پاکستان کے شہر گوادر میں موسلا دھار بارشوں نے ملحقہ غریب علاقوں میں سیلاب کو جنم دیا، جس سے موسمیاتی خطرات اور ماضی میں کئے گئے شہر کی ترقی کے ادھورے وعدے نمایاں ہوئے
گوادر پورٹ سے ملحق گنجان آباد اور گندے علاقے مُلۤا بند میں رہنے والے ایک مقامی ماہی گیر اصغر بلوچ کہتے ہیں کہ ”سیلاب کا پانی گھر سے نکالنے میں مجھے تین دن لگے۔ ” پانی گھٹنوں تک پہنچا ہوا تھا، جس سے قالین، فرنیچر اور دیگر گھریلو سامان کو نقصان پہنچا۔ اب پانی نکال دیا گیا ہے لیکن اس نے گھر کی دیواروں اور بنیاد کو کمزور کر دیا ہے۔
گوادر کے کم آمدنی والے ملحقہ علاقوں جیسے مُلۤا بند، ٹی ٹی سی کالونی اور شامبے اسماعیل وارڈ میں رہنے والے اپنے بہت سے پڑوسیوں کی طرح اصغر بھی قومی اوسط سے کافی کم کماتے ہیں۔ انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ان کی آمدنی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے، لیکن عام طور پر 30,000 روپے (108 امریکی ڈالر) ماہانہ سے کم رہی ہے، اور جب کہ گزشتہ چند سالوں میں بلوچستان میں اوسط آمدنی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ اب بھی قومی اوسط سے کم ہی ہے۔ اصغر جیسے لوگوں کے لئے مالی دباؤ کے اثرات سے نمٹنا پہلے ہی مشکل تھا، اور اب اِس سیلاب نے کافی نقصان پہنچایا ہے۔ موسلا دھار بارش 30 گھنٹے تک جاری رہی جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک، ایک ہزار گھر اور دکانیں تباہ اور لوگوں کی بڑی تعداد بے گھر ہوئی۔ کم آمدنی والے ماہی گیروں کی 80 سے زیادہ کشتیاں بھی تباہ ہو گئیں۔
موسلادھار بارشوں کے رُکنے کے ہفتوں بعد بھی کچھ علاقوں میں پانی کھڑا ہوا ہے اور باقی ماندہ سیلابی پانی کو نکالنے کے لئے پمپس استعمال کئے جارہے ہیں ۔ سیلاب نے حکومت کی جانب سے بارہا نظرانداز کئے گئے صوبہ بلوچستان میں گوادر کے پسماندہ علاقوں کے لئے ایک وحشت ناک تصویر کھینچی۔ سیلاب نے پہلے سے ہی مشکلات کا شکار اِن علاقوں کو اور بھی زیادہ متاثر کیا۔گوادر کی بندرگاہ کو اکثر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا ‘اھم ترین اثاثہ’ قرار دیا جاتا ہے جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا ایک حصہ ہے۔
موسمیاتی خطرات سے دوچار پاکستان
گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان کا شمار 10 سب سے زیادہ موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں ہوتا ہے۔ اگرچہ پاکستان عالمی اخراج کے 1 فیصد سے بھی کم کا ذمہ دار ہے، لیکن اِس پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلتًہ بہت بڑا بوجھ ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران، ملک نے سالانہ اوسط درجہ حرارت میں اضافے، گرمی کی لہروں میں اضافے، اور بارش کی سطح میں بڑھتی ہوئی تغیر پذیری کا تجربہ کیا ہے۔ 2022کے سیلاب نے پاکستان کا ایک تہائی حصہ غرق کر دیا تھا، جس کے بعد اقوام متحدہ نے بھی اپنی سالانہ جائزہ رپورٹ میں اِس کا ذکر کرتے ہوئے اِسے “ایک انتہائی نایاب موسمیاتی واقعہ قرار دیا ہے جو ایک نسل میں صرف ایک بار پیش آتا ہے۔” اُنہیں خدشہ ہے کہ مستقبل میں ایسے موسمی واقعات زیادہ عام ہو سکتے ہیں۔
تباہ کن طوفان
گوادر میں دو دن سے بھی کم عرصے میں 180 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی جو گوادر جیسے بڑے خشک علاقے میں غیر معمولی سطح کی بارش ہے۔ ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء میں کلائمیٹ اینڈ انوائرنمنٹ انیشیٹو کی ٹیم کی سربراہ ماہا حسین کا کہنا ہے کہ “محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق اِس مرتبہ فروری کے مہینے میں پچھلے سات فروری کے مہینوں کے مقابلے میں غیر معمولی بارش ہوئی اور اِسی وجہ سے اُنہوں نے اِسے آٹھواں سب سے زیادہ بارشوں والا فروری قرار دیا ہے۔”
بلوچستان موسمیاتی آفات کا خاص طور پر شکار ہے۔ 2022 کے سیلاب کے بارے میں ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ” صوبہ سندھ اور بلوچستان میں 5 دن کی زیادہ سے زیادہ بارشیں اب تقریبا 75 فیصد زیادہ شدید ہیں جو کہ نہ ہوتیں اگر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زمین کی آب و ہوا 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم نہ ہوتی، جبکہ بیسن کے اطراف میں 60 دن کی بارش اب تقریبا 50 فیصد زیادہ شدید ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اِس طرح کی شدید بارشیں ہونے کا امکان اب بڑھ گیا ہے اور اِس سے بلوچستان میں سیلاب کا زیادہ خطرہ ہے۔
لیکن موسمیاتی تبدیلی اس کہانی کا صرف ایک حصہ ہے۔ گوادر میں حالیہ سیلاب نے ناکافی شہری منصوبہ بندی کو بھی آشکار کیا ہے، جس سے مقامی کمیونٹیز پر پڑنے والے بُرےاثرات اور بھی ابتر ہو رہے ہیں۔ صوبے کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی میں صوبائی ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے سربراہ یونس عزیز مینگل کا کہنا ہے کہ اس تباہی کی بڑی وجہ ساحلی شہر میں نکاسئی آب کے مناسب نظام کی عدم موجودگی ہے۔ مینگل نے مزید کہا کہ آبادی میں اضافے اور آبی گزرگاہوں پر تجاوزات نے نکاسئی آب کے نظام میں بھی رکاوٹ ڈالی ہے جس کی وجہ سے آبادی کے مراکز میں پانی جمع ہو رہا ہے۔
گوادر انوائرمنٹل اینڈ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کے بانی اور کارکن کے بی فراق کا کہنا ہے کہ شدید بارشوں کے دوران مقامی لوگوں کو درپیش مسائل کا “ترقیاتی ترجیحات” اور پانی کے روایتی راستوں کو “نظر انداز” کرنے سے گہرا تعلق ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ “بندرگاہ اور دیگر انفراسٹرکچر (سڑکوں، پلوں اور نکاسئی آب کے نظام) کی ترقی سے قبل گوادر میں قدرتی نکاسئی آب کے راستے موجود تھے۔ گوادر میں ترقیاتی منصوبوں نے نکاسئی آب کا متبادل نظام قائم کئے بغیر ان راستوں میں خلل ڈالا۔
مُلۤا بندکا معاملہ گوادر میں ترقیاتی منصوبوں کے دوران کمیونٹیز کو درپیش چیلنجز کی ایک دردناک مثال ہے۔ گوادر پورٹ کی تعمیر کو جدید خطوط پر اُستوار کرنے کے لئے اِس علاقے کی آبادی کے ایک بڑے حصہ کو نقل مکانی کروائی گئی تھی۔ اب جبکہ بندرگاہ کو جدید بنادیا گیا ہے لیکن مُلۤا بندکے علاقے میں جو کچھ بچا ہے اس میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے، اور یہ متواتر سیلاب کے خطرے سے دوچار ہے۔
2017 میں چھ لین والے ایسٹ بے ڈرائیو وے کی تعمیر نے گوادر میں مقامی کمیونٹیز کے لئے سمندر اور شہر کے نشیبی (نسبتاً کم اونچائی والے) مشرقی علاقے کے درمیان رابطہ منقطع کر کے صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔ روزگار کے نقصان کا سامنا کرنے والی اور سیلاب کے بُرے اثرات کے بارے میں فکرمند مقامی کمیونٹیز نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ اِن مسائل کو دور کرنے کے لئے تین انڈر پاسز تعمیر کرے۔
ادھورے وعدے
اس میں کوئی شک نہیں کہ گوادر شہر علاقائی روابط کے لئے چین اور پاکستان دونوں کے عزائم کا لازمی جزو ہے۔ لیکن جب سے ریاست نے بندرگاہی شہر کی ترقی کو معاشی بہتری کے اپنے وژن کا مرکز بنایا ہے، اور بلوچستان کو ترقی اور جدیدیت کے ایک نئے دور میں داخل کرنے کا عہد کیا ہے، گوادر میں مقامی کمیونٹیز نے اِن وعدوں کے بارے میں تشویش اور خوف کا اظہار کیا ہے
اسمارٹ سٹی پلان کے مطابق گوادر کو معاشی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کا تیسرا بڑا شہر بنانے کا تصور کیا گیا تھا جو ایک دہائی کے اندر کراچی کو پیچھے چھوڑ تے ہوئے تجارت کا سب سے بڑا مرکز بن جائے گا۔ اس منصوبے میں 137,695 افراد کی آبادی والے شہر میں 1.2 ملین (بارہ لاکھ) ملازمتیں پیدا کرنے کا سوچا گیا تھا۔ مزید برآں، گوادر پلان کے ٹرم آف ریفرینسس (ٹی او آر) میں ” موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پذیری کے ساتھ ساتھ آفات کے خطرے میں کمی اور تخفیف ” پر زور دیا گیا تھا۔
سی پیک منصوبے کو شروع ہوئے ایک دہائی ہو چکی ہے اور اسمارٹ سٹی پلان پر نظر ثانی کو پانچ سال ہو چکے ہیں لیکن زیادہ تر آبادی اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے جس میں نکاسئی کا مناسب نظام اور صاف پانی شامل ہے۔ میگا پراجیکٹس کو بار بار تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ کچھ شروع ہونے کے لئے بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ حالیہ سیلاب نے حکومتی وعدوں اور تلخ حقائق کے درمیان واضح فرق کو مزید اُجاگر کیا ہے، جس سے گوادر کے عوام اور ریاست کے مابین عدم اعتماد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
حسین کے مطابق، “گوادر میں تباہی پورے بلوچستان میں موافقت (مستقبل کے موسمیاتی واقعات کے حوالے سے تیاری) کی کوششوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔” وہ “مصنوعی تعمیرات” سے گریز کرنے کی وکالت کرتی ہیں، جو کہ گوادر کے قدرتی پانی کے سمندر میں بہاؤ میں خلل ڈالتی ہیں، جس سے سیلاب کے خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
فراق جامع اور کمیونٹی پر مبنی پالیسیوں اور نفاذ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”مقامی ملکیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انفرااسٹرکچر کے اقدامات مقامی کمیونٹیز کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہیں۔ گوادر کے ساحل کے ماحولیاتی نظام کا احترام کرتے ہوئے مقامی دانش مندی اور شہری منصوبہ بندی کی مہارت کو شامل کرنے والا نیا جامع طریقہ کار سیلاب کے خطرات کو کم کرے گا اور پائیدار ترقی کو فروغ دے گا۔
یہ مضمون اصل میں دی تھرڈ پول پر کریٸیٹو کامنز لاٸنسنس کے تحت شاٸع ہوا ہے۔