Skip to content

بدلتی دنیا اور داٸروں میں سفر

شیئر

شیئر

ہیراکلائٹس نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ آپ ایک دریا میں دو مرتبہ
قدم نہیں رکھ سکتے۔ دنیا کا لازوال اصول یہ ہیکہ یہ بدلتی اور تغیر سے گزرتی رہتی ہے۔ جو اس تغیر کیساتھ چلتا ہے وہ کامیابی کی سیڑھی چڑھتا جاتا ہے اور جو اپنے آپ کو ارتقا اور تبدیلی کے عمل سے نہیں گزارتا وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب بن جاتا ہے۔ اسی طرح جو قومیں اپنے آپ کو ارتقائی اور تبدیلی کے عمل سے گزارتی ہیں وہ ترقی کی معراج پر ہوتی ہیں اور جو اس عمل سے کتراتی ہیں وہ ماضی میں ہی منجمد ہو جاتی ہیں۔ ہماری قوم نے شاید افلاطون کو ذیادہ ہی سیریز لے لیا ہے جس نے کہا تھا کے تبدیلی اور اصل سے دور قوموں کو یا فرد کو کرپٹ بنا دیتا ہے۔ اجکل کی بدلتی دنیا میں ہماری قوم کا سوچ اور تعلیم کے لحاظ سے آگے نہ بڑھنا ہمارے لی بہت سے مسائل پیدا کر رہا ہے جس کیوجہ سے ہم دنیا میں عقلی، سماجی اور معاشرتی ترقی سے محروم ہیں جس کیوجہ سے ہمیں دنیا میں کوئی اثر و رسوخ حاصل نہیں ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام ارتقائی عمل سے نہیں گزر رہا اور سکولز اور کالجز، سوائے کچھ بڑی یونیورسٹیوں کے، وہی کچھ پڑھا اور رٹوا رہیں ہیں جو وہ کئی سالوں سے کر رہیں ہیں ۔ اساتذہ طالب علموں کو نئ ایجادات اور بدلتی دنیا کیساتھ چلنے کے بجائے وہ پڑھا رہے ہیں جو شاید اکیسویں صدی میں ان کے کسی کام نہ آئے۔ ول ڈیورانٹ لکھتے ہیں کہ علم کا مقصد توہمات سے چھٹکارا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں علم کو آئیڈیالوجی یا اپنے روایت کو پھیلانے کا ایک ذریعہ بنا دیا گیا ہے جس سے زیادہ تر طالب علموں کے دماغ میں توہمات کو راسخ کیا گیا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہر سال ہزاروں طالبعلم ڈگری حاصل کرتے ہیں لیکن کچھ ہی ایسے ہوتے ہیں جن کو سہی معنوں میں تعلیم یافتہ کہا جا سکتا ہے جسکی ایک وجہ یہ ہیکہ ہمارا تعلیمی نظام ارتقائی مراحل سے نہیں گزر رہا جس طرح دنیا میں ہو رہا ہے۔
تنقیدی سوچ کسی بھی معاشرے کیلئے بہت اہم ہوتی ہے لیکن ہم اس معاملے میں بھی سست روی کا شکار ہیں۔ہمارے معاشرے کے اندر تنقیدی سوچ کا نہ ہونا اسکی ٹھہراؤ کی ایک اہم وجہ ہے۔ تنقیدی سوچ ہی سائنسی سوچ کا منبع ہوتی ہے جسکی مدد سے ہم دنیا کو معروضی انداز سے جانچ سکتے ہیں اور سچ کو بغیر کسی تعصب کے جان سکتے ہیں۔ تنقیدی سوچ ہی ہمیں یہ سکھاتی ہے کے سیکولر اور مزہبی علم ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور دونوں کے اپنے فائدے ہیں اور کسی ایک کو دوسرے میں ملانا تباہی کا سبب بن سکتا ہے اور ملک کو صدیوں پیچھے دھکیل سکتا ہے ۔ تنقیدی سوچ ہی ہمیں ایک مسئلہ کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہم بہت سے مسائل کا شکار اسلئے ہیں کہ ہمارے سماج میں تنقیدی سوچ کو پروان ہی نہیں چڑھنے دیا جاتا اور اختلاف کرنے کو برداشت نہیں کیا جاتا,اختلاف کا سلیقہ بھی نہیں سکھایا جاتا۔ مضبوط جمہوری ممالک میں ایسا نہیں ہوتا اس لیے وہ ترقی اور ارتقا کے مراحل طے کرتے ہیں جبکہ ہمارے معاشرہ ٹھہراؤ کا شکار اسلئے ہےکہ یہاں تنقیدی سوچ کی آبیاری نہیں کی جاتی۔
علاؤہ ازیں کسی بھی معاشرے کو ترقی کرنے کیلئے اسکی سافٹ کلچر بہت اہم ہوتی ہے جبکہ ہمارا معاشرا ابھی بھی سوفٹ کلچر کی اہمیت سے نا واقف ہے۔ ہمارا میوزک، ہماری کھیلیں، ہمارے سینما، ہمارا آرٹ اور لٹریچر ہماری سوفٹ کلچر بناتی ہیں جن کی اکیسویں صدی میں بہت اہمیت ہے اور یہ چیز ہماری معیشت پے بھی مثبت آثرات ڈالتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں انتہا پسندوں اور رجعت پسندوں کیوجہ سے سوفٹ کلچر کبھی پروان نہیں چڑھ سکتی جسکی وجہ سے معاشرے کی بنت کھردری ہی رہے گی جب تک ہم سوفٹ کلچر کو ان لوگوں سے چھڑا نہیں دیتے۔ ہم دنیا کو یہ بتائے اور برآور کروائے بغیر، کہ ہم ایک ایسا معاشرہ ہیں جو دوسروں کو اور ان کے نظریات کو برداشت کر سکتے ہیں اور سیاحت، تجارت کیلئے ہمارا ملک پرامن ہے، ترقی نہیں کر سکتے۔ ہماری سوفٹ کلچر کو بچانے کیلئے ہمیں تجریدی انتہا پسندی سے نکلنا ہوگا ورنہ انتہا پسندی ہمارے سماج کو ارتقائی عمل سے گزرنے نہیں دیگی۔
اپنے معاشرے کو ترقی کی راہوں میں ڈالنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے تعلیمی نظام کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کی مطابق ڈھالنہ ہوگا۔ طالب علموں کو مصنوعی زہانت کے نتائج، ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی آباددی اور دوسرے مسائل سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ان کو معروضی سوچ سیکھانی ہوگی جیسا کہ بریٹرنڈ رسل نے کہا تھا کے معروضی اور تعصبات سے پاک سوچ ہی ایک تعلیم یافتہ انسان کی معراج ہوتی ہے۔ اساتذہ کو طالب علموں کو سوال کرنا سکھانا ہوگا۔ ان سے طالب علموں کو تحریک ملے گی اور وہ دنیا کی بک پکچر کے بارے میں سوچ سکیں گے۔
اسکے علاؤہ، معاشرے میں تنقیدی سوچ کی اہمیت پیدا کرنی ہوگی۔ معاشرے میں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ کلٹ فالونگ اور کسی ایک لیڈر کے بجائے مسائل کیطرف توجہ اجاگر کرنی ہوگی جو کہ ہمیں تنقیدی سوچ سکھاتی ہے۔ لوگوں کو بتلانا پڑھے گا کہ کس طرح حساس معاملوں میں جزبات کے بجائے عقل سے کام لینا ہے اور کس طرح تحقیقی کرنی ہے۔ یہ سب کچھ تنقیدی سوچ پیدا کر کے ہی کیا جا سکتا جس سے ایک معاشرے میں یونیورسل سوچ پیدا ہوتی ہے اور وہ دنیا کیساتھ ارتقا میں شامل ہونا چاہتا ہے۔
معاشرے کو تبدیل کر کیلئے سوفٹ کلچر آیک اور اہم جز ہے جسکی مدد سے ہم اکیسویں صدی میں، سماجی، ثقافتی اور معاشرتی طور پر ترقی کر سکتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں ہر چیز بہت جلد تبدیل ہو رہی ہے دنیا علم، سائنس اور ہر شعبہ زندگی میں بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے ۔ وہ ملک یا قومیں جو اس ترقی کی دوڑ میں شامل ہونگی وہ کامیابی کی سیڑھی چڑھتی جائیں گی۔ ہمارا ملک ٹھہراؤ کا شکار ہے۔ زیادہ تر لوگ اکیسویں صدی کے ڈائنیمکس سے بے خبر ہیں اور اپنے آپ کو تعلیم اور تنقیدی سوچ سے محروم کئے ہوئے ہیں۔ جس سے لوگوں میں تعصب پیدا اور معروضی سوچ ختم ہوتی جا رہی جو کہ ملک و قوم کی ترقی کیلئے زہر قاتل ہے۔ ان مسائل کو علم اور تنقیدی سوچ سے ختم کیا جا سکتا ہے اور آگے بڑھا جا سکتا ہے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب دنیا ہمیں روند کے بہت آگ نکل جائے گی۔

تحریر : امیر حمزہ

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں