تنظیمیں جیسےکا انعقاد کرتی ہیں تا کہ انسانی حقوق کے کام کو اجاگرکیا سکے ، اور خاص طور پر ان شعبوں میں ے صنفی مساوات، قدرتی آفات اور پناہ گزینوں کے حقوقمتعلق کے ساتھ ساتھ دیگر حقوق کے لئے بھی کوشاں ہیں
آگے کا راستہ: حقوق انسان کے بہتر تحفظ کی جانب
اگرچہ حقوق کے حصول میں خاصی قانونی پیش رفت ہوئی ہے، لیکن ابھی بھی طویل راستہ طے کرنا باقی ہے۔ پاکستانی حکومت کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے، اقلیتی گروپوں کے حقوق کا تحفظ کرنے، اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی پختہ عزم کو مضبوط کرنا ہوگا۔ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں، نیز میڈیا، اصلاحات کے لیے دباؤ ڈالنے اور حکام کو جواب دہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔
آخرکار، پاکستان میں یوم حقوق انسان نہ صرف کامیابیوں کا جشن منانے کے طور پر، بلکہ ایک ایسا نعرہ ہے جو انسانوں کے حقوق کے احترام اور حفاظت کے لیے ایک بہتر معاشرے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی جدوجہد جاری ہے، اور یہ اجتماعی کوششوں، عزم، اور ایک منصفانہ معاشرہ بنانے کی خواہش کا ذریعے ہے کہ پاکستان تمام افراد کے انسانی وقار کی حفاظت کر سکے گا۔
مختار جاوید ایک سماجی و ماحولیاتی کارکن
ایگزیکٹو ڈائیریکٹر واج، ، چیئر پرسن فا فن
ایگزیکٹو ممبر این ایچ این، سن سی ایس اے نیوٹریشن نیٹ ورک پاکستان
،ممبر ، ، سٹارٹ گلوبل نیٹ ورک ر یڈی پاکستان،اور خیبر پختونخواہ فارسٹری راونڈ ٹیبل