تحریر: وحید مراد
بعض مبصرین کے نزدیک تعلیمِ عامہ(Mass Education)ایک جبر ہے، کیونکہ زیادہ تر بچے رسمی تعلیم میں دلچسپی نہیں رکھتے اور جب انہیں آزادی ملتی ہے تو اعلیٰ تعلیم ترک کر دیتے ہیں۔ تعلیم باوجود جدید، آسان اور دل چسپ بنانے کے، اکثر طلبہ کے لیے ایک ایسی مشقت ہے جسے صرف فطری رجحان رکھنے والے ہی برداشت کر سکتے ہیں لہٰذا پوری آبادی کو زبردستی اسکول بھیجنا ظلم ہے۔ قدیم زمانے میں صرف شوقین طلبہ علم حاصل کرتے تھے اور استاد بھی انہی کو قبول کرتے تھے، آج بھی تعلیم چند اہلِ طلب تک محدود ہونی چاہیے۔ ان کے خیال میں قوموں کی ترقی ہمیشہ چند خاص افراد کے دم سے ہوتی ہے اس لیے وسائل سب پر خرچ کرنے کے بجائے انہی چند ذہین یا دلچسپی رکھنے والے بچوں پر لگنے چاہئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد بچوں کو پڑھنے یا نہ پڑھنے کا اختیار مل جانا چاہیے اور جو تعلیم نہ حاصل کر سکیں وہ کسی عملی ہنر سے سماج کا حصہ بن سکتے ہیں کیونکہ معاشرہ عمومی تعلیم کے بغیر بھی چل سکتا ہے۔
مذکورہ متن اور اس جیسے دیگر دعوے، چند مغالطوں اور مفروضوں پر قائم ہیں۔ پہلا مغالطہ یہ کہ تعلیم صرف نصاب پڑھنے، معلومات حاصل کرنے، امتحان پاس کرنے اور ڈگری لینے کا نام ہے۔ یہ تصور تعلیم کے بنیادی اجتماعی کردار کو فراموش کردیتا ہے۔ تعلیم صرف معلومات یا ہنر نہیں دیتی، یہ سوچنے، مسائل حل کرنے، جذبات، شخصیت، اخلاق، تہذیبی شعور، دلیل، برداشت، قانون فہمی، سماجی ذمہ داری اور تعلقات کی تربیت بھی ہے۔ اگر بچے محض ہنر سیکھ کر معاشرے میں شامل ہوں اور احترامِ آدمیت، شہری حقوق و فرائض اور اخلاقی اصول نہ جانیں تو وہ کاریگر تو بن سکتے ہیں، مفید انسان نہیں۔ تعلیم کو صرف بظاہر قابل لوگوں تک محدود کرنا معاشرے کو دو طبقوں میں بانٹ دیتا ہے یعنی ایک فیصلے کرنے والے اور دوسرے صرف حکم کی تعمیل کرنے والے۔ یہی تقسیم تاریخ میں استحصال، سامراج اور طبقاتی جبر کا ذریعہ بنی۔
تعلیم معاشی فوائد کے ساتھ زندگی کا فکری، سماجی، ثقافتی اور جمالیاتی تجربہ بھی ہے۔ بچے صرف پڑھائی کے لیے اسکول نہیں جاتے کھیل، دوستی، گفتگو، تعاون اور تہذیبی ماحول میں جینے کی مشق کرنےبھی جاتے ہیں۔ تعلیم عامہ ذہنی، جذباتی اور سماجی نمو کا ذریعہ ہے جہاں کمزور کارکردگی والا بچہ بھی اعتماد، زبان، تنظیم، مسئلہ فہمی اور تعلقات کی مہارتیں سیکھ کر زندگی کے دیگر میدانوں میں آگے بڑھ سکتا ہے۔ تعلیم والدین کو بھی سماجی ذمہ داریوں میں توازن کا شعور دیتی ہے۔ اس لیے تعلیم کا مقصد صرف اکیڈمک کامیابی نہیں بلکہ معاشرتی شرکت اور ہمہ جہت تربیت ہے۔
تعلیم صرف روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ اجتماعی اخلاق کا سرچشمہ بھی ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرے برداشت، نظم، رواداری، عزتِ نفس، پرائیویسی، آزادیِ اظہار اور اجتماعی تعاون کو بہتر سمجھتے ہیں جبکہ جہالت عموماً تنگ نظری، جذباتیت، بے نظمی اور حقوق کی پامالی کو جنم دیتی ہے۔ لہٰذا تعلیم چند ذہین افراد کا انتخاب نہیں بلکہ ایک سماجی ضرورت ہے ۔
تعلیم عامہ کے خلاف دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ تعلیم کسی بچے کو سکھائی نہیں جا سکتی، یہ صرف اُن لوگوں کی پیدائشی رغبت ہوتی ہے جن میں پہلے سے رجحان موجود ہو۔ اس کے مطابق جس بچے میں شوق نہ ہو، اسے پڑھانا وقت اور وسائل کا ضیاع ہے۔
یہ نقطۂ نظر انسانی فطرت اور جدید علمِ نفسیات، نیورو سائنس اور سماجی تعلیم سے متصادم ہے۔ تحقیقات واضح کرتی ہیں کہ ذہانت، دلچسپی اور تخلیقی صلاحیتیں صرف پیدائشی نہیں ہوتیں، تربیت، تجربات، تعلقات، مواقع اور مسلسل کوشش سے بھی بنتی اور نکھرتی ہیں۔ انسان کی فطری ساخت میں سیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے مگر اس صلاحیت کا اظہار ماحول کا محتاج ہے۔ اس لیے رغبت بذاتِ خود تعلیم کا نتیجہ ہے، نہ کہ تعلیم سے پہلے شرط۔
جان ڈیوئی(John Dewey)، پیاجے (Jean Piaget)اور ویگوٹسکی (Lev Vygotsky)کے مطابق اگر بچہ تعلیم سے بیزار نظر آتا ہے تو یہ اس کی طبیعت کا مسئلہ نہیں، تربیت، نصاب، تدریسی نظام اور سماجی ماحول کی ناکامی ہے۔ مسئلے کا حل بچے کو تعلیم سے الگ کرنا نہیں بلکہ تعلیم کو ایسی شکل دینا ہے جو بچوں کی فطرت کے مطابق ہو، تجربہ فراہم کرتی ہو، سوال کی اجازت دیتی ہو اور بوجھ کے بجائےفہم دیتی ہو۔
تعلیمی کمزوریاں اور معاشرتی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے ان کی ذمہ داری بچوں پر ڈال دینا اور یہ نتیجہ نکالنا کہ بچے پڑھنا نہیں چاہتے منطقی اعتبار سے بہت کمزور دلیل ہے کیونکہ کوئی معاشرتی مسئلہ انفرادی طبیعت سے حل نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ نظام معنی خیز تعلیم دے تو دلچسپی پیدا ہوتی ہے، تعلیم بے معنی ہو تو رغبت نہیں بنتی۔
تعلیمِ عامہ کے خلاف تیسرا مفروضہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ماس ایجوکیشن کا نظام بچوں پر جبر ہے کیونکہ اکثریت رسمی تعلیم میں دلچسپی نہیں رکھتی اور آزادی ملتے ہی یونیورسٹی نہیں جاتی۔ اس مفروضے کی بنیاد یہ غلط تصور ہے کہ تعلیم کا معیار صرف یونیورسٹی تک پہنچنا ہے۔ جب کہ انسان بنیادی تعلیم کے بعد مختلف سمتوں میں جا سکتا ہے: پیشہ ورانہ ہنر، فری لانسنگ، کاروبار یا کوئی عملی شعبہ۔ یونیورسٹی جانا تعلیم کی واحد علامت نہیں، اسی کو معیار بنانا تعلیم کے وسیع مفہوم کو مختصر کر دینا ہے۔
تعلیم صرف یونیورسٹی کی ڈگری تک محدود نہیں یہ شعور، ذمہ داری، خود آگاہی اور فکری آزادی بھی پیدا کرتی ہے۔ آج کی دنیا میں روزگار، آمدنی، محفوظ مستقبل، ٹیکنالوجی، بینکنگ، صحت کے فیصلے اور روزمرہ معاملات بھی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے تعلیم کا معاشی فائدہ اور انسانی تربیت دونوں اہم ہیں۔
یہ مفروضہ بہت کمزور ہے کہ بچے تعلیم سے بیزار ہیں اس لیے ماس ایجوکیشن جبر ہے۔ بچے علم سے نہیں بھاگتے، بے معنی نصاب، رٹے، ڈانٹ، غیر متعلقہ معلومات اور مشینی تدریس سے بھاگتے ہیں۔ بچے سوال، دریافت اور تجربے کی طرف فطری رجحان رکھتے ہیں؛ جب تعلیم ان رجحانات کا گلا گھونٹ دیتی ہے تو مزاحمت علم کے خلاف نہیں بلکہ ناقص تعلیم کے خلاف ہوتی ہے۔ اس بیزاری کو بچے کی مرضی قرار دینا دراصل تعلیمی ذمہ داری سے پہلو بچانا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ تربیت کا کچھ حصہ خواہشِ نفس کے خلاف ہوتا ہے لیکن تربیت اُس وقت جبر بنتی ہے جب اس میں مقصد، مفہوم اور انسانی احترام نہ ہو۔ تعلیم کو مکمل طور پر بچے کی مرضی پر چھوڑ دینا آزادی نہیں بلکہ مستقبل اور سماج دونوں سے لاپرواہی ہے، کیونکہ تعلیم فرد کے ساتھ معاشرے کی تشکیل بھی کرتی ہے۔ (جاری)

