تحریر: شاہزمان حنیف
پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں گزشتہ چند برس نہایت اہم رہے ہیں۔ ان برسوں کے دوران ہونے والی آئینی ترامیم نے نہ صرف ملکی دفاعی ڈھانچے کی سمت متعین کی بلکہ مستقبل کے عسکری نظم و ضبط کے کئی پہلو بھی واضح کر دیے۔ تاہم افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ان اہم ترامیم کے بارے میں عوام میں متعدد غلط فہمیاں گردش کر رہی ہیں۔ سیاسی بیانیے، میڈیا کے ایک مخصوص طبقےکی غیر ذمہ دارانہ اورسنسنی خیز گفتگو اور سوشل میڈیا کی افواہوں نے اصل حقائق کو کہیں پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم اور 28 ویں آئینی ترمیم کا غیر جانبدارانہ، قانونی اور آئینی تجزیہ سامنے لایا جائے تاکہ پھیلنے والے ابہامات کا خاتمہ ہو سکے۔26 ویں آئینی ترمیم کے تحت آرمی ایکٹ میں جو بنیادی تبدیلی کی گئی وہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت سے متعلق تھی۔ اس ترمیم نے واضح طور پر یہ طے کر دیا کہ پاک فوج کے سپہ سالار کی سروس مدت 3 سال کے بجائے 5 سال ہو گی۔ یہ اضافہ کسی ایگزیکٹو آرڈر یا عارضی نوٹیفیکیشن کے ذریعے نہیں کیا گیا بلکہ باقاعدہ آئینی ترمیم کے ذریعے قانون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ چنانچہ اب یہ سوال ہی بے معنی ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے بعد ہر تین سال بعد نئی توسیع کی ضرورت پڑے گی۔ جب مدت قانون میں درج ہو چکی ہے تو اس کے نفاذ کے لیے دوبارہ نوٹیفائی کرنے کی کوئی آئینی یا قانونی لازمی شرط موجود نہیں رہتی۔قانونی اصول یہ ہے کہ جس معاملے کو آئین یا ایکٹ کا حصہ بنا دیا جائے، اس کے لیے الگ سے نوٹیفیکیشن جاری کرنا نہ صرف غیر ضروری ہوتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں غیر مؤثر بھی ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا 26 ویں ترمیم کے بعد آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں کسی قسم کا ابہام باقی نہیں رہتا۔28 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان میں پہلی مرتبہ چیف آف ڈیفینس فورسز (CDF) کے عہدے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ عہدہ دنیا کی جدید افواج میں موجود اِسی نوعیت کے کمان سسٹمز کی طرز پر بنایا گیا ہے جہاں تینوں مسلح افواج کے درمیان ہم آہنگی، مشترکہ منصوبہ بندی اور رابطے کے لیے ایک اعلیٰ ترین انتظامی ڈھانچہ قائم ہوتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین نے اس عہدے کی تخلیق تو کر دی مگر اس کی تقرری، مدتِ ملازمت اور نوٹیفیکیشن کے طریقہ کار کا مکمل اختیار حکومت کے پاس چھوڑ دیا۔ آئین نے اس حوالے سے کوئی ٹائم فریم، طریقہ کار یا تحدید مقرر نہیں کی۔ کیونکہ نئے ادارے یا عہدے کی عملی تشکیل ہمیشہ انتظامی اقدامات، پالیسی فیصلوں اور رولز آف بزنس کے ذریعے ہی مکمل ہوتی ہے۔ اس میں تاخیر یا تدریجی پیش رفت کو آئینی خلا قرار دینا درست نہیں۔یہاں بھی بعض سیاسی اور مخصوص صحافتی حلقے غلط تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر چیف آف ڈیفینس فورسز کا نوٹیفیکیشن فوری طور پر جاری نہیں ہوا تو آئینی خلاف ورزی ہو رہی ہے، حالانکہ ایسا کوئی تقاضا آئین میں موجود ہی نہیں۔
حالیہ سیاسی فضا میں ان ترامیم کے بارے میں پیدا ہونے والا کنفیوژن حیران کن نہیں۔ ایک طرف وہ عناصر ہیں جو ہر آئینی ترمیم کو سیاسی عینک سے دیکھتے ہیں، دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو قانونی معاملات کو بھی جذبات اور قیاس آرائیوں کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کے ذہن میں بے شمار غیر حقیقی مفروضے جنم لیتے ہیں۔مثال کے طور پر:یہ مؤقف کہ آرمی چیف کی مدت اب بھی 3 سال ہے اور مزید عرصے کے لیے توسیعی نوٹیفیکیشن ضروری ہے.بالکل غلط ہے:یہ دعویٰ کہ چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدے کی فوری تعیناتی نہ ہونا غیر قانونی ہے۔ یہ بھی حقیقت کے برعکس ہے۔ دونوں معاملات میں آئین بالکل واضح ہے مگر اس کی تشریح کو سیاسی مقاصد کے لیے دھندلایا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی، آئینی استحکام اور قانون کی بالادستی کا تقاضا ہے کہ ایسے حساس امور پر غیر سنجیدہ گفتگو سے گریز کیا جائے۔ 26 ویں اور 28 ویں ترامیم کا مقصد اداروں کو مضبوط کرنا اور جدید تقاضوں کے مطابق قومی دفاع کو منظم کرنا ہے، نہ کہ سیاسی بحث و مباحثے کے لیے مواد فراہم کرنا۔ آج پاکستان کو جس استحکام کی ضرورت ہے، وہ اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب آئینی معاملات کو آئینی دائرے میں ہی رہنے دیا جائے۔26 ویں آئینی ترمیم نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کو واضح اور حتمی قانونی شکل دے دی ہے، جبکہ 28 ویں ترمیم نے چیف آف ڈیفینس فورسز کا نیا ڈھانچہ تشکیل دیا ہے جس کے انتظامی پہلو حکومت کے ہاتھ میں ہیں۔ ان دونوں ترامیم کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیاں دراصل لاعلمی اور سیاسی پراپیگنڈے کا نتیجہ ہیں، جس کی آڑ میں پاکستان کے دشمن فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ اس قسم کے منفی تاثرات کو درست معلومات کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ قومی اداروں اور آئین کے ہیئتِ مجموعی کو سمجھنے کے لیے سنجیدگی، فہم اور ذمہ داری سے کام لینا چاہیے۔


