تعلیم عامہ کے ناقدین کا چوتھا مغالطہ یہ ہے کہ چونکہ پڑھائی کے جدید سہل اور دلچسپ طریقے، رنگین کتابیں، اسمارٹ کلاس رومز، ویڈیوز اور اینیمیشن کے باوجود طلبہ بیزار ہیں لہٰذا مسئلہ تدریس میں نہیں، بچوں کی فطری عدم دلچسپی ہے۔ ان کے خیال میں دلچسپی نہ پیدا کی جا سکتی ہے نہ سکھائی جا سکتی ہے، جو بچے بیزار ہیں وہ پڑھنا ہی نہیں چاہتے، لہٰذا تعلیم سب کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔
یہ دلیل بہت ناقص ہے جو اس مغالطے پر کھڑی ہے کہ اگر بچہ زبردستی کھلائے جانے والے کھانے کو ٹھکرا دے تو اسے بھوکا ہی رہنے دیا جائے۔ کھانے سے انکار کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ بھوکا رہنا چاہتا ہے بلکہ یہ دباؤ اورزبردستی کےخلاف احتجاج ہوتا ہے۔ اسی طرح بچہ سیکھنے کا دشمن نہیں، اس بے معنی طریقے کا مخالف ہے جس میں اس کی فطرت اور تجربہ کو شامل نہ کیا گیا ہو۔بچوں کی مزاحمت علم کے خلاف نہیں، غلط تدریس کے خلاف ہے۔بچے علم سے بور نہیں ہوتےبے معنی رٹے،غیر متعلقہ نصاب ،ڈانٹ اور سزا والی تدریس سے بیزار ہوتے ہیں ۔ بچوں کی بیزاری تعلیم ترک کرنے کی دلیل نہیں، تعلیم کی اصلاح کی دلیل ہے۔
بچوں کی بیزاری اس لیے نہیں کہ وہ سیکھنا نہیں چاہتے بلکہ اس لیے ہے کہ سیکھنے کو ایک میکانکی اور بے روح عمل بنایا جا رہا ہے ۔ اسمارٹ اسکرینیں اور رنگین کتابیں صرف سہولتیں ہیں، یہ علم تب بنتا ہے جب اس کا مرکز تجربہ، معنی، تخلیق اور دریافت ہو۔ آج کا طالب علم ٹیکنالوجی سے نہیں، جبر کے اس بٹن سے بیزار ہے جس میں سوچنے کی گنجائش نہیں صرف درست آپشن چننے کی ہے۔ MCQs کے ذریعے ذہن نہیں بنتا، صرف جواب دینے کی مشین بنتی ہے۔ سہولت نے فہم کی قربانی دے دی؛ نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم، انسان سازی سے بدل کر روبوٹ سازی بن گئی۔
دلچسپی کو تعلیم کا بنیادی مقصد سمجھ لینا بھی دھوکا ہے۔ دلچسپی دروازہ ہے، منزل نہیں، مطلوب ہے لیکن ہر صورت لازم نہیں کیونکہ تعلیم کا اصل کام سمت اور شعور پیدا کرنا ہے۔ کوئی بھی علم ابتدا میں سخت اور غیر دلکش محسوس ہوتا ہے لیکن اسی کی مشقت ذہن کو کردار میں، تجسس کو فکر میں بدلتی ہے۔ تعلیم کا معیار یہ نہیں کہ بچہ بور ہوا یا نہیں؟ بلکہ یہ کہ اس نے محنت، نظم، دلیل اور توجہ سیکھی یا نہیں؟
ہر علم میں دلچسپی فطری نہیں ہوتی لیکن بنیادی علم ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ صرف دل چسپی کو معیار بنا دیا جائے تو ریاضی، تاریخ، نحو، تحقیق، تحریر یا اخلاقیات کون سیکھے گا؟ یہ کہنا کہ دلچسپی پیدا نہیں ہو سکتی لہٰذا تعلیم ضروری نہیں ایسا ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ لوگ ورزش نہیں کرتے اس لیے صحت غیر ضروری ہے۔ سب قانون پسند نہیں کرتے لہٰذا قانون ختم کر دیا جائے۔ اکثر لوگ جھوٹ بولتے ہیں لہذا سچ کوئی لازمی قدر نہیں۔ دلچسپی کی کمی دلیل نہیں؛ تربیت کی ضرورت کا ثبوت ہے۔
تعلیم محض دل لگی نہیں، انسان سازی ہے۔ یہ خواہش نہیں، ذمہ داری سکھاتی ہے۔ یہ فرد کو شہری اور زندہ جسم کو باکردار انسان بناتی ہے۔ تہذیبیں اس لیے قائم نہیں ہوئیں کہ انسانوں کو تفریح پسند تھی بلکہ اس لیے کہ زندگی کا تسلسل ذمہ داری اور علم سے قائم رہتا ہے ۔ تعلیم کا مقصد صرف خوش کرنا نہیں، انسان بنانا ہے۔
دلچسپی انفرادی ہے اور ضرورت اجتماعی۔ ہر فرد اپنی پسند کا ذائقہ رکھتا ہے مگر غذا سب کے لیے ضروری ہے۔ کوئی ریاضی پسند نہ کرے، لیکن حساب، کتاب نہ آئے تو زندگی نہیں چلتی۔ کوئی تاریخ کو نہ چاہے، مگر تاریخ کے بغیر شہری شعور نہیں بن سکتا۔ کوئی زبان پڑھنے کا شوق نہ رکھے لیکن ابلاغ اور تحریر کے بغیر معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔
نظامِ تعلیم کا مقصد کسی کو خوش رکھنا نہیں، سب کو اہل اور ذمہ دار بنانا ہے۔ بنیادی علم ضروری، پیشہ وارانہ انتخاب بعد میں۔ دلچسپی تک رسائی آزادی ہے لیکن ضروری علم سے انکار آزادی نہیں، غفلت ہے۔ تعلیم خواہش کے تابع ہو جائے تو انسان شعور اور ضمیر کے بجائے خواہش کا غلام بن جاتا ہے ۔
دلچسپی کا احترام ہےمگر حدود کے ساتھ۔ نظام تعلیم کویہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہر بچے کے رجحان مختلف ہیں لیکن ضروری علم سب کے لیے پہلےہے، اختیار بعد میں۔بچوں کی بوریت سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ تعلیم ضروری نہیں؛ یہ صرف اس بات کا اعلان ہے کہ موجودہ تعلیم کا طریقہ ناقص ہے۔ جس طرح بیماری سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاتا کہ دوا کی ضرورت نہیں، اسی طرح بیزاری سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ تعلیم غیر ضروری ہے۔ دوا اور ڈاکٹربدلے جاتے ہیں لیکن انسان کو خوشی سے موت کے حوالے نہیں کیا جاتا ۔ لہذا طریقۂ تعلیم ضروربدلے گا، لیکن ضرورتِ تعلیم کسی صورت ختم نہیں ہوگی۔
پانچواں مغالطہ یہ ہے کہ سماج ہی اصل استاد ہے اور اسکول میں سماجی ہنر پیدا نہیں ہوتے؛ اس لیے گلی کے تجربات سے سیکھنے والا بچہ زیادہ ہوشیار (Street Clever) ہوتاہے، جبکہ اسکول کا بچہ صرف کتابی اور سیدھا رہ جاتا ہے۔
یقیناً سماج استاد ہے لیکن ہر استاد کو خود بھی علم درکار ہوتا ہے۔ سماج کو استاد مان لینے سے تعلیم کی ضرورت ختم نہیں ہو جاتی جیسے حکیم کی موجودگی میڈیکل سائنس کو غیر ضروری نہیں بناتی۔ گھر، محلہ اور بازار ضرور کچھ سکھاتے ہیں لیکن یہ تعلیم منتشر، بے ترتیب اور غیر معیاری ہوتی ہے۔ سماجی تجربہ کافی ہوتا توریاضی صرف ناپ تول تک محدود رہتی،تاریخ قصے کہانی رہتی،علاج صرف ٹوٹکوں پر چلتااور عقل مانگے تانگے کی روایت بن جاتی۔علم کا وصف تنظیم اور درستگی ہے اور یہ صرف تجربے سے نہیں، تربیت یافتہ نظمِ تعلیم سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے تمام تہذیبوں نے کسی نہ کسی شکل میں مدرسہ، ہجرہ، مکتب یا اسکول قائم کیاکیونکہ صرف تجربہ انسان نہیں بناتا، علم بناتا ہے۔
صرف سماج کافی ہوتا تو عدالتیں قبائلی جذبات سے چلتی رہتیں، قانون رسوم کا غلام رہتا، طاقتور ہی ہمیشہ سچا مانا جاتا۔ تعلیم سماج کے اندھے تجربے پر دلیل اور اصول کا چراغ رکھتی ہے۔ اس کا مقصد بچے کو اسکول میں بٹھانا نہیں، اس کی فطرتِ علم کو بیدار کرنا ہے۔لہٰذا مسئلہ اسکول بمقابلہ سماج کا نہیں، تجربہ بمقابلہ تربیت کا ہے۔ تجربہ ہی کافی ہوتا تو انسان کو فلسفہ، قانون، اخلاقیات اور سائنس کی ضرورت نہ پڑتی۔ یہ ضرورت چند افراد کی نہیں، پوری انسانیت کی تہذیبی بنیاد ہے۔
اب یہ اعتراض کہ اسکول کا بچہ سماجی لحاظ سے زیادہ سیدھا ہوتا ہے،یہ کمزوری نہیں، تہذیبی قوت ہے۔ سیدھاپن اصول پسندی اور معصومیت کی علامت ہے۔ گلی میں سیکھے ہوئے بچے کی چالاکی وقتی فائدے کی حکمتِ عملی ہے لیکن یہ شعور نہیں، جوڑ توڑ کا ہنر ہے۔ چالاکی بچاتی ہے، لیکن تخلیق قوت سے عاری ہوتی ہے۔
سماج عادتیں اور وقتی فائدے کی حکمت عملی دیتا ہے، تعلیم شعور دیتی ہے۔ سماج ردِعمل سکھاتا ہے، تعلیم کردار بناتی ہے۔ سماج جوڑ توڑ سکھاتا ہے، تعلیم اصول پیدا کرتی ہے۔بچہ سماج سے چالاکی، بچاؤ اور طاقت کا کھیل ضرور سیکھ لیتا ہے لیکن شہریت، قانون، دلیل، حق، ذمہ داری اور اخلاق سماج سے نہیں ملتے۔ یہ سب سماج کی اصلاح کرنی والی قوتیں ہیں جو علم فراہم کرتا ہے۔ پاکستان دنیا کا چالاک ترین معاشرہ ہے یہی وجہ ہے کہ اصول، قانون، دستور، علم، تعلیم اور تخلیق میں پیچھے ہے۔ (جاری)۔

