سردار اویس
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے چیٹ جی پی ٹی نے ہر دوسرے شخص کو فلسفی، شاعر اور دانشور بنا دیا ہے۔ اب الفاظ کی روانی تو ہے، مگر ان میں وہ حرارت نہیں جو دل کے اندر سے ابلتی ہے۔ ہر جملہ درست، ہر پیراگراف مکمل، مگر احساس کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ زمانہ الفاظ کی چمک کا ہے، مگر معنی کی روشنی مدھم ہوتی جا رہی ہے۔
تحریر کبھی وجدان سے نکلنے والا عمل تھی، اب یہ سہولت کا نتیجہ بن گئی ہے۔ پہلے لکھنے والا سوچتا، محسوس کرتا، پھر قلم اٹھاتا تھا۔ اب جملے تیار ہوتے ہیں، جذبے نہیں۔ فکر کی جگہ فارمولا آ گیا ہے اور محنت کی جگہ مختصر راستے نے لے لی ہے۔ علم اب تجربے سے نہیں بلکہ ہدایات سے جنم لیتا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ انسان نے اپنی تخلیقی آزادی کو سہولت کے حوالے کیا ہو۔ صدیوں پہلے یونان کے فلسفی سُقراط نے لکھائی کی ایجاد پر اعتراض کیا تھا کہ جب علم کو کاغذ پر منتقل کر دیا جائے گا تو انسان کی یادداشت کمزور ہو جائے گی اور وہ سوچنے کی مشق چھوڑ دے گا۔ اس وقت شاید یہ خیال مبالغہ لگتا تھا، مگر آج کے دور میں وہی خوف کسی اور شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
اسی طرح امریکی مصنف نِکولَس کیر نے اپنی مشہور تحریر میں لکھا تھا کہ انٹرنیٹ نے انسان کے ذہن کو سطحی بنا دیا ہے۔ اب لوگ گہرائی سے پڑھنے اور غور کرنے کی بجائے فوری جواب ڈھونڈنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم معلومات تو زیادہ حاصل کر رہے ہیں مگر سوچ کم ہو رہی ہے۔ گویا علم بڑھ گیا ہے مگر فہم گھٹ گیا ہے۔
یہی منظر آج ہمارے ہاں بھی دکھائی دیتا ہے۔ جب سوشل میڈیا آیا تو الیکٹرانک میڈیا کی ساکھ کمزور ہوئی، مگر پھر بھی ایک خبر کی تصدیق ہم کسی مستند چینل یا معتبر صحافی سے ہی کرتے تھے۔ اب وہی حال علم و ادب کا ہونے جا رہا ہے۔ سہولت نے لکھنے کا عمل بدل دیا ہے، مگر سوچنے کی ذمہ داری کم کر دی ہے۔ شاید اصل لکھاری، محقق اور صاحبِ نظر لوگ غیر ضروری تو نہیں ہوں گے، مگر ان کی آواز مصنوعی شور میں دب جائے گی۔
ماضی میں علم و ادب کا سفر مختلف تھا۔ طالب علم، نئے لکھاری اور دانشور پہلے کتابیں ہاتھ میں لیتے تھے، صفحات کے درمیان محو مطالعہ ہوتے تھے۔ ہر جملہ، ہر خیال کو سمجھنے کے لیے سوچنا پڑتا تھا، اسے اپنے ذہن میں پروان چڑھانا پڑتا تھا۔ پھر قلم اٹھایا جاتا، کاغذ پر الفاظ لکھے جاتے، اور وہ عمل نہ صرف لکھنے والے کے علم میں اضافہ کرتا بلکہ پڑھنے والے کے ذہن میں بھی بصیرت پیدا کرتا۔
نئے لکھاری اور سٹوڈنٹس اس عمل میں استاد، مشاہدہ اور کتابوں کے مابین تعلق قائم کرتے تھے۔ کسی اچھے کالم نویس، مصنف یا دانشور کے کام کو ڈھونڈا جاتا اور اس سے سبق سیکھا جاتا۔ یہ سلسلہ محض معلومات تک محدود نہیں تھا بلکہ سوچنے، محسوس کرنے اور اظہار کرنے کی مشق تھی۔ ہر مطالعہ ایک سفر تھا، ہر تحریر ایک تجربہ۔
آج کا منظر مختلف ہے۔ نئے لکھاری اور طالب علم فوراً جواب کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مشق اور غور و فکر کی جگہ آسانی نے لے لی ہے۔ کتاب ہاتھ میں لینے اور اپنے خیالات کو الفاظ میں ڈھالنے کی مشقت کم ہو گئی ہے۔ وہ سبق جو کسی استاد یا لکھاری کے الفاظ سے حاصل ہوتا تھا، اب چند کلکس میں حاصل کر لیا جاتا ہے۔ اور یہی سہولت نسل نو کے ذہنوں میں سوچنے اور تخلیق کرنے کی صلاحیت کو زنگ آلود کر رہی ہے۔
کچھ دن پہلے میں گاؤں گیا۔ امی کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کے فون پر میرے چھوٹے بھائی کے دوست کا پیغام آیا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ وہ بولا بس ترجمہ پوچھ رہا تھا مگر اب چیٹ جی پی ٹی سے کر لیا۔ میں کچھ دیر چپ رہا۔ دل کے اندر جیسے کوئی خلا سا اتر آیا۔ سوچا علم کا سفر کہاں سے کہاں جا پہنچا۔ اب استاد سے نہیں مشین سے سوال ہوتا ہے۔
یہ سہولت کا زمانہ ہے مگر فکر کی زمین بنجر ہو رہی ہے۔ اب طالب علم سوال نہیں اٹھاتا، صرف جواب ڈھونڈتا ہے۔ علم کبھی محنت، مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوتا تھا۔ اب یہ سب محض تحریری نمونہ بن کر رہ گیا ہے۔ ہم آسانیوں کے قیدی بن گئے ہیں۔ قلم کا لمس، کاغذ کی خوشبو اور وہ وجد جو کبھی لفظوں کے ساتھ بہتا تھا، اب مصنوعی ذہانت کے سانچے میں ڈھل گیا ہے۔
مستقبل کی جھلک بھی سینے میں لرزنی ہے۔ جب اگلی نسل گیارہ، بارہ سال بعد پوچھے گی: کیا تم نے کبھی سوچا تھا؟ کیا تم نے کبھی کوئی لفظ خود تراشا تھا؟ تب یہ سوال سرِِ عام ہوگا کہ کیا ہماری دنیا نے نظام تعرف کی روش کو ہی تُھوکا کہ ہم نے سوچنے کی مشق ترک کردی؟ شاید وہ دن دور نہیں جب “ہم نے سوچنا چھوڑ دیا” ایک تاریخی گناہ شمار ہوگا جس کا تدارک آسانیوں کی لہر کے زیرِِ غلبہ ممکن نہیں رہا۔
کل کے بچے شاید ہم سے پوچھیں گے: کیا آپ کے زمانے میں لوگ خود سوچتے تھے؟ اور شاید اس وقت ہم صرف مسکرا سکیں کیونکہ جواب دینے کے لیے بھی ہمیں کسی چیٹ باٹ کی ضرورت پڑے گی۔
وقت آگے بڑھ رہا ہے، اور دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، مگر کہیں دل کے کسی کونے میں یہ صدا باقی ہے ،
کہ سوچنے والوں کو کبھی مٹنے نہ دینا، چاہے دنیا لکھنے والوں سے بھر جائے۔ سہولت نے قدم بڑھا لیے ہیں، مگر سوچ کے پاؤں زنجیروں میں نہ پڑ جائیں۔

