وحید مراد
کیا سوال ، جواب ا فراد کی تخلیق اور ذاتی ملکیت ہوتے ہیں یا وہ پہلے ہی علمی و فکری فضا میں بطور امکان موجود ہوتے ہیں جنہیں انسان صرف ارتعاش دیتا ہے؟ مکالمے میں داخل ہونے سے پہلے کیا یہ جانچنا ضروری ہے کہ مکالمے کا امکان موجود بھی ہے یا نہیں؟ اگر یہ امکان ہی نہ ہو تو کیا گفتگو محض وعظ یا جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتی ہے؟ ایسی صورت میں کیا مکالمے سے دستبردار ہو کر خاموش رہنا ہی زیادہ بہتر ہے؟
مکالمے اور سوال کے فن کے بانی سقراط کے نزدیک سوال محض ایک فنی تکنیک نہیں بلکہ حقیقت تک رسائی کا طریقہ ہے۔ سوال ایجاد سے زیادہ دریافت کا عمل ہے ۔سوال اور جواب ا فراد کے اذہان سے نکلتے ضرور ہیں لیکن اس کی سمت اور قدر کا فیصلہ اجتماعی عقل کرتی ہے۔ گادامر(Hans-Georg Gadamer) اور ہابرماس (Jürgen Habermas) بھی علم کو بین الاذہانی (inter-subjective) تجربہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک علم نہ فرد کی ملکیت ہے، نہ کسی ایک ذہن کی پیداوار، یہ مختلف اذہان کی تخلیق ہے۔
پاؤلو فریرے (Paulo Freire)اور جان ڈیوئی(John Dewey) کے نزدیک علم جب عمل میں ڈھلتا ہے تو معنی پیدا کرتا ہے اور یہی معنی نئے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ اس طرح علم اور عمل ایک دوسرے کو متعیّن کرتے ہیں۔ عصری فلسفۂ ذہن اور سائنسی فکر بھی اسی تصور کو تقویت دیتے ہیں کہ علم کسی ایک ذہن کا حاصل نہیں بلکہ زبان، روایت اور اجتماعی تجربے کا نتیجہ ہے۔ کتاب، گفتگو، مشاہدہ،تحقیق ، لیبارٹری اور پوری سماجی دنیا علم کی تشکیل میں شریک ہیں۔
جب ہم سوال اٹھانے یا جواب دینے والے فرد کو مرکز بنا دیتے ہیں تو علم تفہیم سے نکل کر انا کی تسکین بن جاتا ہے۔ یہی لمحہ علم کی موت اور تکرار کا آغاز ہے۔ سقراط کے نزدیک مکالمے میں اصل مرکز سوال کا وجود ہے، جو سوال کرنے والے اور جواب دینے والے کے درمیان ایک تخلیقی رشتہ پیدا کرتا ہے۔ "ہم دونوں کسی تیسرے سچ کی تلاش میں ہیں، جو نہ تم ہو نہ میں، بلکہ وہ جو ہم دونوں کے درمیان جنم لیتا ہے”۔ یہی تیسرا سچ علم کا ظہور ہے۔
ہائیڈیگر (Martin Heidegger)کے مطابق سوال اٹھانا شعور کی اعلیٰ ترین صورت ہے کیونکہ سوال وجود سے رشتہ قائم کرتا ہے۔ معمولی سوال بھی اگر کسی ذہن میں فکری حرکت پیدا کر دے تو وہ غیر معمولی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ سوال کمزور نہیں ہوتا؛ کمزور وہ ذہن ہوتا ہے جو معمولی جواب پر مطمئن ہو کر سوال کو منجمد کر دے۔
مکالمے کی شرط غلبہ نہیں دیانت ہے۔ گادامر(Gadamer) کے مطابق مکالمے کا مقصد کسی مؤقف کو باطل ثابت کرنا نہیں بلکہ حقیقت کے نئے امکان کو تخلیق کرنا ہے۔ اسی لیے مکالمے کے لیے سادہ اور غیر خطیبانہ زبان ضروری ہے۔ الفاظ کا جادو علم پیدا نہیں کرتا؛ صرف معانی کی شفافیت علم تخلیق کرتی ہے۔ علمی گفتگو میں خطیبانہ غلبہ، طنز، تحقیر، اور شخصیت پرستی مکالمے کو فکری عمل سے نکال کر نفسیاتی مقابلے میں بدل دیتے ہیں۔
باطن کی تکبر آمیز مرکزیت مکالمے کی اصل دشمن ہے۔ سقراط کا اصول "میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا” مکالمے کا بنیادی اخلاقی اصول ہے۔ مکالمہ تب زندہ رہتا ہے جب انسان اس امکان کو قبول کرے کہ دوسرا بھی درست ہو سکتا ہے۔ یہی فکری دیانت علم کی بنیاد ہے۔ جہاں یہ امکان ختم ہو جائے وہاں بحث نہیں رہتی، صرف تصادم رہ جاتا ہے۔
میخائل باختن (Mikhail Bakhtin)کے مطابق ہر فکر دوسرے ذہنوں سے مخاطب ہوتی ہے، حتیٰ کہ تنہائی میں سوچ بھی مکالمے کی صورت ہے۔ لیکن جب کوئی فریق دوسرے کو شے سمجھ لے یا صرف اپنی آواز کو مرکزی حیثیت دے تو مکالمہ یک رخی تقریر میں تبدیل ہو جاتا ہے ، معنی کی دنیا سکڑ جاتی ہے اورعلم رک جاتا ہے۔
مارٹن بوبر(Martin Buber) واضح کرتے ہیں کہ مکالمہ صرف اُس وقت حقیقت رکھتا ہے جب ہم دوسرے کو "وجود” کے طور پر تسلیم کریں، نہ کہ "شے” کے طور پر۔ علم غلبے کا وسیلہ نہیں، اشتراکِ وجود کا عمل ہے۔ اس اشتراک میں ہم اپنی انفرادیت نہیں کھوتے، صرف انا پس منظر میں چلی جاتی ہے تاکہ معنی مرکزی حیثیت اختیار کر سکے۔
اس لیے مکالمہ ترک نہیں کیا جا سکتا۔ مکالمہ انسانی وجود کی ضرورت ہے۔ سچائی اجتماعی کوشش سے پیدا ہوتی ہے، نہ کہ اکیلے فرد کے جواب اور فیصلے سے۔ سوال اور جواب کتابی مشقیں نہیں، انسانی شناخت، شعور اور معنی کی دریافت کا عمل ہیں۔ جہاں مکالمہ رک جائے، وہاں شعور منجمد ہو جاتا ہے۔ اور جب شعور منجمد ہو جائے تو انسان صرف ایک چلتی پھرتی مشین رہ جاتا ہے۔ پھر وہ سوچتا نہیں، صرف حکم کی تعمیل کرتا ہے

