Skip to content

تنقیدی سوچ: جینے کا ایک بہترین طریقہ

شیئر

شیئر

ڈیکارٹ نے کہا تھا کہ میں سوچتا ہوں اسلیئے میں ہوں۔
تنقیدی سوچ اس ذہنی ورزش کا نام ہے جسمیں ہم کسی بھی چیز کو معروضی طور پر سمجھتے ہیں اور اسکے متعلق ثبوتوں اور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔ تنقیدی سوچ میں ہمیں اپنے پہلے سے طے شدہ نظریات اور افکار سے پرے ہوکے سوچنا پڑھتا ہے اور تعصبات کے سمندر سے بھی دامن بچانا ہوتا ہے۔ تنقیدی سوچ یا کریٹیکل تنھنکنگ اکیسویں صدی کو سمجھنے میں یا اس میں رہنے میں آکسیجن کا کردار ادا کرتی جسکے بغیر ہم حقائق کو من گھڑت کہانیوں سے علیحدہ نہیں کر سکتے اور غیر اہم معلومات یا سازشی نظریات ہمارے دماغ کو زنگ آلود کر دیتے ہیں ۔ اکیسویں صدی میں معلومات کے سیلاب سے سچ تلاش کرنا ایک انتہائی اہم اور کٹھن کام بھی ہے جو کہ تنقیدی سوچ کے بغیر نا ممکن ہے۔ ہم نے کس طرح رہنا ہے، کس طرح فیصلہ کرنا یا کس بنیاد پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیے یہ ہمیں تنقیدی سوچ ہی سکھا سکتی ہے۔
تنقیدی سوچ کا ایک اہم پہلو یہ ہیکہ یہ ہمیں من گھڑت معلوم سے بچاتی ہے۔ اگر تنقیدی سوچ نہ ہو تو اکیسویں صدی میں سوشل میڈیا آپ کو غلط معلومات دے کے آپ سے غلط فیصلے کر وا سکتا ہے۔ مشہور تاریخ دان یوول نوا ہراری اپنے کتاب "نیکسس” میں لکھتا ہے کہ سوشل میڈیا ایپس نے یہ سیکھ لیا ہیکہ کہ جتنی زیادہ ہیجان آمیز خبر ہوگی اتنی ہی زیادہ لوگ اس کو پڑھیں گے اور اور اس سے وہ اپنا کاروباری ماڈل کو فروغ دیں گے۔ لاہور کہ ایک نجی کالج والی خبر ہمارے سامنے ہے جہاں لوگ بنا کسی ثبوت کے خبریں پھیلا رہے ہیں جب کہ کسی بھی معتبر صحافی نے اسکی تصدیق نہیں کی۔ خورشید ندیم صاحب نے اسکو "پوسٹ ٹروتھ” کہا ہے جسکا آسان سا مطلب فیکش کو فیکٹ بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے۔ تنقیدی سوچ ہمیں بتاتی ہیکہ انفارمیشن کیسے لینی ہے اور کن زرائع پر اعتماد کرنا ہے۔ مثال کے طور پر ہم ڈان یا کسی بھی قابل اعتماد ذرائع سے خبر لے سکتے ہیں اور پھر اسکو پرکھ سکتے ہیں اور اپنے آپ کو سوشل میڈیا یونیورسٹیوں سے بچا سکتے ہیں جس سے ہمارے اندر فیکٹ کو فکشن سے کشید کرنے کی اہلیت پیدا ہوتی ہے۔
مزید برآں تنقیدی سوچ ہمیں یہ بتاتی ہیکہ حقیقت ہمیشہ ایک گورکھ دھندہ ہوتی ہے جسے آسانی سے نہیں سلجھایا جا سکتا۔ اگر کریٹیکل تنھنکنگ نہ ہو تو پھر انسان یا تو حقیقت کو افسانے میں تراش کر بہت آسان بنا دیتا ہے یا پھر ہر ہر چیز کو سفید اور کالے ، ہیرو اور ولن، یا صفر اور ایک کی شکل میں دیکھتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کے گرے ایریاز بھی بہت سارے ہوتے ہیں یا ایک معاشرے کا ولن کسی دوسرے معاشرے کا ہیرو ہوتا ہے یا انسان کمپیوٹر نہیں ہے جو صرف صفر اور ایک میں سوچے۔ کارل مارکس پہ بھی ایک تنقید یہ ہوتی ہیکہ اسنے صرف حقیقت کو بائنری میں ہی سوچا تھا۔ کارل پاپر اپنی کتاب ” اوپن سوسائٹی اینڈ آٹس اینیمی” میں افلاطون ، فرائڈ ، اور کارل مارکس پر اسی لیے تنقید کرتا ہیکہ انھوں نے اپنی ایک حقیقت تراشی اور پھر اسی کو حرف کل سمجھ بیٹھے۔ تنقیدی سوچ ہمیں یہ باور کراتی ہیکہ حقیقت کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ پہلو صرف ہمیں سچ تک پہنچا سکتے ہیں۔ کریٹیکل تنھنکنگ ہمیں یہ سکھاتی ہیکہ ہر کسی کی اپنی حقیقت ہو سکتی اور ہمیں اپنے نظریات کسے پہ تھونپنے کے بجائے مختلف نظریات کیساتھ رہنا چاہیے جس سے ہمارے ذہن کی نشونما ہوتی ہے اور ہمیں حقیقت کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔
علاؤہ ازیں تنقیدی سوچ ہمیں اپنے تعلقات بنانے میں رہنمائی کرتی ہے۔ پدر سری معاشرے میں اگر تنقیدی سوچ نہ ہو تو پھر وہ عورتوں کو صرف بچے پیدا کرنے کی مشینز سمجھتا ہے۔ ان کو کم تر، کم عقل، جذباتی اور اور بہت سارے برے القابات سے پکارا جاتا ہے جو کہ انکو زندگی میں آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ ان کو سکولز او کالجز میں تعصب کا شکار ہونا پڑھتا ہے۔ تنقیدی سوچ لوگوں کو یہ بتاتی ہیکہ کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو بھی مردوں کے برابر پیدا کیا ہے۔ اور اسلام نے ان کو اتنے ہی حقوق دئیے ہیں جتنے کہ مردوں کو۔ انکو بھی جینے کا، پڑھنے کا، کھیلنے کا ، اور آگے بڑھنے کہ اتنے ہی موقع دئیے جائیں جتنے مردوں کو میسر ہوتے ہیں۔ کریٹیکل تنھنکنگ ہمیں ان کے ساتھ رہنا سکھاتی اور یہ باور کراتی ہے کہ دماغ میں اگر گھٹیا خیلات کے بجائے علم ہو تو پھر وکٹم بلیمنگ یا عورتوں کے کپڑوں پہ توجہ کیئے بغیر ہم اپنے کردار کو ٹھیک کر سکتے ہیں اور ریپ، جنسی ہراسانی اور دوسرے ناسور سے معاشرے کو بچا سکتے ہیں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں لوگوں کے درمیان اچھے تعلقات ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی پرسنل سپیس کا خیال رکھا جاتاہے۔
تنقیدی سوچ ہمیں یہ بھی بتلاتی ہیکہ ہمیں دوسروں کے خیلات کو سننا چاہیے اور ان پہ پرسنل اٹیک نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کریٹیکل تنھنکنگ نہ ہو تو پھر معاشرے میں لوگ ایک دوسرے پہ ذاتی حملے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے نظریات سے دور بھاگتے ہیں۔ اسے ایڈہومینم فالیسی کہا جاتا ہے۔ اگر کوئ عمران خان پہ تنقید کرے تو وہ پٹواری ، شریفوں پہ کرے تو یوتھا کوئی عورتوں یا اقلیتوں کے حقوق کی بات کرے تو وہ لبرل وغیرہ وغیرہ ۔ تنقیدی سوچ ہمیں یہ سکھاتی ہیکہ دوسروں کو سنو اور ان کے خیالات کا جواب دو یا ان خیالات پہ عقلی تنقید کرو نہ کہ اس شخص کے درپے ہو جاؤ جو یہ تنقید کررہا ہے۔ اس سے معاشرے میں تنوع پیدا ہوتا ہے اور لوگوں میں ایک دوسرے کو سننے کی عدت پیدا ہوتی ہے جو معاشرے کو آگے لے کے جاتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ تنقیدی سوچ اکیسویں صدی کیلئے بہت زیادہ اہم ہے جس سے ہمیں انفارمیشن کے سمندر سے ہیرے نکالنے کا فن آتا ہے اور ہم بہکنے کے بجائے سنورنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم تنقیدی سوچ کے زریعے حقیقت کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بہت سے نظریات کیساتھ کیسے پرامن رہا جا سکتا ہے اور ان کو معاشرتی ترقی کا ایندھن بنایا جا سکتا ہے ۔ ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اچھے تعلقات تب ہی معاشرے میں پروان چڑھ سکتے ہیں جب مرد اور عورتوں کو برابر حقوق دئیے جائیں اور ہم شخصی تنقید کو چھوڑ کر نظریاتی تنقید شروع کریں۔ ان سب چیزوں کیساتھ ہم دنیا کہ ساتھ قدم ملا کے چل پائیں گے ورنہ ہم اپنے ہی واہموں میں ڈوب جائیں گے ۔

امیر حمزہ ۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں