ارشد شریف مرحوم کے ساتھی، کولیگ اور میرے صحافتی استاد، بیورو چیف سنو نیوز، کامران خان صاحب کے شعر کے ساتھ، میں ارشد شریف کی تیسری برسی پر قلم اٹھا رہا ہوں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ارشد شریف کی برسی اور وفا و کوفہ کا ذکر کیوں؟ جی بالکل، آج میں لکھوں گا اس بے وفائی کی داستان، جس کے لیے ارشد شریف نے اپنی جان تک نچھاور کر دی، اور وہی لوگ جو ان کی حفاظت کے وعدے کرتے تھے، محض تین برسوں میں انہیں بھول گئے اور ارشد شریف کو ماضی کا قصہ بنا دیا۔
لیکن نہیں، ارشد شریف کی صحافتی برادری انہیں کبھی نہیں بھولے گی۔ آج تیسری برسی پر سیاسی جماعتوں کے کیمپ ویران ہیں، ایوان سنسان ہیں۔ نہ کوئی مرکزی تعزیتی ریفرنس، نہ کوئی پیغام، نہ کوئی تقریب، نہ سgjvیمینار۔ مگر پریس کلبز کے باہر آج بھی ارشد شریف کی یاد میں شمعیں جل رہی ہیں، جیسے اندھیروں میں کسی جاوید چراغ کی روشنی ہر دل میں امنگ کی نرگس اُگائے۔ ان کی یادوں کا ہر لمحہ، ہر گوشہ، ہر صحافتی ادارہ، ان کی قربانی کی روشنی سے منور ہے، اور ہر قلم، ہر کاغذ ان کے جذبے کی خوشبو لیے ہوئے ہے۔
اخبارات کے صفحات پر صحافی ان کی یادوں کو اپنے قلم و قرطاس سے روشن کر رہے ہیں۔ جن کے لیے انہوں نے اپنی جان داؤ پر لگائی، ان کا سوشل میڈیا خاموش ہے، قلم جنبش کرنے سے گریزاں ہے، موبائل کی کی پیڈ ساکت ہے، مگر ارشد شریف کو اپنی برادری نے کبھی نہیں بھلایا۔ ان کی یادوں میں ہر خبر، ہر سوال، ہر تصویر زندہ ہے، جیسے وہ ابھی ہمارے سامنے کھڑے ہوں، ہمیں دیکھ رہے ہوں اور ہمیں سچائی کے آئینے میں جھانکنے کی تلقین کر رہے ہوں۔
> تم ہو اک زندۂ جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے
اور بھی گہرا کر دیا۔ قتل سے قبل کے مہینوں میں، ارشد شریف نے بے خوف قلم کے ساتھ پاکستان کی موجودہ حکومت اور اس کی طاقتور عسکری قوتوں کو زبانی تنقید کا نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے ان کی ہلاکت میں ریاست کے ملوث ہونے کے شبہات کو تقویت ملی۔ ان کی موت کے بعد ملک کے مختلف سیاسی دھڑوں نے ان کی قربانی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا، اور یوں جانب دار صحافت کے خطرات ایک تلخ حقیقت کے طور پر عیاں ہو گئے۔
امر دل دہلا دینے والا اور وہی وقت کے ساتھ مضحکہ خیز بھی تھا کہ جس سیاسی جماعت کی حمایت ارشد شریف کر رہے تھے، اس کے کئی لیڈران یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ قاتلوں کے نام افشا کریں گے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو حکومت سے سوال کر رہے تھے کہ قاتل کون ہے؟ مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ قاتلوں کے نام جانتے ہوئے بھی خاموش رہے، اور اس خاموشی کی گونج، ان کے قول و فعل میں تضاد کی ایک تلخ تصویر بن گئی۔
ازہر درانی برسوں قبل شہر اقتدار میں ہی ایک مشاعرے میں ان کرداروں کو اپنے شعر سے بے نقاب کیا تھا:
> شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
مراد سعید، جس کے پاس ارشد شریف کا لیپ ٹاپ تھا، عدالت میں پیش کیوں نہ ہوئے؟ اگر ان کے پاس ثبوت تھے تو تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش کیوں نہیں کیے گئے؟ پاکستان تحریک انصاف، جس نے ارشد شریف کی زندگی کے آخری عشرے میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا، آج تک اس کیس کی پیروی کیوں نہیں کر سکی؟ ایوان میں آواز کیوں بلند نہیں ہوئی؟ ارشد شریف کی والدہ نے سلمان اقبال، فیصل واوڈا اور مراد سعید کو نامزد کیا، مگر اس پر کوئی جواب نہیں آیا، اور انصاف کی صورت یہ تھی کہ سچ ہمیشہ تاخیر کا شکار رہا۔
قتل سے ایک ماہ قبل، سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے وفادار صحافی کو ملک سے باہر جانے کا مشورہ دیا، وجہ کہ ان کی جان کو حقیقی خطرہ لاحق تھا۔ حیران کن اور افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ شخص، جس نے حق اور سچ کی راہ میں اپنی پوری توانائی صرف کی، جس کے قلم کی صدائیں عوام اور عدالت دونوں سن سکتے تھے، پھر بھی محفوظ راستہ اور بنیادی سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ عمران خان، جو اقتدار سے تازہ تازہ الگ ہوئے تھے، لیکن خیبرپختونخوا، پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ان کی جماعت کی حکومت تھی، پھر بھی یہ انسانی شعور سے بالاتر عمل کیوں ہوا؟ کیا اتنا مشکل تھا کہ ایک جان کی حفاظت یقینی بنائی جاتی؟ کیا اصول اور انسانی وقار اتنی آسانی سے نظر انداز کیے جا سکتے ہیں؟
یہ سوال، طنز اور تلخ حقیقت ایک ساتھ سامنے آتی ہے: وہ لوگ جو آج بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں کہ قاتلوں کا سراغ لگائیں گے، مرنے والے کے حق میں ثبوت پیش کرنے کی ہمت کیوں نہیں کر سکے؟ وہی لوگ، جن کے پاس طاقت اور اثر و رسوخ تھا، خاموش رہے اور سچ کی آواز کو دبا دیا۔ یہ لمحہ ہمیں نہ صرف انسانیت کی کمزوری بلکہ سیاست کی بے حسی اور حق کے ساتھ کھڑے ہونے والے افراد کے ساتھ کیے جانے والے دھوکے کا بھی احساس دلاتا ہے۔
> "کوئی حسینی نہ نکلا میرے رفیقوں میں،
دیا بجھا کے جلایا تو میں اکیلا تھا”
سابق وزیراعظم جنازے میں شریک نہ ہوئے، نہ ہی تعزیت کے لیے کسی دادرسی کے قدم اٹھائے، بلکہ جس دن ارشد شریف کا جسد خاکی وطن واپس آیا، اسی دن آزادی مارچ کا اعلان کر دیا گیا۔ کیا سیاسی سرگرمیاں دو دن کے لیے معطل نہیں ہو سکتیں؟ کیا سوگ کا اعلان کرنا اتنا مشکل تھا؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ ارشد شریف نہ سیاسی کارکن تھے، نہ کوئی سیاسی رہنما؛ وہ ایک صحافی تھے، اصول اور سچ کے لیے جینے والے، جس کی قربانی کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، اور بعد میں ٹشو کی طرح پھینک دیا گیا۔ شاعر محمد دین تاثیر کے بقول۔۔۔۔۔۔
داورِ حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
جن کو خلوت میں بھی تاثیرؔ نہ دیکھا تھا کبھی محفلِ غیر میں اب وہ سرِ عام آتے ہیں
ارشد شریف کی قربانی، صحافت کے اصول اور انسانی ضمیر کے لیے ایک زندہ پیغام ہے۔ وہ شخص جو اپنے پورے قد و قامت کے ساتھ سچ کے لیے کھڑا ہوا، مر کر بھی امر ہو گیا۔
عزیزان من!! یاد رکھیں قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی، (نظم نگار ؛ ارسلہ شاہ) کی نظم ملاحظہ فرمائیں
قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی! "
میں گنسلوں سے گرتی چڑیوں کو تمہارا پیغام سناتی ہوں
قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی
پیڑ کی جڑ میں اگرچہ زہر بھردیا گیا ہے
مگر…
ہمارا لہو اسے پھر سے ہرا کردے گا
ہمت مت ہارنا
اپنی چونچوں میں قطرہ در قطرہ پانی بھر کر لاتی رہنا
ہم نہیں ہوں گے
مگر ہمارا نام آگ بجھانے والوں کے ساتھ لیا جائے گا "
میں تمہارا پیغام راستہ بھولنے والے طائروں کو سناتی ہوں
جو سیاہ رات کے طفیل ڈار سے بچھڑ گئے ہیں
” ہمت مت ہارنا
نفرت کی , تنہائی کی یا پھر قید کی….
رات کتنی ہی طویل ہو
اسے ختم ہو جانا ہے”
”روشنی کا سفر
روشنی بانٹنے سے شروع ہوتا ہے!
اپنے پر جلا کر
راستہ دکھانے والوں کے نام
جگنوؤں کے ساتھ لیے جائیں گے
ہمّت مت ہارنا
قربانی رائیگاں نہیں جاتی!
سیاسی جماعتیں، جب اپنے سیاسی رہنماؤں کو نہیں پوچھتیں، اپنے وفادار کارکنوں کو اہمیت نہیں دیتیں، تو پھر ایک صحافی کس کھیت کی مولی ہے؟ حامد میر اس کی واضح مثال ہیں، جو دوران اقتدار عمران خان پر بے باک تنقید کرتے رہے، اور جنہیں عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد برداشت کرنے کے بجائے ٹویٹر پر ان فالو کر دیا۔ پاکستان میں وہ واحد صحافی تھے جسے اس وقت عمران خان فالو کر رہے تھے، لیکن جیسے ہی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور حکومت گئی، حامد میر نے سچ اور اصول کے ساتھ اپنی وفاداری برقرار رکھی، اپوزیشن کے کیمپ کے ساتھ کھڑے رہے۔ ان کی ہمدردیاں کسی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ صحافت کے اصول اور عوام کے مفادات کے ساتھ وابستہ ہیں۔
مجھے وہ وقت یاد ہے جب مطیع اللہ جان اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر ارشد شریف اور عمران ریاض سے سوال کر رہے تھے، مگر جواب دینے کے بجائے عمران ریاض نے اخلاق اور شرافت کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے الزامات لگائے اور مسلسل ہنستے رہے۔ وہی منظر یاد آتا ہے جب پریس کانفرنسز میں مطیع اللہ جان اور دیگر صحافیوں کو، جو اس وقت برسر روزگار نہیں تھے، یوٹیوبر صحافی کہہ کر تذلیل کی گئی، اور اس پر وزیر اطلاعات فواد چودری نے بالکل نظر انداز کیا۔
شاعر نے کیا خوب منظر کشی کی ہے اس ستم کے عالم کی:
> "اس ستم کے دور میں ہم اہل دل ہی کام آئے،
زبان پہ ناز تھا جن کو وہ بے زباں نکلے۔”
یہ شعر آج بھی وہی درد اور بے بسی بیان کرتا ہے جو صحافت کے وفاداروں کو سیاسی طاقتوں کے جبر کے سامنے محسوس ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو اصول اور سچ کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں، اکثر بے زبانی اور تذلیل کا شکار ہوتے ہیں، مگر ان کی روشنی اور اثر کبھی مدھم نہیں ہوتا۔ آج کے منظر میں، یہی صحافی، اصول، دیانت اور سچائی کی علامت ہیں،
قابل صد ستائش ہیں وہ صحافی جو نامساعد حالات اور مُشکل ترین زندگی کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنے سوچ اور نظرئیے کو ہی مقدم سمجھتے ہیں۔
اور سیاسی کارکنوں کے لیے سبق ہیں کہ صحافت کا مقصد حکومت کی تعریف نہیں بلکہ اس کی خامیوں کو بے نقاب کرنا اور عوام کے حق میں آواز بلند کرنا ہوتا ہے۔
فواد چوہدری اور ان جیسے دیگر سیاسی موقع پرست کنارے ہو چکے ہیں، لیکن وہی صحافی آج تحریک انصاف کی زبان ہیں، وہی آواز ہیں جو خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، پروگرام کرتے اور سوال اٹھاتے ہیں۔ آج تحریک انصاف کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اصل صحافت کیا ہے، اصل وفاداری اور سچائی کیا معنی رکھتی ہے۔ جیسا کہ فیض نے کہا تھا:
> "یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر رہ سیاہی لکھی گئی،
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے۔”
پاکستان میں سیاسی جماعتیں اکثر صحافیوں کی اہمیت کو نظر انداز کرتی ہیں۔ ارشد شریف سیاسی کارکن نہیں تھے، بلکہ ایک صحافی تھے، ایک ایسا انسان جسے سیاسی جماعت نے استعمال کیا اور بعد میں نظرانداز کر دیا۔ یہ واقعہ واضح کر گیا کہ صحافت حکومت کی تعریف کرنے کا نام نہیں بلکہ حکومت کی خامیوں کو بے نقاب کرنے کا نام ہے۔ حامد میر اس کی سب سے روشن مثال ہیں، جو دوران اقتدار عمران خان پر تنقید کرتے رہے، مگر بعد از اقتدار ان کی حمایت میں کھڑے رہے۔ اسی طرح مطیع اللہ جان اور دیگر صحافی آج بھی تحریک انصاف کے لیے پروگرام کرتے، سوالات کرتے، عوام اور اصول کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اصل صحافت کا معیار یہی ہے کہ خامیوں کو بے باک طریقے سے سامنے لایا جائے، تعریف نہیں کی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ تمام صحافیوں سے یہی گزارش ہے کہ خدارا اپنی برادری کو مت چھوڑیں، اپنے لوگوں پر تنقید مت کریں۔ مشکل کے وقت یہی صحافی، یہی پریس کلبز، آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ آج ارشد شریف کو بچھڑے تین برس بیت گئے، مگر تحریک انصاف کے مرکزی میڈیا سیل کی جانب سے کوئی تعزیتی یا مذمتی پیغام نہیں آیا۔ کسی رہنما نے پریس کانفرنس نہیں کی، اور ایک صوبے میں جہاں وہ حکمران جماعت ہے، وہاں کوئی تعزیتی تقریب بھی منعقد نہیں کی گئی۔ آج وہی پریس کلبز جو کبھی ارشد شریف اور ان کے ساتھیوں پر سیاسی اور حکومتی دباؤ کا الزام لگاتے تھے، وہی ان کے لیے دعائیہ تقریب اور احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں، مذمتی اور تعزیتی ریفرنس منعقد کروا رہے ہیں، جبکہ سیاسی جماعت اور اس کے لیڈران ارشد شریف کو بھول چکے ہیں۔
جیسا کہ شاعر نے خوب کہا:
> "ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستان میں،
ہمیں بھی یاد رکھنا چمن میں جب بہارا آئے۔”
یہ سوال اور تلخ حقائق ہمیں ایک کڑوی سچائی کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔ کیا اس سیاسی جماعت نے کبھی مڑ کر عدالتوں میں ارشد شریف کے کیس کی پیروی کی؟ کبھی مڑ کر ان کے اہل خانہ سے پوچھا؟ کبھی ان کی اہلیہ سے دریافت کیا کہ ان کی زندگی اور قربانی کے بعد ان کے دل پر کیا گزری؟ مجھے نہیں لگتا کہ کسی نے ان کی قبر پر، ان کی لحد کے پاس جا کر دعا بھی کی ہو۔ اگر آپ اپنے شہداء کے لیے برسیاں اور یادگار پروگرام منعقد کر سکتے ہیں، 26 نومبر کے شہداء کی یاد میں مجالس رکھ سکتے ہیں، تو ایک صحافی کے لیے کیوں نہیں؟ جس نے اپنی پوری زندگی آپ کی جماعت، آپ کے بیانیے اور اصولوں کے لیے وقف کر دی، لیکن پھر بھی وہ بھلا دیا گیا۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ارشد شریف نہ سیاسی کارکن تھا، نہ کسی اقتدار کا غلام؛ وہ ایک صحافی تھا، اصولوں اور سچ کے لیے جینے والا، جسے بعد میں وہی بھلا بیٹھے جس کے لیے اس نے جان دی۔
گئے دنوں کا سراغ لے کر
کدھر سے آیا، کدھر گیا وہ
عجیب مانوس، اجنبی سا
مجھے تو حیران کر گیا وہ
ایک موتی سی چھب دکھا کر
ایک میٹھی سی دھن سنوا کر
ستارہ شام بن کے آیا
برنگ خواب سحر گیا وہ
بقلم !! سردار محمد اویس

