Skip to content

شاہ ولی اللہ اور کال مارکس کی فکر ناکام کیوں ؟

شیئر

شیئر

تحریر: شیرافضل گوجر

جدید دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید ایک مسلسل فکری روایت ہے۔ بائیں بازو کے مفکرین ہوں یا مذہبی حلقے، صدیوں سے یہ استدلال پیش کیا جاتا رہا ہے کہ سرمایہ داری انسان کو انتشار، بے معنویت، غیر مساوی تقسیم اور روحانی زوال کی طرف دھکیلتی ہے۔ پاکستان میں بھی بہت سے اہلِ علم، خصوصاً ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ کے ڈائریکٹر جنرل اور ولی الہی تحریک کے سرپرست اعلی مفتی عبدالخالق آزاد بھی سرمایہ داری کو جدید دور کی تمام معاشی برائیوں کا منبع سمجھتے ہیں اور ان کی تنظیم ایک نقطہ نظر رکھتی ہے۔ لیکن دنیا جس ڈیجیٹل، ذہنی اور غیر مادی معاشی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، وہاں سرمایہ دارانہ نظام کو سمجھنے کے لیے ایک بالکل نئے زاویے کی ضرورت ہے۔ یہ زاویہ سیمیوکپیٹلزم ہے جس کے بانی اطالوی مفکر فرانکو بیرارڈی ہیں۔ یہ مفکر ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ سرمایہ داری پر مارکس کی تنقید کیوں اپنے تاریخی دور سے بندھی تھی اور کیوں جدید سماج مارکس کے سیاسی فارمولے کے مطابق انقلاب پیدا نہیں کرے گا۔

یہی بحث ہمیں ایک اور فکری روایت تک بھی لے جاتی ہے، یعنی برصغیر کے عظیم مذہبی عالم شاہ ولی اللہ کی فکر۔ یہ دونوں روایتیں، یعنی مارکسزم اور ولی اللّٰہی فکر،دو مختلف تہذیبی دنیاوں سے تعلق رکھتی ہیں، مگر دونوں کی ایک مشترکہ تقدیر ہے: یہ جدید دنیا میں بحیثیت اجتماعی نظام کام نہ کر سکیں۔ یہی وہ علمی مقام ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام پر ہونے والی مذہبی تنقید کو جدید سوشیالوجی کی روشنی میں دوبارہ پرکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔
مفتی عبدالخالق آزاد کے دورہ ہزارہ ڈویژن کے موقع پر ہزارہ ایکسپریس نیوز کے سٹوڈیو میں ہم نے ایک انٹرویو کا بندوبست کیا تاکہ ان کے سامنے کچھ سوالات رکھے جائیں جن میں شاہ ولی اللہ اور کارل مارکس کی جدوجہد،افکار کی مماثلت اور نتائج پر بات کی جائے مگر ولی الہی فکر کے دوستوں کا اصرار تھا کہ ان پہلے سے ادارہ رحیمیہ علوم قرانیہ کے قیام کے اغراض و مقاصد ،مسلمانوں کے مسائل،ایک قوم بننے کے تقاضوں کے حوالے سے سوالات کیے جائیں اور پھر دیگر سوالات ان کے سامنے رکھے جائیں۔ہم نے ایسا ہی کیا اور جب ہم مذکورہ سوالات مکمل کرکے اپنے سوالات کی طرف آئے تو اچانک بجلی چلی گئی جس کی وجہ سے ہمارے سوالات ادھورے رہ گیے اور جو ریکارڈنگ ہوئی تھی اس میں بھی تکنیکی مسائل کی وجہ سے بیس منٹس کی ریکارڈنگ ضائع ہو گئی۔انٹرویو کے ہائی لائٹس پر جب ہم نے یہ ٹائٹل دیا کہ ” کارل مارکس اور شاہ ولی اللہ کے افکار ایک جیسے مگر نتائج مختلف کیوں "تو ولی اللہی تحریک کے کچھ کارکنوں نے کمنٹس میں اس سوال پر برا منایا اور ہزارہ ایکسپریس نیوز کے خلاف ہتک عزت کے کیس کی دھمکی دیتے ہوئے ٹائٹل ہٹانے کی وارننگ دی۔ہم نے ضروری سمجھا کہ ہم مفتی عبدالخالق آزاد کے سامنے جو سوالات رکھنا چاہ رہے تھے ان سوالات سے متعلق اپنا نقطہ نظر تحریر کی صورت میں ہزارہ ایکسپریس نیوز پہ شائع کر دیں اس پر جو جو حضرات اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چائیں ہزارہ ایکسپریس نیوز کا پلیٹ فارم انہیں خوش آمدید کہے گا۔

شاہ ولی اللہ اور کارل مارکس کے افکار کا تقابلی جائزہ :

انسانی فکر ہمیشہ دو متوازی دھاروں میں بہتی رہی ہے،ایک وہ جو روح سے مادّے کی طرف جاتی ہے اور دوسری جو مادّے سے روح تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔مذہبی اور مشرقی مفکرین نے ہمیشہ انسانی روح، اخلاق اور عدلِ الٰہی کو محورِ کائنات سمجھا، جب کہ فلسفیوں نے مادّی حقائق اور انسانی محنت کو مرکزِ توجہ بنایا۔
انہی دو دھاروں میں اگر ہم غور کریں تو شاہ ولی اللہ دہلوی اور کارل مارکس دو مختلف دنیاؤں کے فرزند ہونے کے باوجود انسان،معاشرہ اور عدل کے بارے میں کئی فکری نقاط پر قریب دکھائی دیتے ہیں۔
یہ قربت اتفاقی نہیں بلکہ انسانی شعور کے اُس ازلی تسلسل کی علامت ہے جو ظلم، استحصال اور ناانصافی کے خلاف ہر دور میں بیدار رہتا ہے۔

شاہ ولی اللہ دہلوی: عہد، پس منظر اور فکری محرکات

شاہ ولی اللہ دہلوی (1703–1762) مغلیہ سلطنت کے زوال کے عہد میں پیدا ہوئے ایک ایسا دور جب برصغیر میں سیاسی انتشار، اخلاقی پستی اور معاشی استحصال اپنی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ دہلی میں اہلِ علم تفرقے کا شکار تھے، جاگیردار طبقہ عیش و عشرت میں گم تھا، اور عام آدمی غربت، بدامنی اور مذہبی انتشار سے نڈھال۔
شاہ صاحب نے اس بکھرے ہوئے معاشرے میں اصلاحِ امت اور عدلِ اجتماعی کی شمع روشن کی۔ ان کی فکر میں قرآن کا نور، عقل کا استدلال، اور معاشرت کا گہرا فہم یکجا تھا۔ ان کی شہرۂ آفاق تصنیف "حجۃ اللہ البالغہ” دراصل معاشرتی توازن اور الٰہی عدل کے اصولوں کا فلسفیانہ بیان ہے۔
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دین کا مقصد صرف عبادات نہیں بلکہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں ظلم، استبداد، بھوک اور استحصال کا خاتمہ ہو۔ ان کے نزدیک "عدل” وہ روح ہے جو فرد، خاندان اور ریاست تینوں کو مربوط رکھتی ہے۔

کارل مارکس: زمانہ، معاشی حالات اور فکری اساس

کارل مارکس (1818–1883) یورپ کے صنعتی انقلاب کے دور میں ابھرا — ایک ایسا زمانہ جب مشین نے انسان کو محنت کی زنجیروں میں جکڑ لیا تھا۔ سرمایہ دار طبقہ چند ہاتھوں میں دولت جمع کر رہا تھا، اور مزدور طبقہ فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔
مارکس نے اس نظامِ ظلم کو "سرمایہ داری” (Capitalism) کہا اور اس کے خلاف فکری و انقلابی تحریک برپا کی۔
اس کے نزدیک انسانی تاریخ کی تمام کشمکش طبقاتی جدوجہد (Class Struggle) ہے۔ اس نے بتایا کہ سرمایہ دار محنت کش کی محنت کو لوٹ کر نفع حاصل کرتا ہے، اور یہ استحصال صرف اس وقت ختم ہو سکتا ہے جب ذرائع پیداوار سب کے اجتماعی تصرف میں ہوں۔
مارکس کا خواب ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں "ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے، اور ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے۔”

سماجی انصاف اور معاشی عدل مشترکہ فکری بنیاد

شاہ ولی اللہ اور مارکس، دونوں کے ہاں سماجی انصاف (Social Justice) مرکزی قدر ہے۔
مارکس کے نزدیک عدل کا مطلب یہ تھا کہ کوئی انسان دوسرے کی محنت پر قابض نہ ہو، اور معاشی وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز نہ رہیں۔
شاہ ولی اللہ نے اسی اصول کو دینی زبان میں یوں بیان کیا کہ "دولت اللہ کی امانت ہے، جسے بندوں کے درمیان عدل کے ساتھ تقسیم ہونا چاہیے۔”
ان کے نزدیک زکوٰۃ، صدقات، عشر اور وراثت جیسے احکام دراصل معاشی توازن کے اصول ہیں۔
یوں اگرچہ ایک کی زبان دینی اور دوسرے کی فلسفیانہ ہے، مگر دونوں کے ہاں ظلم، استحصال اور نابرابری کا انکار یکساں شدت سے موجود ہے۔

طبقاتی نظام اور استحصال کے خلاف جدوجہد

مارکس کے نزدیک معاشرے کی سب سے بڑی خرابی طبقاتی تقسیم ہے — حاکم اور محکوم، سرمایہ دار اور مزدور۔ اس تقسیم سے طاقت، دولت اور انصاف سب ایک طبقے کے قبضے میں آ جاتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ کے عہد میں بھی یہی صورتِ حال تھی؛ مغل دربار کے امراء، جاگیردار اور گورنر عوام کے خون پسینے سے محل تعمیر کر رہے تھے۔ شاہ صاحب نے اس طبقاتی جبر کو دینی اور اخلاقی انحطاط قرار دیا۔
انہوں نے فرمایا کہ "جب حکمران طبقہ رعایا کی محنت کا پھل خود کھاتا ہے تو اللہ کا قہر نازل ہوتا ہے۔”
مارکس نے جس ظلم کو "اقتصادی استحصال” کہا، شاہ ولی اللہ نے اسے "ظلمِ اجتماعی” کے نام سے پہچانا۔
دونوں نے اس کے خلاف بیداری اور مزاحمت کو لازمی قرار دیا۔

محنت، رزقِ حلال اور انسانی وقار

مارکس نے اپنی نظریۂ قدر (Labor Theory of Value) میں کہا کہ تمام دولت محنت سے پیدا ہوتی ہے، مگر سرمایہ دار اس محنت کا حق غصب کر لیتا ہے۔
شاہ ولی اللہ نے بھی محنت کو عبادت قرار دیا اور فرمایا کہ "جو شخص دوسروں کی محنت کا حق کھاتا ہے وہ اللہ کی زمین پر ظالم ہے۔”
اسلامی تصورِ رزق اور مارکسی تصورِ محنت دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ محنت ہی انسان کے وقار کی بنیاد ہے۔
شاہ صاحب کے نزدیک رزقِ حلال نہ صرف جسم کی غذا ہے بلکہ روح کی پاکیزگی کا ذریعہ بھی۔
یوں مارکس کا "Economic Liberation” اور شاہ صاحب کا "رزقِ طیب” دراصل انسانی آزادی کی دو مختلف تعبیرات ہیں — ایک مادّی سطح پر، دوسری روحانی سطح پر۔

تاریخ اور معاشرت کی حرکت ۔۔۔۔ارتقا کا اصول

مارکس کا نظریۂ تاریخ مادی ارتقا (Historical Materialism) پر مبنی ہے۔ اس کے نزدیک تاریخ جامد نہیں بلکہ مسلسل تغیر پذیر ہے، اور معاشی قوتیں ہی اس تغیر کو جنم دیتی ہیں۔
شاہ ولی اللہ نے بھی انسانی تاریخ کو ایک متحرک عمل سمجھا۔ ان کے نزدیک انسانی تمدن بدوی حالت سے شہری حالت تک ترقی کرتا ہے، اور یہ تغیر اللہ کی سنت ہے۔
انہوں نے "حجۃ اللہ البالغہ” میں بتایا کہ جب انسان اخلاق و عدل کے اصول بھول جاتا ہے تو زوال آتا ہے، اور جب عدل قائم ہوتا ہے تو عروج۔
یوں دونوں مفکرین کے ہاں "تبدیلی” کو قانونِ فطرت سمجھا گیا ہے البتہ مارکس کے نزدیک یہ تبدیلی معاشی قوتوں سے، اور شاہ ولی اللہ کے نزدیک اخلاقی و الٰہی قوتوں سے جنم لیتی ہے۔

انسان، اخلاق اور انقلاب فکری اشتراک کی انتہا

مارکس کا انقلاب سیاسی و معاشی نوعیت کا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مزدور طبقہ سرمایہ دارانہ جبر کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اور نظام کو بدل دے۔
شاہ ولی اللہ کا انقلاب روحانی و اخلاقی نوعیت کا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انسان کا دل بدلے، نیت درست ہو، حکمران عادل بنے، اور رعایا بیدار ہو۔
لیکن دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ظلم کے نظام کو بغیر جدوجہد کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
مارکس نے مزدور کو انقلاب کا مرکز بنایا، اور شاہ ولی اللہ نے مومن کو۔
ایک نے "مادی بیداری” کی دعوت دی، دوسرے نے "روحانی بیداری” کی — مگر دونوں کا نصب العین ایک تھا:

"انسان کو اُس کی محنت، اُس کی عزت اور اُس کے حق سے جوڑ دینا۔”

اختلاف کی حدود مادیت اور روحانیت کے دو زاویے:

یہاں پہنچ کر ایک بنیادی فرق سامنے آتا ہے۔
مارکس کی بنیاد مادیت (Materialism) پر ہے اس کے نزدیک مذہب ایک سماجی ساخت ہے جو بعض اوقات استحصال کو تقویت دیتا ہے۔
شاہ ولی اللہ کی بنیاد وحی اور الہام (Revelation) پر ہے ان کے نزدیک دین ہی انسان کو ظلم سے نجات دیتا ہے۔
مارکس نے انسان کو "مزدور” کی حیثیت سے دیکھا، جب کہ شاہ ولی اللہ نے اسے "خلیفۃ اللہ” کے درجے پر فائز کیا۔
مارکس کے نزدیک نجات اجتماعی معاشی نظام سے آتی ہے، اور شاہ ولی اللہ کے نزدیک نجات ایمان، اخلاق اور عدلِ الٰہی کے قیام سے۔
یوں دونوں ایک ہی منزل کے راہی ہیں مگر راستے مختلف ہیں ایک عقل کی روشنی میں، دوسرا وحی کی رہنمائی میں۔

تاریخ کے اس پار دیکھیں تو شاہ ولی اللہ اور کارل مارکس دو مختلف دنیاؤں کے مسافر ہیں، مگر ان کے خواب میں ایک ہی تصویر جھلکتی ہے
عدل و انصاف کا معاشرہ۔
دونوں نے اپنے زمانے کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، دونوں نے محنت اور انسان کی عظمت کا اعلان کیا، دونوں نے طبقاتی جبر کو چیلنج کیا۔
فرق صرف یہ ہے کہ مارکس کا عدل زمین سے آسمان تک پہنچنے کی کوشش ہے، اور شاہ ولی اللہ کا عدل آسمان سے زمین پر اترنے والا نظام۔
مارکس نے انسان کو خدا سے آزاد کر کے اس کی معاشی زنجیروں کو توڑنا چاہا، جب کہ شاہ ولی اللہ نے انسان کو خدا سے جوڑ کر اس کی روحانی غلامی کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
اس کے باوجود دونوں کے نظریات ایک پائیدار نظام کی شکل میں کیوں نہ ڈھل سکے؟

اس حوالے سے فرانکو بیرارڈی سوچ کا ایک اہم زاویہ فراہم کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مارکس کا پورا تصور ایک ایسی دنیا کے بارے میں تھا جہاں مزدور فیکٹریوں میں اکٹھے کام کرتے تھے۔ وہاں ایک ہی مالک، ایک کارخانہ، اجتماعی ہڑتال اور ایک ہی دشمن ہوتا تھا۔ یہی جسمانی اکٹھ یکجہتی کو جنم دیتا تھا۔ لیکن آج کی دنیا وہ دنیا نہیں رہی۔ آج انسان کے ہاتھ سے زیادہ اس کا ذہن، اس کی توجہ، اس کی تخلیق، اس کا ڈیٹا اور اس کی ذہنی توانائی سرمایہ داری کی بنیاد ہیں۔ اب پیداوار جسمانی نہیں، علامتی ہے۔ اب لیبر مشین کو نہیں، کوڈ کو، معلومات کو، سکرین کو، امیجز کو اور ذہنی پروسیسنگ کو چلانے کا نام ہے۔ یہی وہ سرمایہ داری ہے جسے سیمیوکپیٹلزم کہا جاتا ہے۔

اس دنیا میں سرمایہ دار واضح نہیں رہتا۔ فیکٹری کا مالک سامنے کھڑا نہیں ہوتا۔ دشمن اب کوئی ایک شخص یا طبقہ نہیں جسے مزدور شناخت کر سکیں۔ سرمایہ دارانہ طاقت اب ایک بٹن کی حرکت سے دنیا بھر میں پھیل سکتی ہے۔ سرمایہ ہر جگہ ہے مگر کہیں نظر نہیں آتا۔ یوں وہ پرانا سیاسی سوال جسے مارکس نے سماجی جدلیات کی بنیاد بنایا تھا , دشمن کون ہے ؟ آج دھندلا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یکجہتی بکھر گئی ہے,لوگ جسمانی طور پر اکٹھے نہیں ہوتے اور جب جسم ساتھ نہ ہوں تو دل بھی زیادہ دیر تک اکٹھے نہیں رہ سکتے۔

اس بکھری ہوئی دنیا میں انسان کا وقت، ذہن اور رشتے بے حد منتشر ہو چکے ہیں۔ کام کی تقسیم، زندگی منقسم اور تعلقات بٹے ہوئے ہیں — سب کچھ fractal ہو چکا ہے۔ کسی کے پاس اس بات کا موقع ہی نہیں کہ وہ مسلسل اور مستحکم یکجہتی پیدا کرے۔ نوجوان چند گھنٹوں کو احتجاج میں آتے ہیں، وڈیو بناتے ہیں، اپ لوڈ کرتے ہیں، پھر بکھر جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں آن لائن بات کرتی ہیں مگر زمینی تنظیم سازی کمزور ہو چکی ہے۔ یوں انقلاب کا پورا classical ماڈل ٹوٹ جاتا ہے۔ مارکس کا انقلابی ہجوم آج کی دنیا میں ممکن نہیں رہا کیونکہ نہ وہ کارخانے موجود ہیں، نہ وہ یکجہتی، نہ دشمن کی واضح کوئی شناخت ۔

یہاں تک کی بحث سرمایہ داری کے ایک تضاد کو واضح کرتی ہے، لیکن اسی تضاد کے اندر سرمایہ داری کی قوت بھی چھپی ہے۔ سرمایہ داری جامد نہیں رہتی۔ یہ مسلسل بدلتی ہے۔ مارکس کے دور کی مشینی سرمایہ داری ڈیجیٹل اور سیمیوٹک سرمایہ داری میں بدل چکی ہے۔ یہی وہ لچک ہے جو سرمایہ داری کو زندہ رکھتی ہے، جبکہ مارکسزم یا سوشل ازم اپنی فکری سختی کے باعث اپنے دور سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اس کے مقابلے میں سرمایہ داری ہر دور میں نئی شکلیں اختیار کرتی آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید دنیا کے تمام معاشی تجربے سرمایہ داری کے اندر کامیاب ہوئے اور اس کے باہر نہیں۔

یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے: اگر مارکس کی فکر اپنے تاریخی دور سے باہر کارآمد نہیں رہی تو کیا مذہبی ،روحانی سیاسی و معاشی فکر، جیسی کہ شاہ ولی اللہ نے پیش کی، جدید دنیا میں زیادہ قابل عمل ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب بھی تاریخی اور معاشرتی حقائق کی روشنی میں نفی میں ہے۔
شاہ ولی اللہ کی فکر اخلاقی، روحانی اور سیاسی اصلاح پر مبنی تھی۔ وہ انسانی تزکیہ، عدلِ عمرانی اور ریاستی اصلاح کو سماجی تبدیلی کی بنیاد سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک معاشرے کا بگاڑ انسان کی اخلاقی کمزوری سے پیدا ہوتا ہے، نہ کہ پیداواری رشتوں یا معاشی ڈھانچے سے۔ اس کے برعکس مارکس معاشی ڈھانچے کو اصل مسئلہ اور اصل حل سمجھتے تھے۔

یہاں دونوں کی فکر کا بنیادی فرق سامنے آتا ہے۔ مارکس نے معاشی نظام کا ایک جامع خاکہ پیش کیا، چاہے وہ غلط ثابت ہوا۔ شاہ ولی اللہ نے کوئی معاشی ماڈل نہیں دیا، صرف اخلاقی و سیاسی اصلاح پر زور دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جدید دنیا میں شاہ ولی اللہ کی فکر مارکس کے مقابلے میں زیادہ غیر مؤثر ثابت ہوئی۔ جدید معیشت بینکاری، ٹیکس، ریاستی بجٹ، سرمایہ، مارکیٹ اور عالمی تجارت کے بغیر نہیں چل سکتی۔ شاہ ولی اللہ کی فکر میں ان موضوعات پر کوئی عملی رہنمائی موجود نہیں۔ یوں ان کے نظریات عملی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے ہی ناموزوں ہو جاتے ہیں۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ شاہ ولی اللہ کی سیاست مکمل طور پر pre-modern ہے، جبکہ دنیا post-industrial اور ڈیجیٹل ہو چکی ہے۔ مارکسزم کی ناکامی اس حقیقت سے جڑی تھی کہ دنیا فیکٹریوں کے منظم سماج سے نکل کر بکھری ہوئی ڈیجیٹل دنیا بن چکی ہے۔ مگر شاہ ولی اللہ کی فکر تو مارکس کے دور سے بھی پیچھے یعنی بادشاہی، اشرافیائی اور قبائلی سیاسی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لئے جدید دنیا میں وہ اور بھی زیادہ غیر متعلق ہو جاتی ہے۔

ایک اور اہم فرق یہ ہے کہ مارکس کا طبقاتی تجزیہ جدید سوشیالوجی میں ایک سائنسی نقطہ کے طور پر موجود ہے، چاہے نتیجہ غلط نکلا۔ شاہ ولی اللہ کی طبقات بندی اخلاقی زبان میں تھی، جو عملی سیاست یا معاشیات کے لیے قابل استعمال نہیں۔ جدید دنیا میں طبقہ معاشی رشتوں سے پیدا ہوتا ہے، اخلاقی صفات سے نہیں۔

یہ تمام دلائل اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ جدید دنیا میں سرمایہ داری کی حیثیت محض ناگزیر نہیں بلکہ سب سے زیادہ مؤثر بھی ہے۔ یہ انسانی کمزوریوں سے خالی نہیں، لیکن یہ انسانی ترقی، ٹیکنالوجی، علم اور آزادی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ اس نے دنیا میں غربت کم کی، روزگار بڑھائے، اور فرد کو اپنی محنت کا مالک بنایا۔ سیمیوکپیٹلزم میں تخلیق، ذہانت اور معلوماتی محنت کو قدر ملتی ہے۔ یوٹیوبر، فری لانسر، ڈیجیٹل آرٹسٹ، سافٹ ویئر انجینئر، محقق، ڈیزائنر — یہ سب اس سرمایہ داری کی پیداوار ہیں جو فرد کو نئے امکانات دیتی ہے۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سرمایہ داری کامل ہے۔ یہ انسان کو تھکا دیتی ہے، وقت کو توڑ دیتی ہے، یکجہتی کم کر دیتی ہے، ذہنی دباؤ بڑھاتی ہے۔ لیکن ان مسائل کا حل سرمایہ داری کے خاتمے میں نہیں، بلکہ اس کی اخلاقی اصلاح، سماجی ضابطوں اور بین الاقوامی ریگولیشن میں ہے۔ دنیا کے سب سے کامیاب ممالک — فن لینڈ، ناروے، ڈنمارک، جاپان، کینیڈا — اسی مخلوط سرمایہ داری پر کھڑے ہیں جہاں مارکیٹ، ریاست اور سماج مل کر توازن قائم کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جدید دنیا میں نہ مارکسزم واپس آ سکتا ہے، نہ شاہ ولی اللہ کا اخلاقی-روحانی معاشی تصور کسی عملی نظام میں ڈھل سکتا ہے۔ جدید دنیا ایک ایسے معاشی فریم ورک کی متقاضی ہے جو مسلسل بدل سکے، نئے مواقع پیدا کرے، فرد کو آزادی دے، اور علم کو معاشی قدر میں تبدیل کر سکے۔ یہ خصوصیات صرف سرمایہ داری میں موجود ہیں۔

اس لئے حل سرمایہ داری کے خاتمے میں نہیں بلکہ اسے بہتر بنانے میں ہے۔ نظام کو نہیں، اس کے اندر کے عدم توازن کو بدلا جائے۔ انسان کو سرمایہ داری کا قیدی نہیں بلکہ اس کا فعال صارف اور ناقد بنایا جائے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں جدید سوشیالوجی، مذہبی اخلاقیات اور معاشی حقیقت پسندی ایک دوسرے سے مل کر بہتر دنیا کی تشکیل میں مدد دے سکتی ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں