Skip to content

بنیادی تعلیم سب کے لیے کیوں ضروری ہے؟

شیئر

شیئر

تحریر: وحید مراد

تعلیمِ عامہ کے خلاف چھٹا مفروضہ یہ پیش کیا جاتاہے کہ چونکہ حقیقی علم و فن چند لوگ حاصل کرتے ہیں اور باقی لوگ بلا ضرورت پڑھتے ہیں اس لیے تعلیم پر سرمایہ کاری وسائل کا ضیاع ہے۔ یہ خیال کہ تعلیم سے صرف ذاتی ترقی یا پیشہ ورانہ کامیابی حاصل ہوتی ہے، سراسر غلط ہے۔ تاریخ اور معاشیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ترقی چند افراد سے نہیں بلکہ تعلیم یافتہ آبادی کے اجتماعی شعور سے پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا تعلیم کو چند طلبہ تک محدود کرنا علمی دلیل نہیں بلکہ سماجی ذمہ داری سے فرار ہے۔

اس مفروضے کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ ہر بچے کو ہر عمر میں تعلیم جاری رکھنے یا چھوڑ دینے کا اختیار ہونا چاہیے، کیونکہ تعلیم مشقت ہے اور صرف فطری رجحان رکھنے والا بچہ اس مشقت کو سہہ سکتا ہے۔ آزادیِ انتخاب کے نام پر پیش کی گئی یہ دلیل دراصل آزادی ہی کی نفی ہے۔ تعلیم دینا ظلم نہیں؛ بے معنی، غیر انسانی اور جابرانہ تدریس ظلم ہے۔ بچوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دینا آزادی نہیں بلکہ صلاحیتوں کا قتل ہے۔ حقیقی آزادی یہ ہے کہ بچے کو بہتر طریقے سے سیکھنے، سمجھنے اور زندگی کے پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کا موقع ملے۔

تعلیم جاری رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار بچہ نہیں رکھتا، کیونکہ تعلیم صرف اس کی ذاتی خواہش نہیں، یہ اس کے مستقبل، کردار، روزگار اور معاشرتی کردار کی تشکیل بھی کرتی ہے۔ جہاں نتائج فرد سے آگے معاشرے تک پھیلتے ہوں وہاں ذاتی انتخاب محدود ہو جاتا ہے ۔ اسی لیے فلسفۂ انسانی حقوق تسلیم کرتا ہے کہ بچے کے لیے فیصلے والدین اور ریاست کرتے ہیں۔ آزادی وہاں معنی رکھتی ہے جہاں فرد نتائج کا ذمہ دار ہو ۔ لہٰذا تعلیم کو بچے کی مرضی کا معاملہ کہنا نہ آزادی ہے نہ انسانی حق؛ یہ بچے کے مستقبل کی نفی ہے۔ بچے کو نشہ یا خطرناک چیزوں کا اختیار بھی نہیں دیا جاتا کیونکہ وہ نتائج نہیں سمجھ سکتا۔ اگر آزادیِ انتخاب مطلق ہوتی تو یہ پابندیاں وجود ہی نہ رکھتیں۔

ساتواں مفروضہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ پرانے زمانے کے اساتذہ سختی کرکے ان طلبہ کو بھگا دیتے تھے جو شوق نہیں رکھتے تھے اور صرف انہی کو قبول کرتے تھے جو شوق رکھتے تھے، لہٰذا آج بھی تعلیم صرف چند اہل طلبہ کے لیے مخصوص ہونی چاہیے۔ اور جو دلچسپی نہ رکھتے ہوں، انہیں تربیت یا توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔

یہ دعویٰ حقیقت کے برعکس ہے۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ علم کبھی چند افراد کی ذاتی ملکیت نہیں رہا بلکہ اجتماعی طور پر منتقل ہوتا رہا۔ بغداد، اندلس، عثمانی مدارس وغیرہ خفیہ مکاتب نہیں تھے بلکہ اجتماعی علمی مراکز تھے۔ اگر کسی زمانے میں سیکھنے والوں کی تعداد کم تھی تو یہ علم کی فطرت نہیں بلکہ معاشی ناہمواری اور سماجی جبر کا نتیجہ تھا۔ یہ اصول درست ہوتا تو آج تعلیم عامہ کو نہ قانونی تحفظ دیا جاتا اور نہ بنیادی انسانی حق سمجھا جاتا۔

استاد کی سختی کو علمی معیار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جدید نفسیات، سوشیالوجی اور ماہرین تعلیم واضح کرتے ہیں کہ سیکھنے کا اصل عمل حوصلہ افزائی، مثبت ماحول، ربط اور معنی خیزی سے ہوتا ہے، نہ کہ سختی سے۔ اگر سختی ہی کامیابی کی ضمانت ہوتی تو دنیا کے سخت ترین ادارے سب سے بڑے سائنسدان، موجد اور فلسفی پیدا کرتے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تخلیقیت، سائنسی فکر اور فلسفیانہ بصیرت ہمیشہ آزادی، مکالمے اور سوال سے پیدا ہوتی ہیں نہ کہ استاد کی سختی سے۔

لہٰذا یہ کہنا کہ تعلیم صرف شوق رکھنے والے طلبہ کے لیے ہے اور باقیوں کو چھوڑ دیا جائے، تعلیمی حق اور اجتماعی ترقی دونوں کی نفی ہے۔ تعلیم سب کے لیے ہے اور اصل معیار ترغیب، رہنمائی اور معنی خیز تجربہ فراہم کرنا ہے، نہ کہ سختی اور جبر کے ذریعے چند افراد چن لینا۔

آٹھواں مفروضہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ تاریخ میں ترقی صرف چند باصلاحیت افراد کی کوششوں سے ہوئی اس لیے جو بچے ابتدائی تعلیم کے بعد خود سے آگے نہ بڑھیں، انہیں عملی زندگی کی طرف جانے دیا جائے۔ اس مفروضے کے مطابق تعلیم کا مقصد صرف فن یا ہنر کی منتقلی ہے، اخلاق اور اجتماعی کردار کی تشکیل نہیں اور چونکہ کامیابی ہنر سے بھی حاصل ہو سکتی ہے اس لیے تعلیم کی محرومی کوئی بڑی محرومی نہیں۔

یہ تصور حقیقت سے بعید ہے کیونکہ تاریخ کے تمام مشہور فلسفی، سائنسدان اور علماء خود سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ علمی معاشرت، استاد شاگرد روایت، اداروں اور اجتماعی ماحول کی پیداوار تھے۔ اگر اجتماعی تعلیمی ڈھانچہ نہ ہو تو علم آگے پہنچ ہی نہیں سکتا۔

تعلیم صرف ہنر نہیں؛ ہنر تو پیشے کا نام ہے جبکہ تعلیم زندگی گزارنے کی بنیادی صلاحیت ہے یعنی زبان، دلیل، سوچ، مسئلہ حل کرنا، معاشرت اور اخلاق۔ ہنر تعلیم کے بغیر محض مزدوری بنتا ہے۔ ہر شخص کا بڑا موجد ہونا ضروری نہیں مگر تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے تاکہ وہ زندگی کی پیچیدگیوں سے نمٹ سکے۔ تعلیم چند نابغوں کے لیے نہیں ، پوری قوم کی فکری، اخلاقی اور معاشی سطح بلند کرنے کے لیے ضروری ہے۔ معاشروں کو سائنسدانوں اور انجینیئرز کے ساتھ دیانت دار مزدور، ایماندار تاجر، باشعور والدین اور قانون کا احترام کرنے والے شہری بھی درکار ہوتے ہیں۔ یہ کردار تعلیم کے بغیر پیدا نہیں ہوتے۔

لہٰذا تعلیم عامہ ظلم نہیں بلکہ انسانی تہذیب کی حفاظت ہے۔ جس معاشرے نے تعلیم کو چند لوگوں تک محدود کیا، وہاں علم محدود ہوا، طاقت موروثی بنی اور انسانیت محکوم ہوئی۔ تعلیم ضروری ہے کیونکہ تہذیب، قانون اور معاشرت چند ذہنوں سے نہیں پورے عوام سے بنتی ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ تعلیم ہر بچے کی ضرورت نہیں تو اصل میں یہ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ تعلیم نہ پائیں تاکہ کچھ لوگوں کی بالادستی قائم رہے۔یہ سوچ نہ آزادی ہے، نہ مساوات، نہ انسانی شرف بلکہ غلامی کی جدید شکل ہے۔ اگرچہ تعلیم کامیابی کا واحد ذریعہ نہیں لیکن عدم تعلیم تباہی ضرور ہے۔(جاری)

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں