Skip to content

خدا کی ہستی: جذبات سے دلیل تک :حصہ اول

شیئر

شیئر

ہندوستان کے ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہونے والے ملحد شاعر جاوید اختر جیسے دوسرے ملحدین، کی عقلیت پسندی کے رجحانات نے جہاں خدا پرستوں کو تشویش میں ڈالا ہے، وہاں انکے ساتھ مفتی شمائل ندوی کے مباحثے سے امید کی کرن پھوٹی ہے کہ بجائے جنونیت اور مارا ماری کے فتووں کے ان کو عقلی دلائل سے مات دی جا سکتی ہے۔جاوید اختراور اس جیسے دوسرے ملحدین جب خدا کی ہستی پر سوال اٹھاتے ہیں تو وہ خود کو مذہب کا منکر کم اور روایت زدہ خدا کے تصور کا ناقد زیادہ ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ جو چیز عقل اور سائنسی مشاہدے کی کسوٹی پر پوری نہ اترے، اسے مان لینا فکری خودکشی ہے۔ بظاہر یہ بات دلکش لگتی ہے، مگر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا عقل بذاتِ خود آخری اتھارٹی ہے، یا اسے بھی کسی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے؟ قرآن اسی نکتے سے گفتگو شروع کرتا ہے، جہاں وہ عقل کو رد نہیں کرتا بلکہ اس کی حدود متعین کرتا ہے۔قرآن انسان کو کائنات پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، مگر ساتھ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ محض مشاہدہ حتمی نتیجے تک نہیں پہنچا سکتا، جب تک اس کے ساتھ معنویت نہ ہو۔ منکرین خدا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کائنات کو تو دیکھتے ہیں، مگر اس میں مقصد تلاش کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ قرآن کے نزدیک یہی وہ موڑ ہے جہاں عقل ٹھوکر کھاتی ہے۔ کائنات کا نظم، اس کا توازن اور اس کی حیران کن ہم آہنگی محض اتفاق کہہ دینا دراصل سوال سے فرار اختیار کرکے اپنی بے بسی کا اظہار کرنا ہے۔

قرآن اس سلسلے میں حضرت ابراہیمؑ کا ایک غیر معمولی اور علامتی استدلال پیش کرتا ہے، جو دراصل ہر دور کے عقلیت پسند انسان سے مکالمہ ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے سب سے پہلے ایک ستارہ دیکھا اور فرمایا: “یہ میرا رب ہے۔” مگر جب وہ ڈوب گیا تو کہا: “میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔” پھر انہوں نے چاند کو دیکھا اور یہی بات کہی، مگر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو اسے بھی رب ماننے سے انکار کر دیا۔ آخرکار سورج کو دیکھا، جو سب سے بڑا اور روشن تھا، مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو حضرت ابراہیمؑ نے اعلان کیا کہ میں ان سب سے بیزار ہوں اور اس ہستی کی طرف رجوع کرتا ہوں جو آسمانوں اور زمین کی خالق ہے۔یہ واقعہ کسی سادہ کہانی کا بیان نہیں بلکہ ایک گہرا فکری اعلان ہے۔ حضرت ابراہیمؑ دراصل یہ بتا رہے تھے کہ جو چیز فنا پذیر ہو، جو بدلتی ہو، جو طلوع و غروب کی محتاج ہو، وہ خدا نہیں ہو سکتی۔ یہ دلیل آج کے جدید انسان کے لیے بھی اتنی ہی متعلقہ ہے جتنی ہزاروں سال پہلے تھی۔ جاوید اختر جیسے منکرین، بظاہر مخلوق کو اس کے خالق سے بیزاری کا درس دیتے ہوئے، عقل،مادے، اتفاق یا سائنسی قوانین کو خدا کے متبادل کے طور پر پیش کر رہےہوتے ہیں۔ یہ لوگ جس خدا کو رد کرتے ہیں، وہ دراصل ایک anthropomorphic یعنی انسان نما خدا ہے، جو آسمان پر بیٹھ کر فیصلے کرتا ہے۔ جبکہ حقیقی خدا ،جو خالق بھی ہے، مالک بھی ہے، نہ جسم رکھتا ہے، نہ جگہ کا محتاج ہے اور نہ انسانی کمزوریوں کا شکار۔ قرآن واضح کرتا ہے کہ خدا کو کسی شکل میں قید کرنا دراصل اسے مخلوق کے درجے پر لے آنا ہے۔ یہاں منکرین خدا کی تنقید اور قرآنی تصور میں بنیادی فرق نمایاں ہو جاتا ہے۔قرآن کی تعلیمات کے مطابق، خدا کی پہچان کا راستہ محض لیبارٹری یا دوربین نہیں، بلکہ انسان کا باطن بھی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کا سفر ستاروں سے شروع ہو کر باطن کے یقین پر ختم ہوتا ہے۔ جاوید اختر جیسوں کا سفر اکثر سوال پر رک جاتا ہے، جواب کی طرف نہیں بڑھتا۔ سوال اٹھانا بلاشبہ فکری جرات ہے، مگر سوال پر ٹھہر جانا فکری تکمیل نہیں۔

یہاں ایک سادہ مثال قابلِ غور ہے۔ اگر کوئی شخص گھڑی کو کھول کر اس کے پرزے گننا شروع کر دے اور کہے کہ مجھے اس میں گھڑی ساز نظر نہیں آ رہا، تو کیا یہ گھڑی ساز کے نہ ہونے کی دلیل بن جائے گی؟ جاوید اختر کا استدلال بھی اکثر اسی نوعیت کا معلوم ہوتا ہے، جہاں وہ صرف اپنے اخذ کردہ نتیجے کو ہی حتمی ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔قرآن عقل اور وحی کے درمیان تصادم نہیں بلکہ تکمیل کا رشتہ قائم کرتا ہے۔ عقل راستہ دکھاتی ہے اور وحی منزل۔ حضرت ابراہیمؑ کی دلیل اس بات کی علامت ہے کہ خدا کو تلاش کرنے کے لیے پہلے جھوٹے خداؤں کو رد کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ پتھر کے بت ہوں یا جدید دور کے فکری بت۔آخر میں سوال یہ نہیں کہ جاوید اختر سوال کیوں اٹھاتے ہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ جواب قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہیں یا نہیں۔ قرآن کا اسلوب یہی ہے کہ وہ انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، مگر پھر اسے تنہا نہیں چھوڑتا۔ خدا کی ہستی قرآن میں کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ایک منطقی، اخلاقی اور وجودی حقیقت ہے، جس تک پہنچنے کے لیے صرف آنکھیں نہیں، بصیرت بھی درکار ہوتی ہے، جس سے منکرینِ خدا عاری ہیں، ان کے اندر مظاہر قدرت کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں، اگر دیکھ لیں تو، سچائی بیان کرنے کی صلاحیت نہیں اگرللہ کی واضح نشانیاں، سنائی جائیں تو ان میں سننے کی صلاحیت نہیں۔ اسی لیے قران نے ان جیسوں کو اندھے، گونگے اور بہرے کہا ہے (جاری ہے)

تحریر: شاہ زمان حنیف

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں