بلوچستان کا ‘کاغذی’ میڈیا: 52 کروڑ کی ردی، مگرمچھوں کے آنسو اور صحافیوں کی خالی جیبیں
تحریر : مرتضیٰ زیب زہری
کوئٹہ میں میرا ایک بہت پرانا دوست ہے جو ماشاءاللہ سے ‘صاحبِ اخبار’ ہے۔ سچ پوچھیں تو میں نے آج تک اس کا اخبار شہر کے کسی اسٹال پر نہیں دیکھا نہ کبھی کسی ہاکر کے ہاتھ میں نظر آیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کا نہ کوئی دفتر ہے، نہ کوئی رپورٹر اور نہ ہی کوئی باقاعدہ اسٹاف۔ اخبار بس ‘ٹھیکے’ پر چلتا ہے یعنی پرنٹنگ پریس سے نکلا اور سیدھا سرکاری فائلوں کی نذر۔
لیکن کمال یہ ہے کہ جب بھی موصوف سے ملاقات ہوتی، ان کا رونا دھونا ایک ہی ہوتا تھا: "بھائی! حالات بہت خراب ہیں، حکومت اشتہارات ہی نہیں دیتی، اخبار چلانا مشکل ہو گیا ہے، جیب خالی ہے۔
” میں ان کی یہ ‘کسمپرسی’ دیکھ کر اکثر افسردہ ہو جاتا تھا کہ بیچارہ صحافت کی خدمت میں ہلکان ہو رہا ہے۔
مگر یہ تو بھلا ہو مولانا ہدایت الرحمان (رکن بلوچستان اسمبلی) کا جن کی ایک سوال کی بدولت بلوچستان اسمبلی میں ڈی جی پی آر (DGPR) نے وہ ‘خفیہ دستاویزات’ فراہم کر دیں جنہوں نے میرے دوست کے مگرمچھ والے آنسوؤں کی حقیقت کھول دی۔
لسٹ دیکھی تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی—وہ روتا دھوتا دوست، جس کا اخبار شاید اس کے اپنے گھر والے بھی نہیں پڑھتے، خاموشی سے سالانہ 60 لاکھ روپے اشتہارات کی مد میں ڈکار رہا ہے۔
یہ دیکھ کر بے اختیار دل سے ایک ہی ہوک اٹھی: "کاش! میرا بھی ایک اخبار ہوتا۔”
لیکن ٹھہریے! یہ کہانی صرف میرے اس ایک دوست کی نہیں، بلکہ یہ کوئٹہ کے ان 110 ‘کاغذی’ اخبارات کی ہے جو 2025 کے اس ڈیجیٹل دور میں بھی وینٹی لیٹر پر زندہ ہیں اور سرکاری خزانے پر دیمک کی طرح پل رہے ہیں۔
دستاویزات بتاتی ہیں کہ یکم جولائی 2024 سے 30 جون 2025 تک، یعنی صرف ایک سال میں، 52 کروڑ 44 لاکھ 43 ہزار 418 روپے ان اخبارات میں اشتہارات کی مد میں بانٹ دیے گئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بلوچستان میں اتنے اخبار پڑھے جاتے ہیں؟ یا یہ صرف ‘کاغذی کارروائی’ کا پیٹ بھرنے اور 30 فیصد کمیشن کا دھندہ ہے؟
آئیے ذرا اس ‘بہتی گنگا’ میں ہاتھ دھونے والوں پر نظر ڈالیں جو ان دستاویزات سے چیخ چیخ کر سچ بول رہی ہے۔
سب سے پہلے ان بڑے مگرمچھوں کا ذکر جو سرکاری خزانے کا شیر کا حصہ ہڑپ کر گئے ہیں۔
فہرست میں سب سے اوپر روزنامہ مشرق کوئٹہ ہے جس نے 4 کروڑ 75 لاکھ 26 ہزار روپے سمیٹے، جبکہ روزنامہ جنگ کوئٹہ 4 کروڑ 70 لاکھ 67 ہزار روپے کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔
بات یہاں نہیں رکتی، روزنامہ بلوچستان ایکسپریس نے 1 کروڑ 77 لاکھ، روزنامہ سینچری ایکسپریس نے 1 کروڑ 54 لاکھ اور روزنامہ باخبر نے بھی 1 کروڑ 54 لاکھ روپے وصول کیے۔ اسی طرح روزنامہ قدرت 1 کروڑ 46 لاکھ، روزنامہ بلوچستان نیوز 1 کروڑ 43 لاکھ، روزنامہ میزان 1 کروڑ 42 لاکھ اور روزنامہ آزادی 1 کروڑ 22 لاکھ روپے لے اڑے۔
روزنامہ بلوچستان ٹائمز اور روزنامہ ہمت بھی پیچھے نہیں رہے جنہوں نے بالترتیب 1 کروڑ 10 لاکھ روپے اپنی جیبوں میں ڈالے۔
اتنی بڑی رقوم لینے والے یہ ادارے کیا اپنے ورکرز کو وقت پر تنخواہ دیتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر صحافی جانتا ہے۔
اس کے بعد ان درمیانے درجے کے شکاریوں کی باری آتی ہے جن کے نام شاید عوام کے لیے اجنبی ہوں مگر ان کے کھاتے بھرے ہوئے ہیں۔
روزنامہ انڈیپنڈنٹ 82 لاکھ، روزنامہ انتخاب 79 لاکھ اور روزنامہ اہم خبر 74 لاکھ روپے لے گئے۔ روزنامہ عوام نے عوام کے نام پر 73 لاکھ بٹورے تو روزنامہ ٹوڈے پاکستان اور روزنامہ صحافت 60، 60 لاکھ روپے لے گئے۔
اسی زمرے میں روزنامہ حیان، روزنامہ اعتماد اور روزنامہ گرین گوادر 55، 55 لاکھ کی لائن میں کھڑے نظر آتے ہیں، جبکہ روزنامہ کوئٹہ وائس، روزنامہ تازہ خبر، روزنامہ عصرِ نو مستونگ اور روزنامہ ایشیا ٹوڈے جیسے اخبارات بھی 50 لاکھ سے اوپر کی رقوم وصول کرنے میں کامیاب رہے۔
اب ذکر ان ‘چھوٹی مچھلیوں’ اور میرے دوست جیسے ڈمی اخبارات کا جو تعداد میں لشکر کی طرح ہیں اور لاکھوں روپے ہضم کر رہے ہیں۔
روزنامہ خبردار، روزنامہ تعمیرِ وطن اور روزنامہ فائٹر ٹائمز 49 لاکھ روپے فی کس لے گئے، جبکہ روزنامہ ریفارمر، روزنامہ صداِ الس، روزنامہ پاکستان ایکسپریس، روزنامہ سالار اور روزنامہ بلوچستان ٹوڈے 46 سے 48 لاکھ کی رینج میں رہے۔
روزنامہ تعمیرِ بلوچستان، روزنامہ شجاعت، روزنامہ عفان، روزنامہ کوزک نیوز چمن، روزنامہ فوز العظیم اور روزنامہ شال جیسے اخبارات 40 سے 45 لاکھ روپے کے درمیان کھیل رہے ہیں۔
اسی طرح روزنامہ صبا، روزنامہ گوادر ٹائمز، روزنامہ امروز، روزنامہ کوہِ سلیمان، روزنامہ جہانِ امروز، روزنامہ آوازِ نسلِ نو، اور روزنامہ معلوم (جس کے چھپنے کا مقام شاید کسی کو معلوم نہیں) 38 سے 40 لاکھ روپے لے گئے۔ روزنامہ وقت، روزنامہ الفجر، روزنامہ دنیا، روزنامہ 6-AM، روزنامہ ساحل، روزنامہ الجزیرہ، روزنامہ حال، روزنامہ طالب، روزنامہ کوئٹہ ایکسپریس، روزنامہ تلاطم نیوز، روزنامہ استمان اور روزنامہ عکسِ مہران جیسے درجنوں اخبارات 30 سے 38 لاکھ روپے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ روزنامہ ڈسٹرکٹ نیوز، روزنامہ نوائے زوند، روزنامہ بلوچستان لائنز، روزنامہ طاقت، روزنامہ ٹل نوشکی، روزنامہ بازیاب، روزنامہ پبلک، روزنامہ گل زمین، روزنامہ عسکر، روزنامہ وائس آف ملینز، روزنامہ روزن تربت، روزنامہ زیارت ویوز، روزنامہ کوہِ یار اور روزنامہ کوزک نیوز قلعہ عبداللہ بھی 20 سے 28 لاکھ روپے سمیٹنے میں کامیاب رہے۔
آخر میں دم توڑتی صحافت کے وہ کھلاڑی ہیں جو شاید صرف ڈیکلریشن بچانے کے لیے زندہ ہیں۔
ان میں روزنامہ گوادر بزنس، روزنامہ صداقت انٹرنیشنل اور روزنامہ آفتاب 20 لاکھ روپے لے گئے، جبکہ روزنامہ ایگل حب، روزنامہ سبول، روزنامہ نعرہ حق، روزنامہ گروک بلوچستان، روزنامہ بلوچستان آبزرور، روزنامہ مرر اور روزنامہ فرزندِ بلوچستان 17 سے 18 لاکھ روپے وصول کر پائے۔
روزنامہ گریٹ بلوچستان، روزنامہ گلدستہ بہار، روزنامہ پرل، روزنامہ آئینہ، روزنامہ نوائے وطن، روزنامہ ناظم نیوز، روزنامہ پاکستان، روزنامہ آواز ٹائمز، روزنامہ آزاد، روزنامہ زمانہ، روزنامہ اذان سحر، روزنامہ سپین زر، روزنامہ مکران ٹائمز، روزنامہ الرازی اور روزنامہ وکالت نامہ 12 سے 14 لاکھ روپے کی لائن میں ہیں۔
فہرست کے آخر میں روزنامہ بروقت، روزنامہ مشرق ایوننگ، روزنامہ حرب بقاء، روزنامہ قومی آواز، روزنامہ فرزندِ کشمیر، روزنامہ خطاب، روزنامہ مہردار، روزنامہ زلاند، روزنامہ ورلڈ میٹر، روزنامہ زیبائے پاکستان، روزنامہ آوازِ پشین اور روزنامہ پارلیمنٹ ٹائمز جیسے نام ہیں جو چند ہزار سے لے کر 11 لاکھ تک کی سرکاری خیرات پر پل رہے ہیں۔
کل 110 اخبارات کی اس فہرست کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کوئٹہ ‘نیویارک ٹائمز’ کا ہیڈکوارٹر بن چکا ہے جہاں ہر گلی سے اخبار نکل رہا ہے۔
اب آتے ہیں اصل ‘کھیل’ کی طرف۔
یہ اخبارات چل کیوں رہے ہیں؟ کیا عوام کی آگاہی کے لیے؟ جی نہیں! یہ سب 30 فیصد کمیشن کی کرامات ہیں۔
یہ ایک کھلا راز ہے کہ اشتہارات کا کوٹہ اسی کو ملتا ہے جو ‘سسٹم’ کو خوش رکھے۔
یہ ڈمی اخبارات حکومت پر ایک ایسا بوجھ ہیں جو نہ اتر رہا ہے اور نہ ہی عوام کو فائدہ دے رہا ہے۔
اخبار مالکان کروڑوں کے اشتہار لے کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، اور وہ غریب صحافی جو خبر لاتا ہے، جو فیلڈ میں جوتے گھساتا ہے، وہ تنخواہ کے لیے مہینوں دفتروں کے چکر کاٹتا ہے۔
اسمبلی میں جب پوچھا گیا کہ یہ ماجرا کیا ہے؟ تو وزیر اطلاعات کا تحریری جواب (جو دستاویز میں موجود ہے) روایتی بیوروکریٹک گول مول تھا۔ کہا گیا کہ "اشتہارات کا بہاؤ حکومتی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے”۔
حضور! کون سی ضرورت؟ کیا وہ ضرورت ان اخبارات میں پوری ہو رہی ہے جن کی اشاعت (Circulation) محض فائلوں میں "ہزاروں” ہے مگر حقیقت میں چند سو کاپیاں بھی پرنٹ نہیں ہوتیں؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ ‘کاغذی میڈیا’ اب ایک مردہ گھوڑا ہے جسے سرکاری خزانے کے چابک سے دوڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جب خبر ٹویٹر (X)، فیس بک اور یوٹیوب پر سیکنڈوں میں پھیل جاتی ہے، تو اگلے دن کی باسی خبروں پر کروڑوں روپے لٹانے کا کیا جواز ہے؟
یہ 52 کروڑ روپے اگر بلوچستان کی تعلیم، صحت یا ڈیجیٹل میڈیا کے نوجوانوں کی تربیت پر لگتے تو شاید کوئی انقلاب آتا۔
مگر یہاں تو سسٹم ہی یہ ہے کہ "تم بھی کھاؤ، ہمیں بھی کھلاؤ، اور صحافی کو بھوکا مارو۔”
آیہ 110 اخبارات کی فہرست دراصل صحافت کی خدمت نہیں، بلکہ صحافت کے جنازے کی رسید ہے۔ جب تک یہ 30 فیصد کمیشن کا کینسر اور ڈمی اخبارات کا کلچر ختم نہیں ہوگا بلوچستان کا حقیقی صحافی فاقوں پر مجبور رہے گا اور سرکاری خزانہ اسی طرح ‘ردی’ خریدنے میں لٹتا رہے گا اور میرے دوست جیسے ‘کاغذی اخبار مالکان’ یونہی روتے دھوتے ہوئے کروڑ پتی بنتے رہیں گے۔
جنابِ وزیراعلیٰ! جب ان اخبارات سے نہ عوام کا بھلا ہو رہا ہے اور نہ ہی صحافی کا چولہا جل رہا ہے تو پھر اس معاملے پر اب آپ کو سنجیدگی سے کچھ نہ کچھ تو سوچنا ہوگا۔


