طنز و تحقیر بطور ہتھیار : دلیل کی کمزوری کا اعتراف | Hazara Express News
Skip to content

طنز و تحقیر بطور ہتھیار : دلیل کی کمزوری کا اعتراف

شیئر

شیئر

تحریر: وحید مراد

علم کی روایت یہ سکھاتی ہے کہ استدلال کا مقصد سوال کو دبانا نہیں بلکہ اس کی سمت واضح کرنا اور فہم کے دروازے کھولنا ہے۔علم سوال سے جنم لیتا ہے اور مکالمہ اس کی روح ہے۔ جہاں گفتگو دلیل کے بجائے سختی یا بڑائی کا اظہاربن جائے وہاں علم کی جگہ انا، اور مکالمے کی جگہ مسابقت لے لیتی ہے۔پیچیدہ اصطلاحات، مبہم جملوں اور تیز لہجے سے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا مقصد قاری کو سمجھانا نہیں متاثر کرنا ہو۔ سوال کرنے والے کو کم فہم یا مبتدی قرار دینا، وضاحت کے بجائے تحقیر کی راہ اختیار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ لکھنے والا مفہوم پر نہیں صرف الفاظ پر قابض ہے۔

طنز محض تضحیک کا نام نہیں، یہ اس وقت بھی ظاہر ہوتا ہے جب موقف کو بلاجواز مبالغے کے ساتھ پیش کیا جائے، کسی خیال کو مسخ کر کے غیر سنجیدہ بنا دیا جائے، ظاہری شائستگی کے پیچھے تحقیر کو چھپا دیا جائے۔ پیچیدہ علامتوں،ثقیل اصطلاحات اور استعاروں کے ذریعے علمیت کا ایسا تاثر قائم کیا جائے جس میں دلیل پس منظر میں چلی جائے۔ جب علمی گفتگو جذباتی یا ادبی رنگ میں اس طرح ڈھل جائے کہ استدلال اور معنی غائب ہو جائیں تو صرف الفاظ کی رونق باقی رہتی ہے۔اس طرزِ کلام کا مقصد اکثر سوال سے گریز ، مخاطَب کے موقف کو بغیر کسی مضبوط دلیل کے کمزور ثابت کرنا اور اپنی رائے کو قطعی سچ ثابت کرناہوتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب طنز ادبی حیثیت کھوکرفتوے کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ اختلاف کو جرم اور سوال کو گناہ بنا دیاجاتا ہے اور مکالمہ اپنی اصل روح سے ہٹ کر انا ، فکری برتری اور علمی تسلط کا مظہر بن جاتا ہے۔

علم کا راستہ بدگمانی نہیں، وضاحت ہے؛ برتری نہیں، دیانت ہےاور مکالمہ میدان جیتنے کا نہیں، سمجھنے اور سمجھانے کا نام ہے۔ علمی روایت یہی سکھاتی ہے کہ سوال کو موقع دیا جائے، دلیل سے جواب دیا جائے اور اختلاف کو وقار اور تحمل کے ساتھ برتا جائے۔علمی شخص سوال سے گریز نہیں کرتا، تضحیک اور استہزا کو ڈھال نہیں بناتا۔ سوال کا سامنا کرتا ہے، دلیل سے جواب دیتا ہے اور مہذب لہجے میں گفتگو کرتا ہے۔ سقراط نے کہا تھا کہ غصہ دلیل کی موت ہے اور بعض اوقات طنز اسی غصے کا روپ بن کر ظاہر ہوتا ہے۔ سوال کو محدود کرنا یا اس کی اہمیت گھٹانا دراصل مکالمے سے خوف اور فکر کی غیر یقینی کا اظہار ہے۔

طنز ہر حالت میں معیوب نہیں ہوتا۔ لطافت، شگفتگی اور ملائم اسلوب گفتگو میں تازگی پیدا کرتے ہیں۔ مگر طنز کا مقصد سوال کو خاموش کرنا یا مخاطب کی شخصیت کو مجروح کرنا بن جائے تو یہ علم کی خدمت نہیں ،محض نفسیاتی دفاع اور فکری جبر ہے۔ احترام کے بغیر اختلاف زرخیز نہیں ہوتا اور بحث تہذیب کے بجائے کشمکش میں بدل جاتی ہے۔ ادبی نزاکتیں یقیناً حسن پیدا کر سکتی ہیں، لیکن فلسفے اور علمی گفتگو میں وزن دلیل سے آتا ہے، لہجے سے نہیں۔

تحقیر دل میں دیواریں کھڑی کر دیتی ہے۔ جب انسان یہ کہنے کا حوصلہ کھو دے کہ ممکن ہے میں غلط ہوں تو فہم کے دروازے بند ہونے لگتے ہیں۔ جو ذہن روشنی پا سکتا تھا وہ انا کے حصار میں قید ہو جاتا ہے۔ طنز سے وقتی برتری مل سکتی ہے مگر یہ دلیل کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ روش رفتہ رفتہ صبر، تدبر اور فکر کی وسعت کو کم کر دیتی ہے اور انسان معنی کی تخلیق سے دستبردار ہو کر صرف الفاظ چلانے والاکا ریگر رہ جاتا ہے ۔

مکالمہ اس وقت بارآور ہوتا ہے جب نیت سمجھنے، سمجھانے اور وضاحت کی ہو، جیتنے کی نہیں۔ تمام اہل علم کا اس بات پراتفاق ہے کہ مکالمہ احترام، وقار، تواضح، دوسرے فریق کو سننے اور باہمی گنجائش کا نام ہے۔ جب طنز غالب آ جائے تو گفتگو یک طرفہ بیان بن جاتی ہے اور اخلاقی اقدار بھی پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ تاریخ بھی اس بات پر گواہ ہے کہ جہاں سوال کو آزادی ملی، وہاں روشنی پیدا ہوئی اور جہاں سوال کو دبایا گیا وہاں جمود اور تاریکی نے جنم لیا۔

مذکورہ اصولوں کا اطلاق صرف جواب دینے والے پر ہی نہیں سوال اٹھانے والے پر بھی ہوتا ہے۔ سوال میں بھی تہذیب، انصاف اور علمی دیانت ضروری ہیں۔ سوال کا مقصد کسی کی بے عزتی، آزمائش، طنز یا تضحیک نہیں ہونا چاہیے۔ اچھا سوال وہ ہے جو ذہن کھولے، بحث کو وسعت دے ، حقیقت کے قریب لے جائے اور نیتِ خیر سے پیدا ہو۔جو سوال محض تمسخر اور چال ہو، وہ سوال نہیں، ہتھیار ہے۔ سوال اگر تکبر یا جارحیت کے ساتھ ہو تو وہ گفتگو کو آگے نہیں بڑھاتا صرف دلوں کو زخمی کرتا ہے۔ سوال وہی معیاری ہوتا ہے جو ادب، تحمل اور احترام کے ساتھ اٹھے۔ سچا سائل وہ ہے جو خود بھی سیکھنے کی آمادگی رکھتا ہو۔

سوال اور جواب دونوں خلوص نیت، شائستہ لہجے اور دیانت دارانہ استدلال کے محتاج ہیں۔ اختلاف کریں، دلیل سے؛ اصطلاحات واضح کریں؛ سوال کھولیں، بند نہ کریں۔ فلسفہ روشنی ہے، تذلیل نہیں ،مکالمہ مقابلہ نہیں، فہم و آگہی کا سفر ہے۔ گفتگو کا مقصد جیتنا نہیں سمجھنا اور سمجھانا ہے۔ سوال کو عزت دیجیے، جواب کو وقار دیجیے اور گفتگو کو نرم روشنی کی طرح پھیلنے دیجیے ورنہ صرف الفاظ رہ جائیں گے، معانی بکھر جائیں گے۔ مکالمہ چراغ ہے؛ جسے بجھانے والا سب سے پہلے اپنی روشنی کھو دیتا ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں