ایبٹ آباد سمیت ہزارہ ڈویژن کے مختلف سوشل میڈیا صارفین اور کچھ سینئر صحافیوں نے اپنے فیس بک چینلز پر پوسٹس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایبٹ ٹریفک پولیس اہلکار نے ایک ایسی گاڑی کو پکڑا ہے جو مانسہرہ سے ایبٹ آباد کے ہوٹلوں پر کتوں کا گوشت سپلائی کر رہی ہے اور پولیس نے ملزمان کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کر لیا ہے۔
یہ دعوی جھوٹا ہے، ایبٹ پولیس،محکمہ لائیو سٹاک یا کینٹونمنٹ کے عملہ نے ایسی کوئی گاڑی نہیں پکڑی جو کتے کا گوشت سپلائی کر رہی تھی۔
دعویٰ
21 ستمبر کو ایبٹ آباد کے صحافیوں کے مختلف فیس بک پیجز پہ پوسٹس میں لکھا کہ ” ایبٹ آباد میں کتے کا گوشت اور قیمہ سپلائی کرنے والی گاڑی پکڑی گئی5من کتے کا گوشت اور قیمہ برآم.“
ان ویڈیو پوسٹس کو اب تک ہزاروں لوگ دیکھ چکے ہیں اور سینکڑوں افراد نے شئیر کیا ہے۔
اسی طرح کے دعوے یہاں، یہاں اور یہاں بھی شیئر کیے گئے۔
حقیقت
اس سلسلے میں ہزارہ ایکسپریس نیوز نے ٹریفک پولیس اہلکار کی طرف سے پکڑی گئی ٹیکسی کے ڈرائیور محمد اسد سے بات چیت کی اور اس ساری سٹوری کا پس منظر جاننے کی کوشش کی۔محمد اسد ایک ٹانگ سے معذور ہیں اور مانسہرہ میں ٹیکسی چلاتے ہیں،محمد اسد کے مطابق وہ گزشتہ سات سال سے Sabroso کمپنی کا مال سپلائی کرتے ہیں،اسد صبح صبح کچھ بچوں کو سکول چھوڑنے کے بعد روزانہ ساڑھے آٹھ بجے ٹھاکرہ میں واقع Sabroso کی فرنچائز سے مال اٹھا کر بٹ پل کے قریب نورکالج کے ساتھ نوید شاپ سے KNS کا مال اٹھاتے ہیں اور قلندرآباد اور ایبٹ آباد تک سپلائی کرتے ہیں ،بعض دفعہ دیگر علاقوں یعنی کشمیر تک بھی جانا پڑتا ہے۔محمد اسد کے مطابق کبھی کبھار فرنچائز مالک خود کیری ڈبہ میں سپلائی کرتے ہیں مگر مال کم ہو تو پھر وہ دو کمپنیوں کا سامان اٹھاتے ہیں تاکہ کرایہ پورا ہو جائے ،اس کمپنی کے باقاعدہ ملازم نہیں بلکہ کمپنی کو اپنی سروس دیتے ہیں۔20 ستمبر 2024 کے واقعہ کے متعلق اسد بتاتا ہے کہ حسب روٹین ساڑھے آٹھ بجے صبح اس نے ٹھاکرہ میں واقعہ Sabroso کمپنی کی فرنچائز جان برادر اینڈ سلیمان کچن سے ساٹھ پیکٹس چکن پوٹا اور نوید شاپ نزد نور کالج سے KNS کے اڑھائی سو پیکٹس سیخ کباب،کوفتے اور نیگٹس اٹھائے اور قلندر آباد بازار میں ایک گاہک کا مال پہنچایا اس دوران قلندر آباد مرکزی چوک میں ٹریفک اہلکار نے میری ٹیکسی گاڑی کو روک کر 1520 روپے کا چالان کیا اور چالان بھر کے میں سوا دس بجے کے قریب جیسے ہی ایبٹ آباد میں ایوب میڈیکل کمپلیکس کے گیٹ سے گزر کے چار دیوار کی اس طرف پہنچا تو سامنے کھڑے ٹریفک اہلکار نے اسے روک کر گاڑی سائیڈ پر کھڑی کرنے کو کہا اور پاس آکر شناختی کارڈ مانگا میں نے اس کو اپنا شناختی کارڈ دیا اور عرض کی کہ پہلے قلندر آباد میں بھی پندرہ سو بیس روپے کا چلان ہو چکا ہے تو اس نے میرا شناختی کارڈ اپنے پاس رکھ کر کسی کو کال کی اور دو تین منٹس بعد موٹر سائیکل پہ ایک بندہ آیا اور مجھے سائیڈ پر لے جاکر کہا کہ آپ کے پاس یہ گوشت غیر قانونی ہے اور معاملات طے کرنے لگے کہ کچھ لے دے کر کے معاملہ یہیں پر ختم کر دیں ورنہ آپ کے خلاف ایف آئی آر اور آپ کا ریمانڈ ہو گا اور سارا مال ضبط ہو گا اپنے مالک سے بات کرکے اس کو بلائیں یا خود مک مکا کریں ،میں نے ایک مالک بلال کو کال کی تو وہ داسو کوہستان میں تھا اس نے کہا کہ وہ تو دور ہے آنے میں وقت لگے گا اور دوسرے نوید شاپ والے مالک کو کال کی تو وہ لاہور میں تھا ان کی کوئی ادھر مصروفیت تھی انہوں نے کہا کہ آپ ان کو کمپنی کی رسیدیں دکھاو جب میں نے کمپنی کی رسیدیں دکھائیں تو ٹریفک اہلکار اور اس کے موٹر سائیکل پہ آنے والے ساتھی نے مجھ سے رسیدیں لے کر دیکھیں اور پھر مجھ سے موبائل چھین کر مجھے جناح آباد پولیس چوکی میں لے گیے جہاں ٹریفک پولیس اہلکار ایک دیگر ساتھی کے ہمراہ گالیاں دیتے رہے اور تھپڑ اور مکے مارے اور کہا کہ تمارا مالک چور ہے اسی لیے سامنے نہیں آ رہا۔اس دوران میں نے ان کو کہا کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنی کا فریزڈ مال ہے فریزر سے زیادہ دیر باہر رہے گا تو خراب ہو جائے گا اس کہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے لائف ہے مگر انہوں نے مجھے کہا کہ اپنا منہ بندرکھو اور مجھے کسی سے رابطہ نہیں کرنے دیا اور چھ گھنٹے پولیس چوکی میں رکھنے کے بعد ایک بندے کو بلایا جس کا بتایا کہ وہ محکمہ لائیو سٹاک کا ڈاکٹر ہے اور پھر مجھے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ان کے دفتر میں لے گیے اور ڈاکٹر صاحب نے آنے کے بعد گوشت چیک کیا تو وہ فریز شدہ مال پگل کر پانی بن چکا تھا اور اس سے بدبو آنا شروع ہو چکی تھی ۔ڈاکٹر نے چیک کرنے کے بعد کہا کہ یہ خراب ہو چکا ہے یہ اب استعمال کے قابل نہیں رہا اور پھر محکمہ کے دیگر لوگوں کے ہمراہ وہ گوشت کو اٹھاکر لے گیے اور اس کو جلا کر تلف کر دیا اور ایک مقامی بندے تنویر احمد کی ضمانت پر مجھے چھوڑ دیا۔
اس سلسلے میں ہزارہ ایکسپریس نیوز نے اس کاروائی میں شریک محکمہ لائیو سٹاک کے پبلک ہیلتھ آفیسر،ویٹرنری ڈاکٹر سجاد قریشی سے رابطہ کرکے واقعہ کی تفصیل جاننا چاہی تو ڈاکٹر سجاد قریشی نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ہمیں کینٹونمنٹ کے انسپکٹر طارق جدون اور نعیم نے بلایا تھا کیوں کہ ہمارا کام کینٹونمنٹ،ضلعی انتظامیہ،فوڈ ڈیپارٹمنٹ،ٹی ایم اے اور ہلال فوڈ اتھارٹی کو تکنیکی سروس فراہم کرنا ہوتا ہے جس وقت ہمیں بلایا گیا تھا اس وقت پیکٹس میں موجود قیمہ پگل کر پانی بنا ہوا تھا اس سے سخت بدبو آ رہی تھی اور فنگس بھی لگ چکی تھی میں اپنے ڈائریکٹر فواد علی شاہ کے نوٹس میں لایا کہ یہ مضر صحت ہے اور یہ اب انسانی استعمال کے قابل نہیں رہا اور پھر کینٹونمنٹ کے انسپکٹرز طارق جدون اور نعیم کے ہمراہ اپنے ڈائریکٹر فواد علی شاہ کی نگرانی میں آگ لگا کرتلف کر دیا۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر سجاد قریشی نے بتایا کہ ایسی نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپپنیز جو اشیائے خوردو نوش یا خاص طور پر لائیو سٹاک پراڈکٹ فراہم کرتی ہیں ان کے اپنے سپلائی پروٹوکولز ہوتے ہیں اس سلسلے میں اس واقعہ میں اس کمپنی نے کولنگ مینٹیننس پروٹولز کو بالکل فالو نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ اشیا مضر صحت ہو گئی تھیں اور انسانی صحت سب سے قیمتی ہے اس وجہ سے اسے تلف کرنا نہایت ضروری تھا۔
ڈاکٹر سجاد قریشی حیران ہیں کہ کوالٹی خراب ہونے کے معاملہ کو کتے کے گوشت کا رنگ کیسے دے دیا گیا میں خود حیران و رات بھر پریشان رہا کہ پوسٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ محکمہ لائیو سٹاک والے سو رہے ہیں اور عوام کو کتے کے گوشت کے کباب کھلائے جا رہے ہیں ،ڈاکٹر سجاد قریشی شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں سراہنے کے بجائے مورد الزام ٹھرایا گیا جبکہ کتے کے گوشت کی سپلائی کی پوسٹیں لگا کر معاشرے میں انتشار پیدا کیا گیا جوکہ انتہائی افسوسناک ہے۔
اس سلسلے میں Sabroso کے مانسہرہ فرنچائز کے زمہ دار ندیم نے ہزارہ ایکسپریس نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ بگ برڈ اور سب روسو ملٹی نیشنل کمپنی ہے اس کی پراڈکٹس پوری دنیا میں سپلائی ہوتی ہیں ایسا ہر گز نہیں کہ ہم کولنگ پروٹوکولز کو فالو نہیں کرتے ہم بالکل ان پروٹوکولز اور کوالٹی سٹینڈرز کا خاص خیال رکھتے ہیں ویسی ہماری کمپنی کی گاڑی سپلائی کرتی ہے جس کے اندر اپنا کولنگ سسٹم موجود ہے کسی ایمرجنسی جیسے گاڑی خراب ہو یا آوٹ آف سٹیشن ہو یا جب مال بہت کم ہو تو ہم پھر کسی ہرائیویٹ گاڑی کی خدمات حاصل کرتے ہیں ۔
سبروسو کمپنی کے مانسہرہ کے ایک دوسرے زمہ دار بلال احمد کے مطابق اس واقعہ سے ایک روز پہلے وہ کیری ڈبہ میں مال لے کر ایبٹ آباد گیا تھا اور اسی جگہ ایوب میڈیکل کمپلیکس کی چار دیواری ختم ہوتے ہی ساتھ بائیں جانب کھڑے ہوئے اسی ٹریفک اہلکار نے اسے روک کر کینٹونمنٹ کے ایک اہلکار کو بلایا اور انہوں نے اس سے پندرہ ہزار رشوت لے کر اسے چھوڑا جبکہ ایک دن میں تین مرتبہ چالان کیا گیا جوکہ ایک مثال ہے ۔ٹیکسی ڈرائیور اسد اور ندیم کا یہ خیال ہے کہ مزکورہ ٹریفک اہلکار کینٹونمنٹ کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے اس طرح ایبٹ آباد شہر سے باہر سے آنے والی گاڑیوں کو روک کر پیسے بٹورتے ہیں اور مک مکا نہ کرنے والوں کواپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بلیک میل کرتے ہیں اور کتے کا گوشت سپلائی کرنے کی افواہ بھی اسی ٹریفک اہلکار نے اڑائی اور صحافیوں کو اپنی بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا ۔ہزارہ ایکسپریس نیوز نے کینٹونمنٹ کے انسپکٹر طارق جدون کے وٹس ایپ نمبر اور فون پر کالز اور میسجز کرکے ان کا موقف شامل کرنے کی کافی کوششیں کی مگر انہوں نے نہ میسجز کا رپلائی دیا اور نہ ہی کال اٹینڈ کی۔۔
اس سلسلے میں ہزارہ ایکسپریس نیوز نے ٹریفک پولیس کا موقف جاننے کے لیے ڈی ایس پی ٹریفک مدثر ضیا سے رابطہ کرکے ان کا موقف جاننا چاہ تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت کمپلیکس کے پاس مذکورہ پوائنٹ پہ واجد نامی ٹریفک پولیس اہلکار تعینات تھا اگر متاثرہ افراد کو اس سے کوئی شکایات ہے تو وہ ساری تفصیل لکھ کر درخواست دیں اس کی انکوائری کرکے الزام ثابت ہونے پر سخت کاروائی کی جائے گی اور کسی بھی اہلکار کو اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کی کوئیاجازت یا رعایت نہیں دی جائے گی۔
ہزارہ ایکسپریس نیوز فیکٹ چیک نے ایبٹ آباد سے اپنے فیس بک پیجز اور نیوز چینل پر سب سے پہلے کتے کا گوشت سپلائی کرنے کی پوسٹ لگانے والے کم از کم چھ صحافیوں سے تفصیل جاننے کی کوشش کی مگر ان کے پاس اس حوالے سے کسی قسم کی تفصیل موجود نہیں تھی صرف ایک صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صحافیوں کو ٹریفک اہلکار نے میسج کرکے بتایا تھا کہ مانسہرہ سے ایبٹ آباد کتے کا گوشت سپلائی کیا جا رہا ہے جو میں نے پکڑ کر کیٹونمنٹ بورڈ اور جناح آباد پولیس چوکی کے حوالے کیا ہے جس پر صحافیوں نے مزید تحقیق کیے ٹریفک اہلکار کی ایما پر اپنے اپنے پیجز پر کتے کا گوشت سپلائی کرنے کی پوسٹ لگا دی جس سے پورے ہزارہ ڈویژن میں انتشار پیدا ہوا اور پورے معاشرے کی سبکی ہوئی۔۔
اس حوالے سے ہزارہ ایکسپریس نیوز فیکٹ چیک کے رابطہ کرنے پر معروف کالم نگار عامر ہزاروی سوشل میڈیا پر وائرل کتے کی گوشت کی سپلائی پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے فیک نیوز کی بدترین مثال دیتے ہوئے ایسی خبروں کو سماج کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے۔
عامر ہزاروی کہتے ہیں سوشل میڈیا صارفین کی طرف طرف سے اس طرح غیر زمہ دارانہ طرز عمل سامنے آتا رہا ہے جس پر تنقید کی جاتی تھی اور پیشہ ورانہ صحافت کو زمہ دار صحافت قرار دیا جاتا تھا مگر گزشتہ روز ایبٹ آباد کے سینئر اور پیشہ ور صحافیوں کی طرف سے انتہائی غیر زمہ داری اور غیر پیشہ ورانہ طرز عمل اپناتے ہوئے فیک نیوز کو پھلانے میں کردار ادا کیا گیا اور ایک وقت تھا لاہوریوں نے گدھے کے گوشت کو مشہور کرکے پورے لاہور کے شہریوں کو گدھے کھانے والا قرار دیا اور اب ایبٹ آباد کے شہریوں کے لیے نئی گالی ایجاد کرتے ہوئے انہیں کتے کا قیمہ اور کباب کھانے کے طعنے دیے جا رہے ہیں یہ طرز عمل انتہائی خوفناک ہے اور کاروبار کے لیے بھی تباہ کن ہے چیف سیکٹری خیبر پختونخوا اور آئی جی پی کو اعلی سطحی انکوائری مقرر کرکے مختلف محکموں میں چھپی کالی بھیڑوں اور بلیک میلر کارٹل کے خلاف جلد از جلد کارووائی کرنی چاہیے ۔
factcheck@hazaraexpressnews.org پر میل کریں۔