Skip to content

کُج جَندر ٹِہلے تے کُج دانڑیں سِنے

شیئر

شیئر

کنعانِ آرزو/بلال اشفاق

کوئی بھی ملک یا قوم چاہے وہ کتنی ہی ترقی یافتہ ، مہذب اور سلجھی ہوئی کیوں نہ،ایسا ممکن نہیں کہ وہ سو فیصد اپنی زندگی ، روزمرہ معمولات سے مطمئن ہو یا دیگر اقوام اُس سے سو فیصد مطمئن ہوں۔ یہ قانون فطرت ہے کہ انسان کا گزر بسر چاہے کتنی ہی آسائشوں میں کیوں نہ ہو رہا ہو، وہ مزید بہتری اور سہولیات کا خواہاں ہوتا ہے ۔ مسائل ، بیماری یا پریشانی میں گھِرا شخص تو ویسے ہی اُن سے نجات اور اس صورتحال سے خلاصی کا متمنی ہوتا ہے لیکن جسے رب کریم نے بے شمار دنیاوی نعمتوں سے نوازا ہو وہ بھی یکسانیت سے اُکتا جاتا ہے اور تبدیلی چاہتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ معاشی، سیاسی اور امن وامان کی صورتحال زیادہ قابلِ رشک نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج، اُس سے نمٹنے کیلئے حکومت کی سیاسی حکمت عملی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے ملک کے اندر خاصی افراتفری پھیلائی۔ پہلے راستوں کی بندش سے آمدورفت، کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے سے نہ صرف ملکی معیشت پر بدترین اثرات مرتب ہوئے بلکہ عوام کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گوکہ اب صورت حال خاصی بہتر ہو گئی ہے اور مختلف شہروں کے درمیان آمدورفت کیلئے موٹر ویز اور دیگر راستے بھی بحال کر دیے گئے لیکن ابھی تک الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل اور پرنٹ میڈیا پر پی ٹی آئی اور حکومت کی کارروائیوں کے حوالے بحث و مباحثے جاری ہیں۔
حکومت اور اس کے حامیوں کی طرف سے تحریک انصاف کے احتجاجیوں کو پسپا کرنے کو بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے ۔اس وقت حکومتی وزراء کے تقریباً تمام بیانات ہی پی ٹی آئی کے احتجاج اور سیکورٹی فورسز کے آپریشن سے متعلق ہی ہوتے ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف اور اُس کی حمایت کرنے والی جماعتوں اور افراد کی طرف سے سیکورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران سینکڑوں افراد کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور اسے حکومتی بزدلی اور دھوکہ دہی قرار دیا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ دن کی روشنی میں حکومتی مشینری تحریک انصاف کے احتجاجیوں کے سامنے نہ ٹھہر سکی اور وہ رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح حملہ آور ہوئی۔
یہ دعوے اور الزامات اپنی جگہ لیکن صورت جو بھی ہے وہ کسی طرح بھی ملک، حکومت اور تحریک انصاف کے حق میں نہیں۔ اسے کوئی بھی فریق دوسرے کی شکست قرار دے کر خود کو فاتح نہیں ٹھہرا سکتا۔ ہر دو صورت میں یہ ملک ، عوام ، حکمران سیاسی جماعت اور حزب اختلاف کے خلاف جاتی ہے۔ اگر فی الوقت کوئی اسے اپنی فتح سمجھتا بھی ہے تو اسے اس کا انجام تھوڑے وقت کے بعد معلوم ہو گا۔
ایک طرف حکمران اور اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے سیکورٹی اہلکاروں کے آپریشن پر تنقید کی جا رہی ہے تو دوسری جانب خیبر پختونخوا سمیت مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں احتجاج کیلئے اسلام آباد آنے والے افراد میں بھی تحریک انصاف کی قیادت کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ خیبرپختونخوا سے آنے والے متعدد احتجاجی مظاہرین جو اپنے روزمرہ کام چھوڑ کر ذاتی اخراجات پر اسلام آباد پہنچے ، سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں زخمی بھی ہوئے اور گرفتاریاں بھی پیش کیں، وہ بھی پارٹی کے بانی عمران خان کے علاوہ دیگر قیادت بارے شکوک و شبہات کا شکار ہیں ۔ اُن کا یہ کہنا ہے کہ جب پارٹی قیادت کے اپنے اندر اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ احتجاج کو لیڈ کر سکے تو اُنہوں نے ورکرز کو قربانی کا بکرا کیوں بنایا اور خود محفوظ راستہ اپنایا۔ گوکہ علاقائی سطح پر کسی مرکزی رہنما کی جانب سے پارٹی سے علیحدگی کا ابھی کوئی پیغام نہیں آیا لیکن سوشل میڈیا پر احتجاج سے واپس جانے والے متعدد افراد نے پارٹی کی پالیسی سے بددل ہو کر تحریک انصاف کے ساتھ راہیں جدا کر لی ہیں۔
اس ساری تفصیل کے بعد اصل بات جو کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ ایسا نہیں پاکستانی عوام میں استعداد اور توانائی کی کمی ہے ۔ دوسری جانب ایسا بھی نہیں پاکستانی لیڈر شپ بھی قیادت کی صلاحیتوں سے محروم ہے ۔ لیکن ہندکو محاورے : ”کُج جندر ٹہلے تے کُج دانڑیں سنے” کے مصداق معاملہ یہ ہے کہ اول تو پاکستانی عوام کو قیادت کرنے والا کوئی ایسا خیرخواہ حکمران ہی نہیں میسر آتا جو اُن کی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں استعمال کر سکے ۔ اگر کوئی قائدانہ صلاحیت کا مالک رہنما میسر بھی آ جائے تو یا تو عوام اُس کی پیروی پر رضامندنہیں ہوتے یا دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے جانب سے اُسے کام کرنے کا موقع نہیںدیاجاتا کیونکہ ایسی صورت میں اُن کی ”تھانیداری” ختم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس صورتحال کے باعث مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گمبھیر ہوتے چلے جاتے ہیں اور عوام اپنے ان نام نہاد رہنمائوں کی محبت میں اندھے ہو کر اپنی عقل کا استعمال چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔
اگر کوئی ملک اور قوم کی بات کرتا بھی ہے تو عوام اُس کی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ووٹ دیتے وقت سیاسی وابستگی ، برادری ، علاقائیت، قومیت ، لسانیت اور وقتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے بعد میں وجود آنے والے ممالک بھی معاشی اور سیاسی طور پر اس سے کہیں آگے پہنچ گئے ہیں اور ہم ”پانی میں مدھانی ” چلانے کے مصداق محض وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں حاصل نہیں کر پائے ہیں۔اب بھی اگر ہم نے اپنی نادانیوں سے سبق نہ سیکھا تو موجودہ صورتحال کے تناظر میں ملک اور قوم بقاء کے مسئلے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں