تحریر: وحید مراد
کچھ اہلِ فکر کا کہنا ہے کہ علم میں محض "سوال اٹھانا” فکر کی بے نسبی اور انتشار کو بڑھا دیتا ہے۔ ان کے نزدیک وہی سوال علمی ترقی کا ذریعہ بنتا ہے جو موضوع سے جڑا ہو اور اس کی گہرائی اور وسعت میں اضافہ کرے۔ انکےبقول مسئلہ علمی دلیل یا فکری اصالت کا نہیں، بلکہ مکالمے کے امکان کا ہے۔ تحریریں لکھی جاتی ہیں مگر ان کا محور اکثر "پس چہ باید کرد” تک محدود رہ جاتا ہے، اسی لیے وہ وعظ سے آگے نہیں بڑھ پاتیں۔ اکثر مکالمہ جھگڑے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور غیر متعلق سوالات گفتگو کو بے سمتی کی طرف لے جاتے ہیں۔
اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ کیا سوال اٹھانا واقعی انتشار ہے، یا ہمارا ظرفِ مکالمہ تنگ ہو چکا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ نزاع کے خوف نے ہمیں اس جراتِ فکر سے محروم کر دیا ہے جو ہمیشہ علم کی پہلی سیڑھی رہی ہے؟ شاید اصل خدشہ جھگڑے کا نہیں بلکہ اس بات کا ہےکہ سوال کہیں موجودہ فکری ڈھانچوں کو بدل کر سوچ کو نئی سمت نہ دے دے۔
فکر اور علم کا سفر ہمیشہ سوال سے شروع ہوتا ہے۔ ابتدا میں سوال اکثر بے ترتیب، بے نسب، غیر مربوط اور بظاہر بے مقصد محسوس ہوتے ہیں۔ اگر "صرف سوال اٹھانے” کو انتشار کہہ دیا جائے تو پھر سقراط سے اقبال تک ہر مفکر اور سائنسدان کو مفسدِ روایت کہنا پڑے گا، کیونکہ ابتدا میں ان کے سوال بھی چونکا دینے والے اور نامانوس تھے۔
علم کبھی جمود کے سانچے میں نہیں پنپتا۔سوال پہلے جنم لیتا ہے اور راستہ بعد میں بنتا ہے۔ تاریخ کے بڑے سوالوں نے بھی ابتدا میں تضحیک، تحقیر، تمسخر اور الزامات کے سنگین فتوے برداشت کیے۔ انہیں عقیدے، مذہب اور مروجہ سائنس کے دائرے سے باہر سمجھا گیا لیکن انہی سوالات نے بعدازاں نئی علوم کی بنیاد رکھی، نئی سمتیں متعین کیں اور انسانی شعور کو نئی منازل عطا کیں۔
سوال کی قدر اس کی نیت، طلب اور دیانت سے متعین ہوتی ہے۔ وہ سوال جو صداقت کی جستجو اور حقیقت کی پیاس سے ابھرے، علم کی تخلیق کا محرک بنتا ہے۔ جبکہ طنز، الزام یا تحقیر سے اٹھنے والا سوال علم کا نہیں، اضطرابِ نفس کا اظہار ہے۔ کمزور سوالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں؛ وہ نہ کسی بنیاد کو ہلا سکتے ہیں، نہ کسی فکری عمارت کو ڈھا سکتے ہیں وہ اپنے آپ ہی ختم ہوجاتے ہیں۔
سوال کی آزادی انسان کا فطری حق ہے اس لیے اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی۔ جب سوال پر قدغن لگتی ہے تو فکر کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس نے ہم سے جرات سوال چھین لی۔ مجاہدہ بھی سوال ہے کہ میں اپنی کمزوریوں سے کیسے لڑوں؟ محاسبۂ نفس بھی سوال ہے کہ میں کہاں خطا پر ہوں؟ تفکر اور تدبر بھی سوال ہیں کہ حقیقت کیا ہے اور انجام کیا ہوگا؟ اور اجتہاد بھی اس سوال کے بعد نمودار ہوتاہے کہ بدلتے حالات میں حکمت و عمل کا موزوں راستہ کیا ہو؟
سوال رک جائے اور جواب پہلے سے طے کر دیے جائیں تو جمود اور روحانی موت واقع ہوتی ہے ۔ انتشار اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سوال کو جرم سمجھ کر علم کو اقتدار اور بیانیہ سازی کا آلہ بنا دیا جائے۔ علم کو کسی گروہ کی ملکیت سمجھ کر سائل کو گستاخ اور ناپختہ قرار دے دیا جائے۔ سوال تو وجود کی بھوک ہے؛ اسے روکنا علم نہیں، آمریت ہے۔ علم کو خطرہ سوال سے نہیں، جمود اور کنٹرول سے ہے۔
موضوع بھی کوئی پتھر کی لکیر نہیں۔ موضوع سیال ہوتا ہے اور ایک سوال کئی موضوعات میں سرایت کرسکتا ہے۔ فلسفہ، سائنس، تاریخ، دین، تصوف، سماج سب ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں ۔ ہر سوال کئی نئے موضوعات کے دروازے کھولنے کےامکان رکھتا ہے اور علم کبھی ایک محدود فریم میں قید نہیں رہتا۔ موضوع تحقیق سے جنم لیتا اوروسعت پاتا ہے، وہ پہلے سے طے شدہ حدود کا غلام نہیں ہوتا۔ کوئی ایک فردیہ حق نہیں رکھتا کہ وہ طے کرے کون سا سوال متعلق ہے اور کون سا نہیں، ورنہ یہ مکالمہ نہیں علمی تسلط کہلائے گا۔
سوال اٹھانا جستجو کی ابتدا ہے، جبکہ سوال کا انتخاب مکالمے کی ترتیب۔ کسی سوال کو مؤخر کیا جا سکتا ہے لیکن اسے غیر متعلق قرار دے کر رد کرنا یا لغو قرار دینا علمی آداب کے خلاف ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوال اپنی جگہ اہم ہے، لیکن موجودہ گفتگو کا محورِ ارتکازکچھ اور ہے۔ سوال دروازے پر دستک ہے اور جواب اس کا کھل جانا۔ بعض دروازے فوراً کھلتے ہیں، کچھ انتظار چاہتے ہیں اور کچھ پر دستکیں صدیوں گونجتی رہتی ہیں۔
تحریر کے تجزیے میں سوال رد کرنا بے معنی ہے۔ ناقد وہ سوال چنتا ہے جو اس کے نزدیک معنی کی گرہ کھولتا ہے۔ اگر سوال غیر متعلق ہوتا تو وہ انتخاب میں آتا ہی نہیں۔ اس لیے اپنے منتخب کردہ سوال کو غیر متعلق کہہ دینا دراصل یہ اعتراف ہے کہ ہم اس سوال کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔یہ مکالمہ نہیں، بیانیے کے تحفظ کی کوشش ہے۔
"پہلے سوال کرنا سیکھو” جیسا جملہ اکثر رہنمائی سے زیادہ خاموش کرانے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اہل علم سوال کو روکتے نہیں، اس کی سمت واضح کرتے ہیں، اس کے پس منظر کو کھولتے ہیں، اس کی ساخت کو نکھارتے ہیں اور اسے اس دہلیز تک لاتے ہیں جہاں جواب نمو پا سکے۔سوال روکنا تعلیم نہیں، علم کے دروازے پر کنڈی چڑھانا ہے۔
سوال اگر خام بھی ہو، ادھورا ہو یا وقت سے پہلے پیدا ہو جائے، تب بھی وہ فکر کی دھڑکن اور ذہن کی بیداری کی علامت ہے۔ جواب مؤخر ہو سکتا ہے مگر سوال کو بے معنی کہنا گفتگو کو اپنی پسند کے دائرے میں قید کر دینا ہے۔سوال کبھی غیر متعلق نہیں ہوتا؛ بس ناپختہ، نامکمل یا مزید سفر کا محتاج ہوسکتا ہے۔

