ڈاکٹر جزبیہ شیریں-چین
ٹیلی ویژن کا آغاز 1927 میں ہوا جب فلولو ٹیلر فرانس ورتھ نے پہلی بار ایک مکمل الیکٹرانک ٹیلی ویژن نظام ایجاد کیا۔ 1930 کی دہائی میں بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن عام ہونا شروع ہوا، اور لوگوں کو گھروں میں خبریں، تفریح اور دیگر مواد دیکھنے کا موقع ملا۔ 1953 میں امریکہ میں پہلی بار کلر ٹیلی ویژن متعارف ہوا، جس نے نشریات کی دنیا میں ایک نئی جدت کا اضافہ کیا۔
1996 میں اقوام متحدہ نے ورلڈ ٹیلی ویژن ڈے کا اعلان کیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد ٹیلی ویژن کے ذریعے عالمی امن، ترقی اور تعلیم کے فروغ کو اجاگر کرنا تھا۔ ٹیلی ویژن نے نہ صرف خبروں اور تفریح کا ذریعہ فراہم کیا بلکہ دنیا کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس دن کی بنیاد 21 نومبر 1996 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں رکھی گئی، جب یہ تسلیم کیا گیا کہ ٹیلی ویژن لوگوں کی رائے اور خیالات کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ٹیلی ویژن کی ابتدا بلیک اینڈ وائٹ نشریات سے ہوئی۔ اس دور میں یہ ایک مہنگی اور محدود سہولت تھی جو صرف امیروں کے لیے دستیاب تھی۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں کلر ٹیلی ویژن کی ایجاد نے اس شعبے میں انقلاب برپا کر دیا۔ کلر ٹیلی ویژن کے آنے سے فلموں، ڈراموں اور کھیلوں کی نشریات زیادہ جاندار اور دلکش بن گئیں۔
آج ٹیلی ویژن دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے ذرائع ابلاغ میں سے ایک ہے۔ یہ نہ صرف تفریح کا ذریعہ ہے بلکہ تعلیم، خبروں اور شعور پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ورلڈ ٹیلی ویژن ڈے ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ یہ آلہ دنیا کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور مثبت تبدیلی کے لیے ایک مضبوط وسیلہ ہے۔ ٹیلی ویژن کا تعارف برصغیر میں 1959 میں ہوا جب بھارت میں پہلی بار دہلی میں ٹیلی ویژن کی نشریات کا آغاز کیا گیا۔ اس وقت یہ ایک تجرباتی مرحلہ تھا، اور اس کا مقصد تعلیم اور معلومات فراہم کرنا تھا۔ 1970 کی دہائی تک بھارت میں ٹیلی ویژن عام ہو چکا تھا، اور کلر ٹیلی ویژن 1982 میں متعارف ہوا، جو خاص طور پر ایشین گیمز کی نشریات کے لیے پیش کیا گیا تھا۔
پاکستان میں ٹیلی ویژن کی ابتدا 26 نومبر 1964 کو لاہور سے ہوئی، جب پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن (پی ٹی وی) نے اپنی پہلی نشریات شروع کیں۔ یہ نشریات محدود تھیں اور ابتدائی طور پر صرف چند گھنٹے کے لیے ہوتی تھیں۔ 1967 میں کراچی اور راولپنڈی میں بھی ٹیلی ویژن اسٹیشنز قائم کیے گئے، اور 1970 کی دہائی تک پی ٹی وی پورے ملک میں اپنی نشریات کا دائرہ وسیع کر چکا تھا۔ کلر ٹیلی ویژن پاکستان میں 1980 کی دہائی میں آیا، جس نے ناظرین کے تجربے کو بہت بہتر بنایا اور تفریح کو ایک نئی جہت دی۔
ٹیلی ویژن نے دنیا بھر میں بے پناہ اہمیت حاصل کی ہے۔ یہ صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ تعلیم، معلومات، اور ثقافتی تبادلے کا بھی اہم وسیلہ ہے۔ خبروں کی فوری ترسیل سے لے کر عالمی مسائل پر شعور اجاگر کرنے تک، ٹیلی ویژن نے انسانی زندگی کے ہر پہلو پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اس نے لوگوں کو دنیا کے دیگر حصوں کی ثقافتوں، رسم و رواج، اور مسائل سے روشناس کرایا ہے اور عالمی سطح پر لوگوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان میں ٹیلی ویژن کی اہمیت کئی پہلوؤں سے نمایاں ہے۔ یہ نہ صرف تفریح اور معلومات کا ذریعہ ہے بلکہ قومی شعور اجاگر کرنے اور معاشرتی مسائل پر بات چیت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ پی ٹی وی کے مشہور ڈرامے، خبریں، اور تعلیمی پروگرامز نے عوامی شعور بیدار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خاص طور پر زلزلے یا سیلاب جیسے قدرتی آفات کے دوران، ٹیلی ویژن نے عوام تک فوری معلومات پہنچانے اور امدادی سرگرمیوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
آج کے دور میں، ٹیلی ویژن نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا اور انٹرنیٹ کے باوجود، ٹیلی ویژن اب بھی خبریں، تفریح، اور تعلیم فراہم کرنے کے لیے ایک قابلِ اعتبار ذریعہ ہے۔ پاکستان میں بھی یہ ایک طاقتور پلیٹ فارم ہے جو سماجی مسائل پر شعور اجاگر کرنے، قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے، اور عوام کو باخبر رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آج کے دور میں ٹیلی ویژن دنیا بھر میں معلومات، تعلیم اور تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تاہم، اس کی طاقت کے ساتھ ذمہ داری کا احساس بھی لازم ہے۔ اس سال ورلڈ ٹیلی ویژن ڈے کی تھیم "معیاری پروگراموں کی وکالت” ہمیں اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے پروگرام اخلاقیات، معیاری صحافت اور ذمہ داری کے اصولوں پر مبنی ہونے چاہئیں۔ یہ اصول نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ پاکستان کے موجودہ حالات میں بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں آج کل مختلف چینلز کام کر رہے ہیں، جن میں خبروں، ڈراموں، اور تفریحی پروگراموں کی بھرمار ہے۔ اگرچہ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے کہ عوام کو متنوع مواد فراہم کیا جا رہا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زیادہ تر چینلز اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ خبروں میں غیر جانبداری کا فقدان واضح ہے، اور کئی چینلز ایک مخصوص سیاسی جماعت یا نظریے کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ نتیجتاً، عوام کو حقائق کے بجائے رائے یا پروپیگنڈہ فراہم کیا جاتا ہے، جس سے سچائی اور اعتماد متاثر ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ، ریٹنگز کی دوڑ نے مواد کے معیار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ تفریحی پروگراموں میں ایسے موضوعات پر توجہ دی جا رہی ہے جو عوام کی دلچسپی کو تو جیت لیتے ہیں لیکن ان کے اخلاقی اور سماجی اثرات کو نظرانداز کرتے ہیں۔ خبروں میں بھی بریکنگ نیوز اور سنسنی خیز رپورٹس کی بھرمار ہوتی ہے، جس کا مقصد صرف زیادہ سے زیادہ ناظرین حاصل کرنا ہوتا ہے۔ صحافت کے بنیادی اصول، جیسے غیر جانبداری، حقائق کی تصدیق، اور عوامی مفاد، اکثر پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
آج کے پاکستان میں میڈیا کو اس طاقتور پلیٹ فارم کو ایک ذمہ دارانہ طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے پروگراموں کی وکالت کرنی چاہیے جو نہ صرف عوام کو تفریح فراہم کریں بلکہ ان کی تعلیم و تربیت اور شعور بیدار کرنے میں بھی مددگار ہوں۔ خاص طور پر نیوز چینلز کو چاہیے کہ وہ غیر جانبداری کے اصول پر عمل کریں اور ہر خبر کو درست اور غیر متعصبانہ طریقے سے پیش کریں۔ صحافت عوامی خدمت ہے، اور اسے کسی مخصوص جماعت یا نظریے کی تشہیر کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔
ورلڈ ٹیلی ویژن ڈے ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ٹیلی ویژن کا اصل مقصد عوام کو معیاری معلومات اور تفریح فراہم کرنا ہے، نہ کہ ریٹنگز یا ایجنڈے کے تحت کام کرنا۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے، ہمیں اس طاقت کو مثبت تبدیلی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اگر میڈیا غیر جانبدار اور معیاری صحافت کے اصولوں پر عمل کرے تو یہ نہ صرف عوام کا اعتماد بحال کرے گا بلکہ قومی ہم آہنگی اور ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) جو ایک وقت میں ملکی اور عوامی تفریح و معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ تھا، آج اس کی اہمیت اور مقبولیت میں نمایاں کمی آ چکی ہے۔ پی ٹی وی کی ناکامی کی کئی وجوہات ہیں، جن میں حکومتی مداخلت، غیر معیاری مواد، جدید تقاضوں کو پورا نہ کرنے، اور سیاسی اثر و رسوخ شامل ہیں۔
پی ٹی وی پر حکومتوں نے ہمیشہ اپنی پالیسیوں کی تشہیر کے لیے دباؤ ڈالا۔ سیاسی ایجنڈے کے تحت چلائے جانے والے پروگراموں نے اس کی غیر جانبداری کو متاثر کیا، جس کی وجہ سے عوام نے اس پر اعتماد کھو دیا۔
دنیا بھر میں میڈیا انڈسٹری میں جدت آئی، لیکن پی ٹی وی نے اپنے پروگراموں کے مواد اور پیشکش میں وہ معیار نہیں اپنایا۔ نتیجتاً، ناظرین نے نجی چینلز کا رخ کیا، جو زیادہ متنوع اور جدید مواد پیش کرتے ہیں۔
جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی اور تخلیقی پیش رفت ضروری ہے، لیکن پی ٹی وی نے ڈیجیٹلائزیشن، ایچ ڈی ٹرانسمیشن، اور جدید پروڈکشن کے شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں کی۔
جب کہ نجی چینلز نے ریٹنگز بڑھانے کے لیے دلچسپ اور متنوع پروگرام متعارف کرائے، پی ٹی وی نے اپنی روایتی اور غیر دلچسپ پیشکش پر اصرار جاری رکھا۔
پی ٹی وی کو دیگر حکومتی اداروں کی طرح بیوروکریسی کے مسائل کا سامنا رہا، جس کی وجہ سے اسے مؤثر طریقے سے چلانا ممکن نہیں رہا۔
نجی ٹی وی چینلز نے اپنے سامعین کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈرامے، شوز، اور نیوز چینلز متعارف کرائے، جب کہ پی ٹی وی نے اپنی پالیسیوں میں زیادہ تبدیلی نہیں کی۔
پی ٹی وی کو حکومتی دباؤ سے آزاد کر کے ایک خودمختار ادارے کے طور پر چلانا ضروری ہے تاکہ یہ غیر جانبدارانہ اور عوامی مفاد کے مطابق مواد پیش کر سکے۔
جدید پروڈکشن کے آلات، ایچ ڈی ٹرانسمیشن، اور اسٹریمنگ سروسز کو اپنانا پی ٹی وی کی بحالی کے لیے ضروری ہے۔
ایسے پروگرام اور شوز متعارف کرانے کی ضرورت ہے جو عوام کی دلچسپی کے مطابق ہوں، جیسے نوجوانوں کے لیے انٹرٹینمنٹ، بچوں کے لیے تعلیمی مواد، اور بین الاقوامی معیار کے ڈرامے۔
پی ٹی وی کو اپنے برانڈ کی بہتر تشہیر کرنی چاہیے اور ناظرین کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے تخلیقی حکمت عملی اپنانا چاہیے۔
پی ٹی وی کو یوٹیوب، نیٹ فلکس، اور دیگر اسٹریمنگ پلیٹ فارمز پر اپنی جگہ بنانی چاہیے تاکہ وہ ڈیجیٹل دور کے ناظرین تک پہنچ سکے۔
پی ٹی وی کی موجودہ حالت ایک بڑے سبق کی مانند ہے کہ اگر ادارے جدید تقاضوں کو پورا نہ کریں تو وہ وقت کے ساتھ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ تاہم، اگر حکمت عملی اور عزم کے ساتھ اسے دوبارہ فعال کیا جائے تو یہ نہ صرف اپنے سابقہ وقار کو بحال کر سکتا ہے بلکہ پاکستان کے لیے ایک مثبت اور معیاری میڈیا کا نمونہ بھی بن سکتا ہے۔ ٹی وی صحافت کے ساتھ انصاف کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں غیر جانبداری، شفافیت، اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کو یقینی بنایا جائے۔ ٹی وی چینلز کو یہ ذمہ داری اٹھانی چاہیے کہ وہ عوام کو مستند معلومات فراہم کریں اور کسی بھی سیاسی، تجارتی، یا ذاتی مفاد کے تحت خبر کو مسخ نہ کریں۔ صحافت کا اصل مقصد عوام کی خدمت ہے، نہ کہ کسی ایجنڈے کی ترویج۔
ٹی وی صحافت کے فوائد بے شمار ہیں۔ یہ نہ صرف معلومات کا تیز ترین ذریعہ ہے بلکہ عوام کو عالمی اور مقامی معاملات سے باخبر رکھنے کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔ ٹی وی کے ذریعے خبروں کے علاوہ تعلیمی اور تفریحی مواد بھی فراہم کیا جاتا ہے، جس سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔
تاہم، اس کے نقصانات بھی ہیں، خاص طور پر جب صحافت غیر ذمہ دارانہ ہو۔ سنسنی خیز خبروں کی اشاعت اور ریٹنگز کے لیے مبالغہ آرائی عوام کو گمراہ کرتی ہے۔ پاکستانی میڈیا کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے چینلز کسی نہ کسی سیاسی پارٹی یا گروہ کے زیر اثر کام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے غیر جانبداری کا فقدان ہے۔ نتیجتاً عوام کو متوازن معلومات تک رسائی نہیں ملتی، اور اس سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ خبروں کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کریں اور کسی ایک چینل پر انحصار نہ کریں۔ میڈیا دیکھنے والوں کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے اور غیر ضروری یا سنسنی خیز خبروں پر توجہ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔
آخر میں، ٹی وی صحافت کے ذریعے عوام کی آگاہی اور مسائل کو اجاگر کرنے کا کام اہم ہے، لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب صحافت اپنے بنیادی اصولوں پر قائم رہے۔ پاکستانی میڈیا کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ عوام اور صحافی دونوں کو مل کر یہ یقینی بنانا چاہیے کہ صحافت عوام کے مسائل کے حل کے لیے ایک مثبت ذریعہ بنے، نہ کہ اختلافات اور مسائل کو بڑھانے کا۔