ڈاکٹر فاروق عادل
کوئی اخبار یا میڈیا آؤٹ لیٹ کب ناکامی سے دوچار ہوتا ہے یا بند ہو جاتا ہے؟ آج روزنامہ 92 کی بندش سے یہ سوال بہت اہم ہو گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل روزنامچہ ایکسپریس کا سنڈے میگزین بند ہوا تگاث۔ اس سوال کا تعلق باقی بچ جانے والے قارئین کے مطالعے کی عادت یا ضرورت سے تو ہے ہی لیکن اس سے بھی بڑھ کر صحافیوں کے روزگار سے ہے۔
صحافی برادری اور خاص طور پر میڈیا انڈسٹری کے مالکان کے نقطہ نظر سے اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں بزنس یعنی اشتہارات میں کمی ہو سکتی ہے۔ مالکان کو سرکاری شعبے کے اخبارات سے اس سلسلے میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔ اس معاملے میں فواد چودہری نے جب وہ وزیر اطلاعات تھے، خاصی الل ٹپ باتیں کی تھیں جن کا تعلق مستقبل کی ٹیکنالوجی سے تھا۔ ان کے خیال میں دنیا بھر میں چوں کہ ڈیجیٹل میڈیا کے پھیلاؤ کی وجہ سے پرنٹ میڈیم سکڑ رہا ہے، اس لیے اب ذرائع ابلاغ کو حکومت سے بزنس ملنے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ فواد چودہری کی نصف بات درست تھی اور نصف غلط۔ یوں کہنا چاہیے کہ ان کی رائے دیانت دارانہ نہیں تھی بلکہ ان کی حکومت کی پالیسی کے تابع تھی جس کا مقصد آزاد ذرائع ابلاغ کی حوصلہ شکنی تھا۔
مالکان کے نقطہ نظر سے اس موضوع پر غور کیا جائے تو ان کے خیال کے مطابق پرنٹ میڈیم کا خام مال مہنگا ہو چکا ہے، اس لیے اب اخبارات کی اشاعت مشکل یا ناممکن ہو گئی ہے۔ اس سلسلے میں تیکنیکی معلومات تک رسائی رکھنے والے مزید وجوہات بھی گنوا سکتے ہیں لیکن بنیادی وجہ ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں۔
یہ 1967ء کی بات ہے، امریکا میں ایک تحقیق ہوئی۔ مسئلہ یہ تھا کہ صدارتی انتخابات میں عوام کی قابل ذکر حد تک کم تعداد نے دل چسپی لی۔ اس معاملے میں یقیناً بہت سے لوگوں نے تحقیق کی ہوگی لیکن کرٹ لینگ اور ان کی اہلیہ گلیڈی اینگل لینگ کی تحقیق بہت بر محل تھی۔ ان کی تحقیق کا حاصل یہ تھا کہ عوام کی توجہ جائز آئینی اور انتخابی عمل میں دل چسپی اس وقت محدود ہو جاتی ہے جب ذرائع ابلاغ اپنے مواد کے ذریعے سماج میں اضطراب کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ اضطراب کیا ہے؟ اسے دو مثالوں سے سمجھنا آسان ہے۔ جیسے عمران خان کا انتخابی نعرہ احتساب تھا۔ یہ عین ممکن ہے کہ ان کے مخالفین اس پر تنقید کرتے ہوئے ان کی ذاتی زندگی کو زیر بحث لے آئیں۔
اسی طرح نواز شریف نے ووٹ کو عزت دینے کا موقف اختیار کیا تھا۔ اس نعرے پر تنقید بھی فطری ہے لیکن ان کے مخالفین کی اس سلسلے میں ناجائز تنقید بھی اگر میڈیا میں جگہ پائے جیسے انھیں مودی کا یار قرار دیا گیا تو یہ چیز صحافتی مواد کو مثبت سے زیادہ منفی بنا دے گی اور عوام کو سیاسی عمل سے دور کرنے کا باعث بنے گی۔
یہ درست ہے کہ صحافتی اصولوں کے مطابق کسی ایک سیاسی مؤقف کا متوازی نقطہ نظر لوگوں کے سامنے آنا چاہیے لیکن لینگ تھیوری کہتی ہے کہ صحافت میں یہ صرف رپورٹنگ کا مسئلہ نہیں بلکہ صحافی واچ ڈاگ بنتے بنتے دراصل کسی نہ کسی جماعت کے سیاسی ایجنڈے کے مبلغ بن جاتے ہیں۔ یہ اضطراب دراصل سیاست دان اور صحافی مل کر پیدا کرتے ہیں۔
اس تھیوری یا تحقیق کا پہلا نتیجہ تو یہی ہے کہ اس کے نتیجے میں لوگ سیاست سے متنفر ہو جاتے ہیں جس کے عمومی مظاہر ہم اپنے سماج میں دیکھ سکتے ہیں لیکن اس کا ثانوی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سیاسی ایجنڈے کا کیرئیر بننے والے ذرائع ابلاغ سے بھی عوام بالکل اسی طرح لا تعلقی اختیار کر لیتے ہیں جیسے وہ سیاست سے دور ہو جاتے ہیں۔
یہاں صرف زیر نظر اخبار یعنی رونامہ 92 اور ایکسپریس زیر بحث نہیں ہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے پاکستانی ذرائع ابلاغ ہیں اور اندازہ یہی ہے کہ پاکستان کے دیگر پرنٹ میڈیا آؤٹ لیٹ بھی ایکسپریس کی پیروی کریں گے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو دہائی کی صحافت کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں ذرائع ابلاغ کے مندرجات میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اضطراب پیدا کرنے والا رجحان ضرور ملے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پرنٹ میڈیم کی ناکامی کے دیگر اسباب کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اس پہلو کا بھی جائزہ لیا جائے۔ ہمارے خیال میں یہ جائزہ ذرائع ابلاغ کو خود احتسابی کی جانب متوجہ کرتا ہے۔
یہاں یہ پہلو ضرور پیش نظر رہنا چاہیے کہ آج اگر کچھ حالات کی وجہ سے پرنٹ میڈیم مشکلات کا شکار ہے تو اس افسوس ناک رجحان کے دیگر میڈیم یعنی ٹیلی ویژن اور ڈیجیٹل میڈیا تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ذرائع ابلاغ کے مالکان اور صحافی برادری ابھی سے فکرمندی اختیار کرے اور اپنے مواد پر تنقیدی نگاہ ڈال کر درست طرز عمل اختیار کرنے کی فکر کرے۔ پاکستان ( دنیا بھر میں بھی) میں ذرائع ابلاغ کے سکڑنے بلکہ اس کے معدومی کی طرف سفر کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔