11 نومبر 1888 یوم پیدائش
مولانا ابوالکلام آزاد ایک بلند پایہ کے عالم دین،مفکر، مفسر قرآن،صحافی،بہترین خطیب،منفرد ادیب،اعلی درجے کے شاعر اور ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کیساتھ ساتھ ہندوستان کی قومی آزادی کے اہم راہنما تھے۔ گویا وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ جنکے بارے میں سروجنی نائیڈو نے کہا تھا کہ جب وہ پیدا ہوئے تو وہ پچاس سال کے تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت سے حد درجے کی دلچسپی تھی انھوں نے سب سے پہلے 1899میں نیرنگ خیال جاری کیا جو تقریباً آٹھ ماہ تک جاری رہا اس کے بعد المصباح اور لسان الصدق شائع کیا۔
اس کے بعد 1912 سے الہلال اخبار نکالا جس کا چرچا پورے ہندوستان میں ہونے لگا اور جلد ہی پابندی کی نظر ہوگیا اور پھر 1915 میں البلاغ اخبار نکالا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی علمی اور عملی صلاحیتوں کو ہندوستان کی قومی آزادی کیلئے استعمال کیا وہ صحافت کے علاوہ تحریک خلافت اور ترک موالات میں پیش پیش رہے۔ اور وہ دو دفعہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر رہے ۔
یہ اخبارات ہندوستانی صحافت اور تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے آزادی کی جنگ میں قیدو بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ انھوں اپنی زندگی کے کم وبیش دس برس جیل میں گزارے۔
بقول کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کے
مرحبا اے ابوالکلام آزاد، تا قیامت رہے گی تیری یاد
قید خانوں میں خود رہا برسوں، ملک کو قید سے کیا آزاد
بقول سید سلیمان ندوی
الہِلال دیوبَند کے حَلقہ میں بھی آتا تھا اور حَضرت شیخ الہند مولانا محمُود حسَن کی مجلس میں پڑھا جاتا تھا۔ میں نے اس زمانے میں مولانا محمُود حسَن کا یہ فقرہ سُنا تھا کہ ہم نے جہاد کا سبق بُھلا دِیا تھا ، اور اَبُوالکَلام آزاد نے ہم کو پھر یاد دلایا ہے.!
مولانا ابوالکلام آزاد انتہائی ذہین ترین دماغ کے مالک تھے جس کا اندازہ ان کی تصانیف سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا ایک بڑا کام قرآن کریم کی تفسیر و تشریح ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے باقی علالت و صحت کی خرابی کے باعث مکمل نہیں ہو سکی جو ترجمان القرآن کے نام سے ہے۔
اس کے علاوہ مولانا کی تصنیف غبار خاطر کے نام سے ہے جس کے منفرد اسلوب تخلیق اور دلکش طرزِ نگارش سے معنوی پہلو داری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔غبار خاطر‘ ان کا اہم کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے قید خانے کی زندگی کے روداد کے علاوہ ملک کی سنگینی حالات کی تصویر کشی کی اور اپنے علم و فن کی ہنرمندی کے جلوے بھی بکھیرے ہیں۔ اسی طرح مولانا کی سیاسی یاداشتیں جو انڈیا ونز فریڈم کے نام سے ہے
مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کے قومی اتحاد کے داعی اور علمبردار تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کی آزادی ہندو مسلم اتحاد کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی۔ بلکہ وہ یہاں تک کہتے تھے اگر آزادی میں تھوڑی تاخیر ہو جائے تو اس سے اتنا نقصان نہیں ہوگا۔ جتنا نقصان ہمارا اتحاد ٹوٹنے سے انسانیت کا ہوگا۔
مولانا ابوالکلام آزاد برصغیر کی تقسیم کے سخت مخالف تھے اور یہ ان کا زبردست قومی سیاسی موقف تھا۔ وہ اس طرح کی سکیم کو اسلام اور مسلمان کے فائدے کے بجائے انگریزوں کے مفادات کی سکیم سمجھتے تھے۔ اس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً مختلف انٹرویوز اور تحریروں میں کرتے تھے۔
قیام پاکستان سے قبل ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک متحد نہیں رہ سکے گا، سیاسی قیادت کے بجائے فوج کی حکومت ہو گی، یہ ملک بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے گا اور اسے ہمسایہ ممالک سے جنگ کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انھوں نے متنبہ کیا تھا کہ پاکستان میں امیر تاجر قومی دولت کا استحصال کریں گے اور عالمی طاقتیں اس پر تسلط جمانے کی کوششیں جاری رکھیں گی۔
اسی طرح مولانا نے انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ انھوں نے مسلمانوں کو سمجھایا تھا کہ ان کے سرحد پار کرنے سے پاکستان مضبوط نہیں ہوگا ’بلکہ انڈیا کے مسلمان کمزور ہوں گے۔‘
انھوں نے بتایا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں پہلے سے مقیم لوگ اپنی علاقائی شناخت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے جبکہ انڈیا سے آنے والوں کو بِن بلایا مہمان سمجھا جائے گا۔
مولانا آزاد نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ’اگرچہ مذہب کی بنیاد پر ہندو آپ سے مختلف ہیں لیکن وہ قوم اور حب الوطنی کی بنیاد پر مختلف نہیں ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں آپ کو دوسری قوم کے شہری کے طور پر دیکھا جائے گا.
مولانا کے انداز تحریر کو پڑھیں کتنے خوبصورت اور دلکش طرزِ تحریر وہ ترجمان القرآن میں لکھتے ہے۔
فطرت کی سادگی اور سچائی کی دل نشینی دنیا میں جو چیز جتنی زیادہ حقیقت سے قریب ہوتی ہے، اتنی ہی زیادہ سہل اور دل نشین بھی ہوتی ہے۔ اور خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشے میں بھی الجھی ہوئی نہیں۔ الجھاؤ جس قدر بھی پیدا ہوتا ہے، بناوٹ اور تکلف سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جو بات سچی اور حقیقی ہو گی، ضروری ہے کہ سیدھی سادی اور دل نشین بھی ہو۔ دل نشینی کی انتہا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی ایسی بات تمہارے سامنے آجائے تو ذہن کو کسی طرح اجنبیت محسوس نہ ہو، وہ اس طرح قبول کر لے گویا پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی بات تھی۔ اردو کے ایک شاعر نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے!
اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ تقلید پرستی کی عادت ہلاکت و بربادی کی ایک چٹان ہے، جو انسانی تفکر و تدبر اور ادراک و تعقل کی تمام قوتوں کو کچل ڈالتی ہے اور اس کی قوت نشو و نما کا دائمی سد باب کر دیتی ہے۔ قرآن کریم جس دعوت کو لیکر آیا فی الحقیقت اس کا اصل مقصد یہی تھا کہ تقلید اور استبداد فکری کی زنجیروں سے انسان کو نجات دلائے! بت پرستی اور انسان پرستی کی یہ تمام شاخیں بھی اسی تقلید آبا و رسوم سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے قرآن نے اپنی نئی تعلیم توحید کا اساس بھی انسان کی اجتہادِ فکری پر رکھا اور تفکر پر زور دیا..
مولانا ابوالکلام آزاد آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بھی رہے انکی بنائی ہوئی قومی تعلیمی پالیسی نے ملک کی ترقی کی نئی بنیاد رکھی۔
مولانا آزاد اپنے عہد کے نہایت جینیس شخص تھے جس کا اعتراف پوری علمی دنیا کو ہے اور اسی ذہانت، لیاقت اور مجموعی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’بھارت رتن‘سے نوازا گیا تھا۔
مولانا آزاد کا انتقال 2 فروری 1958 کو ہوا۔
تحریر محمد حنیف