Skip to content

بلیک مارکیٹ : مصنوعی آنسو سے خون کے آنسو کا سفر

شیئر

شیئر

تحریر: رابعہ سید

یہ پُردرد کہانی ایک آئی ڈراپ مصنوعی آنسو (Tears natural) کی بندش اور قلت سے شروع ہوئی اور میرے خون کے آنسوؤں پر ختم ہوئی۔

میں بتیس (32) سال سے آشوبِ چشم میں مبتلا ہوں۔درد تو سب ہی برے ہوتے ہیں، مگر آنکھ کا درد ناقابلِ برداشت اور مسلسل ہوتا ہے!
ان بتیس سالوں میں نہ جانے کتنے ڈاکٹر بدلے، کتنی دوائیں آزمائیں، مگر درد تھا کہ جان کو آ گیا تھا، ہر ڈاکٹر کی ایک ہی بات ہوتی:

"اس کا کوئی مستقل علاج نہیں، بس مصنوعی آنسو استعمال کرتی رہیں۔”

یوں میں نے بھی خود کو قائل کر لیا کہ شاید اب اسی درد کے ساتھ زندگی گزارنا میرا مقدر ہے۔

مگر پچھلے تین ماہ میں احساس ہوا کہ معاملہ بگڑتا جا رہا ہے۔ آنکھیں دن بدن خشک، زخمی اور سوزش زدہ ہوتی گئیں۔ درد اس قدر بڑھ گیا کہ روشنی، ہوا اور دھوپ سب ناقابلِ برداشت لگنے لگے۔ لکھنا، پڑھنا، جاب پر توجہ دینا، سب کچھ ناممکن ہو چکا تھا۔ میں بے بس تھی، سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔

پھر ایک دن درد نے اپنی انتہا کو پہنچ کر مجھے چیخنے پر مجبور کر دیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی باریک کانچ کے ٹکڑوں سے میری آنکھ پر پے در پے وار کر رہا ہو۔
میں نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل اٹھایا، شوہر کو کال کی اور کراہتے ہوئے کہا:
"آپ کہاں ہیں؟ کب آئیں گے؟ میری آنکھ میں شدید درد ہے…”

وہ ایک دوست کے ساتھ تھے۔ میری حالت سن کر فوراً گھر آئے ۔ ان کے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ جی ٹین تھری میں العین ہسپتال ہے وہاں ایک بہت اچھے آئی اسپشلسٹ ڈاکٹر عرفان اللہ کنڈی ہیں ان سے چیک اپ کروائیں انشاللہ بھابھی کو شفا ملے گی۔ ہم نے فوراً ہسپتال کا رخ کیا ، کچھ دیر انتظار کے بعد میرا نمبر آیا اور ڈاکٹر نے آنکھ کا تفصیلی معائنہ کیا، تین گھنٹے میری بیماری کی ہسٹری لی، اور افسوس سے کہا:

"اتنے سالوں میں کسی نے آپ کی بیماری کو صحیح سمجھا ہی نہیں۔”

انہوں نے چند مخصوص آئی ڈراپس تجویز کیے اور ایک خون کا ٹیسٹ لکھا۔ میرے اپنے خون کے پلازمہ سے آنکھوں کے لیے خاص ڈراپس تیار کیے گئے۔
اور پھر الحمدللہ وہ لمحہ آیا جب برسوں کا درد، سوزش اور جلن رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی۔ میری آنکھوں کو پہلی بار سکون اور آرام نصیب ہوا۔

آج میں جب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو ان تمام لوگوں کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے جنہوں نے اس تکلیف کے دوران میرا ساتھ دیا۔
اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے۔

یہ صرف میری کہانی نہیں بہت سے لوگ دوا کی بندش کے باعث شدید تکلیف میں مبتلا ہیں اور کئی تو جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، اس کے پیچھے کون سا مافیا ہے اس پر مختصراً نظر ڈالتے ہیں ۔

دواؤں کی بندش، بلیک مارکیٹ اور مریض کے ساتھ ناانصافی

صحت انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے، لیکن جب علاج کے ذرائع ہی منافع خوری اور غیر شفاف پالیسیوں کی نذر ہو جائیں تو مریض کے لیے سب سے بڑا دکھ یہ بن جاتا ہے کہ وہ بیماری کے ساتھ ساتھ نظام کی بے حسی سے بھی لڑے۔ آج ہمارے معاشرے میں دواؤں کی بندش اور پھر انہیں دواؤں کی بلیک مارکیٹ میں فروخت ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

دواؤں کی بندش کا سبب کیا ہے؟

دواؤں کی بندش یا مارکیٹ سے غائب ہو جانا بظاہر "کمی” یا "پابندی” کے نام پر کیا جاتا ہے، لیکن اس کے پیچھے کئی پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں:

  1. قیمتوں کا تنازعہ:

بعض اوقات دوا ساز کمپنیاں حکومت سے قیمت بڑھانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ جب مطالبہ پورا نہیں ہوتا تو وہ دوا کی سپلائی روک دیتی ہیں تاکہ مصنوعی قلت پیدا ہو اور دباؤ ڈالا جا سکے۔

  1. خام مال کی درآمد میں مشکلات:

عالمی سطح پر خام مال کی قیمتوں یا دستیابی میں کمی کی وجہ سے بھی دواؤں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے، لیکن اکثر یہ عذر حقیقت سے زیادہ کاروباری حربہ بن جاتا ہے۔

  1. حکومتی پالیسی کی کمزوری:

ادویات کی قیمتوں اور فراہمی پر مؤثر کنٹرول کا فقدان بھی ایک بڑا سبب ہے۔ متعلقہ ادارے یا تو کمزور ہیں یا جان بوجھ کر خاموش رہتے ہیں۔

  1. بین الاقوامی دباؤ یا ریگولیٹری وجوہات:

کبھی کبھار کسی دوا کے سائیڈ ایفیکٹس یا بین الاقوامی معیار پر پورا نہ اترنے کے باعث پابندی عائد کی جاتی ہے، لیکن شفاف معلومات کی کمی عوامی اعتماد کو مزید متزلزل کر دیتی ہے۔

بلیک مارکیٹ کا کھیل

جب کسی دوا کی بندش ہوتی ہے تو عین اسی وقت وہی دوا مارکیٹ سے غائب ہو کر بلیک میں دو یا تین گنا قیمت پر فروخت ہونے لگتی ہے۔

یہ عمل واضح طور پر "استحصال” کی بدترین شکل ہے۔

جو مریض اپنی جان بچانے کے لیے اس دوا کے محتاج ہوتے ہیں، وہ اپنی جمع پونجی دوا کے ایک پیک کے لیے لٹا دیتے ہیں۔

عام دکاندار یا ڈسٹری بیوٹر منافع کے لالچ میں اخلاقیات بھول جاتے ہیں۔

بعض اسپتالوں اور فارمیسیوں کے اندر بھی یہ گٹھ جوڑ پایا جاتا ہے، جہاں دوا "بند” دکھائی جاتی ہے مگر اندرون خانہ "خاص گاہک” کو مہنگے داموں دی جاتی ہے۔

مریض کے ساتھ ناانصافی

یہ سب کچھ ایک مریض کے لیے اذیت ناک المیہ ہے۔

وہ شخص جو دوا پر انحصار کر رہا ہے، اسے "پابندی” کے نام پر محروم کر دیا جاتا ہے، اور پھر اسے وہی دوا بلیک میں خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

یہ صورتحال نہ صرف اخلاقی جرم ہے بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی۔

اسلامی نقطۂ نظر سے بھی کسی بیمار کو اس کے علاج سے محروم کرنا ظلم کی بدترین شکل ہے۔

ذمہ داری کس کی ہے؟

حکومت:

حکومت کا فرض ہے کہ وہ دوا ساز کمپنیوں پر واضح اور سخت پالیسی بنائے، اور مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کرے۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی:

ان کا کردار نگرانی کا ہے، لیکن اکثر یہ ادارہ خود دباؤ یا مفادات کی نذر ہو جاتا ہے۔

دوا ساز کمپنیاں:

انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ علاج تجارت نہیں، خدمت ہے۔

میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز:

عوامی آگاہی پیدا کریں تاکہ کوئی بھی خاموشی سے استحصال کا شکار نہ ہو۔

اصلاح کی ضرورت

بلیک مارکیٹ کے خلاف خصوصی مہم چلائی جائے۔

دوا کی قیمتوں کا باقاعدہ آن لائن نظام بنایا جائے تاکہ کوئی بے جا اضافہ نہ کر سکے۔

ہر دوا کی دستیابی کی شفاف رپورٹ جاری کی جائے۔

دوا ساز اداروں کے منافع کی حد طے کی جائے۔

مریضوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی پلیٹ فارم فعال کیے جائیں۔

جب علاج تجارت بن جائے اور بیماری منافع کا ذریعہ، تو معاشرہ بیمار ہو جاتا ہے، صرف جسمانی طور پر نہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی۔
دواؤں کی بندش اگر واقعی سائنسی یا حفاظتی بنیاد پر ہو تو عوام کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ لیکن اگر یہ بندش محض منافع یا دباؤ کا حربہ ہے تو یہ ایک ایسا ظلم ہے جس کا شکار ہر عام شہری ہو رہا ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ سوال اٹھائیں:

“کیا دوا بند ہونی چاہیئے ، یا ضمیر؟”

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں