تحریر: سجاداحمدشاہ کاظمی
ٹروئے (Troy) وہ قدیم شہر ہے جس کے آثار آج کل ترکی کے مقام حصارلیک (Hissarlik) میں ملتے ہیں۔ یہاں آج بھی حیرت زدہ کر دینے والی قدیم یونانی اساطیر (Mythology) کی مشہور جنگ ٹروجن وار (Trojan War) کے آثار موجود ہیں۔ اس جنگ کی کہانی ایک دیوی کی ناراضگی سے شروع ہوتی ہے۔ دیوی Eris کو ایک تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا؛ اُس نے ناراض ہو کر ایک سنہری سیب پھینکا جس پر لکھا تھا ’’The Fairest‘‘ یعنی سب سے خوبصورت کے لیے۔ اس پر تین دیویاں — ایتھینا Athena ہیرہ Hera اور ایفروڈائٹ Aphrodite آپس میں جھگڑ پڑیں۔ فیصلہ کرنے کے لیے پیرس Paris (ٹروئے Troy کا شہزادہ) کو چُنا گیا۔ ایفروڈائٹ Aphrodite نے پیرس Paris کو لالچ دیا کہ اگر تم مُجھے سب سے خوبصورت چُنو گے تو میں تُمہیں دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہیلن Helen دلوا دوں گی۔ پیرس Paris نے ویسا ہی کیا اور یوں ہیلن Helen اس جنگ کی وجہ بن گئی۔
حقیقت میں ہیلن Helen سپارٹا Sparta کے بادشاہ مینیلاؤس Menelaus کی بیوی تھی۔ ایفروڈائٹ Aphrodite نے پیرس Paris کی مدد کی اور پیرس Paris نے ہیلن Helen کو سپارٹا Sparta سے اغواہ کر کے Troy پہنچا دیا۔ مینیلاؤس Menelaus نے اپنے بھائی ایگامینون Agamemnon کی قیادت میں پورے یونان کی افواج اکٹھی کر لیں — جن میں یونانی دور کے مشہور ہیروز شامل تھے۔ ایگامینون Agamemnon فوج کا سپہ سالار تھا ‘ جس کی قیادت میں یونانیوں نے ایک ہزار جہازوں پر مشتمل بحری بیڑہ منظم کیا اور ٹروئے Troy کا محاصرہ کر لیا۔
یونانی افواج نے مسلسل دس سال تک ٹروئے Troy کا محاصرہ کیا۔ روایتی جنگ جاری رہی؛ مشہور ٹروجن ہیروز مارے گئے مگر شہر فتح نہ ہو سکا۔ جب دس سال کی مسلسل ناکامی کے بعد بھی فتح ممکن نہ ہوئی تو یونانی ہیرو اودیسئس Odysseus نے ایک نئی چال تجویز کی ‘ جس کے مطابق ایک بڑا لکڑی کا گھوڑا بنایا گیا، ماہر جنگجوؤں کو اسی گھوڑے کے اندر چھپا دیا گیا اور باقی فوج نے دکھاوے کے طور پر سرنڈر کیا اور ساحل کو خالی کر دیا۔ گھوڑے پر لکھا گیا کہ ’’ یہ یونانیوں کی طرف سے فتح کا تحفہ ہے‘‘
جب یونانی بظاہر سرنڈر کر گئے ‘ ساحل خالی ہو گیا تو ٹروئے Troy کے لوگوں میں گھوڑے کو شہر میں لانے کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ کچھ لوگ اس بات کے حق میں تھے کہ گھوڑے کو شہر میں نہ لایا جائے‘ جبکہ بعض اسے فتح کی علامت سمجھ کر اندر لانا چاہتے تھے۔ بالآخر گھوڑا شہر کے اندر داخل کر دیا گیا۔ جونہی گھوڑا شہر کے اندر پہنچا‘ گھوڑے کے اندر چھپے ہوئے کمانڈوز باہر نکلے‘ شہر کے داخلی دروازے کھول دیے گئے اور یونانی فوج نے اچانک شہر پر حملہ کر کے ٹروئے Troy کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ بادشاہ پریام Priam بھی مارا گیا۔ ہیلن Helen واپس اپنے شوہر مینیلاؤس Menelaus کے پاس پہنچ گئی۔ شہر کی عورتوں کو غلام بنا لیا گیا۔ اس طرح دَس سال تک جاری روایتی جنگ کی ناکامی کے بعد یونانیوں نے نفسیاتی حربوں ‘ فریب اور چالاکی سے اپنا مقصد پورا کر لیا۔
اس جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار تلوار‘ تیر‘ نیزہ یا منجنیقیں نہیں بلکہ انٹیلی جنس حربے intelligence ‘ فیک سرنڈر‘ دشمن کو جیت کی جھوٹی امید دینا‘ علامات (symbols) پر کھیلنا‘ ڈِس انفارمیشن (disinformation)، نفسیاتی تدبیریں Manipulation Strategy ‘ اور دھوکہ تھے۔ انہی حربوں نے ٹروئے Troy کے لوگوں کو تقسیم کر دیا؛ ان کی ذہنی ہم آہنگی ختم ہوئی‘ اعتماد ٹوٹا اور دشمن کامیاب ہو گیا۔
تاریخ ایسے مزید واقعات کا پتہ دیتی ہے۔ منگول حملہ آور حملے سے پہلے ٹارگٹ کیے گئے علاقوں میں خوف و ہراس اور افواہیں پھیلانے اور پروپیگنڈہ کرنے کے لیے قاصد اور حربے استعمال کرتے تھے تا کہ حملے سے پہلے ہی لوگوں کے حوصلے اور نظم و ضبط متاثر کیا جائے۔ برطانوی سلطنت کی تقسیم کرو اور حکومت کرو (Divide & Rule) پالیسی بھی اس کی بہترین مثال ہے کہ کیسے نسلی‘ مذہبی‘ مقامی اور لسانی اختلافات کو ہوا دے کر طویل عرصے تک حکمرانی ممکن رکھی گئی — میڈیا‘ تعلیم‘ پروپیگنڈہ اور تجارت کے ذریعے ذہنوں پر قبضہ کیا گیا۔ سوویت یونین کی پراکسی وار‘ امریکہ کی خلیجی جنگ میں میڈیا وار‘ روس – یوکرین تنازعہ میں پراکسی وار اور داعش کی آن لائن ہائبرڈ وار یہ تمام جدید اور قدیم مثالیں ہیں کہ دشمن روایتی جنگ کے ساتھ ساتھ ہائبرڈ وار کا استعمال بھی کرتا ہے۔ اگر اس سنگینی کو بروقت نہ سمجھا جائے تو نتائج نہایت خطرناک اور تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
آج ہم (پاکستانی) اسی قسم کی پراکسی‘ ہائبرڈ یا ففتھ جنریشن وار فیئر کے نشانے پر ہیں — اور اس کا ہمیں ادراک نہ ہونے کے برابر ہے یا ہم اس کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں۔ حالیہ واقعات اسی طرح کے فینومینا کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛ لہٰذا ہمیں ان تکنیکوں کو سمجھ کر درست فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ ہم خود کو اور اپنے وطن کو اس خطرناک وار سے بچا سکیں۔
ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ وار کی جدید شکل میں دشمن مختلف طریقوں سے میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے۔ غلط‘ ادھوری یا آدھا سچ آدھا جھوٹ ملا کر معلومات اور خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ جھوٹے بیانیے اور جعلی سوشل میڈیا ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں‘ کردار کشی کی جاتی ہے‘ عوام میں خوف اور انتشار پیدا کیا جاتا ہے۔ سائبر حملوں کے ذریعے سرکاری اور نجی ڈیٹا چرایا جاتا ہے‘ سسٹمز ہیک کیے جاتے ہیں‘ حساس معلومات کو عام کیا جاتا ہےیا بیچا جاتا ہے۔ معاشی دباؤ کے لیے کرنسی پر حملے‘ سرمایہ کاری میں رکاوٹیں اور مالی حربے اپنائے جاتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کے لئے نظریاتی اختلافات کو دشمنی میں بدلا جاتا ہے‘ کارکنان کو نظریات کی بجائے ذاتیات پر حملے کے لئے اکسایا جاتا ہے‘ اور جعلی بیانیے ملک میں خلا پیدا کرتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر عوام کو کمزور کرنے کے لیے بے یقینی پھیلائی جاتی ہے؛ اعتماد کو توڑا جاتا ہے‘ ذہنی تھکاوٹ اور خوف اس حد تک بڑھایا جاتا ہے کہ عوام حقیقت کا تجزیہ کرنے کے قابل نہ رہیں۔ اس دوران سٹریٹ وار Street War ہنگامے اور احتجاج کے لیے عوام کو اکسایا جاتا ہے اور نوجوان طبقے کو متشدد رویے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عام آدمی کے ذہن کو کنٹرول کرنے کے لیے بار بار جھوٹ بولا جاتا ہے — اور بار بار سنا ہوا جھوٹ بالآخر سچ لگنے لگتا ہے۔ یہ تیز رفتار اور بار بار دہرایا گیا جھوٹ لوگوں کی سوچنے‘ سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیتا ہے‘ یا سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتا؛ نتیجتاً ہر فرد اپنے پسندیدہ بیانیے میں قید ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایموشنل مواد کے ذریعے حقیقت کو دبا دیا جاتا ہے اور مخصوص ذہنیت کے لوگوں تک مخصوص پروپیگنڈا پہنچایا جاتا ہے۔
ہم ہائبرڈ وار کی حالیہ مثال کے طور پر تحریک انصاف (PTI) کے بیانیے اور اس کے بعد ازِ اقتدار سوشل میڈیا اور سیاسی میدان میں جاری بیانات کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ ہر کارکن جذباتی اور ہر رہنما برہم دکھائی دیتا ہے۔ مخالفین کو گالی دینا‘ دھمکی دینا ‘ مخالفین کی پگڑی اچھالنا‘ گھٹیا الزامات لگانا معمول بن چکا ہے۔ اداروں کے خلاف بھونڈے الزامات‘ فیک معلومات‘ جعلی تصاویر‘ ویڈیوز‘ دستاویزات اور مبینہ جعلی "سائفر” وغیرہ کا سوشل میڈیا پر گردش کرنا — اور ایسے تمام طریقے منظم ففتھ جنریشن وار کے حربوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔
تحریک انصاف کے بیانیے‘ خاص طور پر افواجِ پاکستان اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کے خلاف جو بیانات سوشل میڈیا پر آئے‘ ان کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیانیہ کس حد تک اینٹی اسٹیٹ سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگرچہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ بیانیے کبھی کبھار غلط فہمی‘ پروپیگنڈہ یا بیرونی اثرات کی وجہ سے جنم لیتے ہیں‘ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ بغیر ثبوت ہر الزام کو قبول کر لیا جائے۔ صحافتی اور قانونی تقاضے یہی کہتے ہیں کہ ایسے سنگین الزامات کو عدالت یا معتبر اداروں میں ثابت کیا جائے — محض الزامات پر قومی اعتماد متزلزل کرنا نقصان دہ ہے۔
یہ ضروری ہے کہ ہم دعوؤں اور حقائق میں فرق کریں۔ سیاسی انجینئرنگ‘ ادارہ جاتی کاروائیوں کے الزامات یا میڈیا سینسرشپ کے دعوے — جو بھی ہوں — ان کی تصدیق معتبر ذرائع سے کیے بغیر پھیلانا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہو سکتا۔ 9 مئی کے واقعات یا کسی اور واقعے کے پس منظر میں جو قانونی کارروائیاں ہوئیں‘ اُن کو رائے عامہ تک صحیح حوالوں کے ساتھ پہنچایا جانا چاہیے؛ بغیر ثبوت کے ہر اقدام کو "ریاسی ظلم” یا "فوجی ظلم” قرار دینا محض بیانیہ سازی ہے جب تک کوئی معزز عدالت یا معتبر تحقیق اس کی تصدیق نہ کرے۔
اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ کوئی جماعت دانستہ طور پر ملک دشمن عناصر کے ایجھنڈے پر کام نہیں کر رہی ‘ تب بھی مسلسل پروپیگنڈا اور اینٹی اسٹیٹ بیانیہ سوالیہ نشان ہے۔ بعض بیانیے یہ خوف پیدا کرتے ہیں کہ غیر ذمہ دارانہ سیاسی طرز عمل ریاستی سلامتی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ریاستیں اداروں کی مضبوطی سے چلا کرتی ہیں اور ادارے عدم اعتماد سے کمزور ہوتے ہیں۔ لہذہ سچ کا پرچار اور جھوٹ کی حوصلا شکنی کا حوصلا پیدا کیا جائے ‘ تاکہ غلط معلومات کے ملبوتے پر غلط فیصلوں اور ان کے اثرات سے بچا جا سکے۔ ریاست ‘ میڈیا اور عام آدمی کو ایک پیج پر ہونا چاہئے ‘ تاکہ کوئی بھی نفسیاتی حربہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ہمارا دفاع صرف سرحدوں پر نہیں بلکہ ذہنوں میں بھی مضبوط ہونا چاہئے ـــ اور تبھی ممکن ہے جب ہر جھوٹ کا جواب دلیل ‘ تحقیق اور شعور سے دیں۔


